گذشتہ چند برسوں میں ہوا بازی کی صنعت سے وابستہ بہت سے مبصرین آسٹریلیا میں پائلٹ کے بغیر چلنے والے نئے ڈرون طیارے کی پیش رفت سے خاصے متاثر نظر آئے۔ یہ ’لائل ونگ مین‘ کے نام سے معروف منصوبے کا حصہ ہے اور ایسا لگتا ہے یہ عسکری ہوا بازی کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دے گا۔
پہلی نظر میں آسٹریلیا کی یہ پیش رفت کوئی نئی بات نہیں۔ بغیر پائلٹ زمینی حملہ کرنے والا امریکی ساختہ طیارہ ’ریپر‘ (Reaper) کب سے موجود ہے، جسے امریکہ اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے چلا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر عراق اور افغانستان میں باغیوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں میں کامیابی کے سلسلے کا سہرا اس کے سر باندھا گیا۔ ریپر ایک پروپیلر سے چلنے والی مشین ہے جس کی رفتار 450 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس قسم کی صلاحیت بغاوت کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے بہترین ہے لیکن زیادہ کڑے فضائی ماحول میں ریپر مشکلات کا سامنا کرے گا۔
اس کے بعد ڈرون طیاروں کی اگلی نسل ہے جو ممکنہ طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ کئی ممالک جیٹ سے چلنے والے اگلی نسل کے ڈرون متعارف کروانے کو تیار بیٹھے ہیں جو مکمل روبوٹک لڑاکا طیاروں میں تبدیل ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔
’گھوسٹ بیٹ‘ (Ghost Bat) پہلی بار 2019 میں ایلون ایئر شو میں ابتدائی نمونے کے طور پر سامنے آیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ مقامی طور پر تیار ہونے والا پہلا آسٹریلوی طیارہ ہے۔ آسٹریلوی فضائیہ اور بوئنگ آسٹریلیا کے مشترکہ تعاون کے تحت یہ منصوبہ آگے بڑھ رہا ہے۔ برطانوی کمپنی بی اے ای سسٹمز بھی خاص طور پر کمپیوٹر اور آلات سازی کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر بوئنگ آسٹریلیا نے ابتدائی نمونے کو ساخت کے مرحلے سے لے کر آزمائشی پرواز تک محض تین سال کے اندر مکمل کرلیا، جو عصری پیمانے کے لحاظ سے انتہائی تیز رفتاری ہے۔ اس میں سنگل جیٹ انجن ہے اور یہ اسے سب سونک رفتار سے فضا میں سفر کرنے کے قابل بنائے گا لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی لڑاکا طیارے کی نسبت زیادہ محدود ہوگی اور فوری طور پر سامنے آنے والی چڑھائی یہ ڈرامائی انداز اور تیز رفتاری سے چڑھنے کے قابل نہیں ہو گا۔ نیز گھوسٹ بیٹ کی ثابت قدمی کا دورانیہ چار گھنٹے سے زیادہ ہونے کا امکان نہیں۔
لیکن گھوسٹ بیٹ اور اس کے عالمی حریف ریڈیو سے کنٹرول ہونے والے کھلونے نہیں ہیں۔ وہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں تاکہ کچھ فیصلے اپنے طور پر کر سکیں۔ آسٹریلوی حکومت کے مطابق اس میں براہ راست گولہ بارود سے فائر کرنے کا اختیار شامل نہیں ہو گا کیونکہ اس قسم کے فیصلے اب بھی اچھے خاصے اخلاقی اور سیاسی مضمرات رکھتے ہیں۔ اگر مصنوعی ذہانت سے لیس ڈرون جیتے جاگتے لوگوں کی زندگیاں لے لیتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ سافٹ ویئر ڈیزائنرز؟ یا وہ حکومت جس نے یہ تیار کروائے؟
یہ طویل عرصے سے سائنس فکشن کا موضوع چلا آتا ہے جیسا کہ ٹرمینیٹر فرنچائز کے بھیانک نتائج کا خوفناک خواب۔
چوں کہ مصنوعی ذہانت کا ابھی انسانی عقل سے آگے نکلنا باقی ہے اس لیے کچھ کام ایسے ہیں جنہیں سرانجام دینے کے لیے خود مختار طیارے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کو کچھ چیزوں میں برتری بھی حاصل ہے، جن میں سے بعض کو اداکار ایڈ ہیرس نے حالیہ فلم ’ٹاپ گن‘ میں ایڈمرل کا کردار ادا کرتے ہوئے نمایاں کیا ہے۔
اس فلم میں اپنی آخری تقریر میں ہیرس مرکزی کردار (ٹام کروز) کو یاد کرواتے ہیں: ’خاتمہ ناگزیر ہے میورک، تمہاری نوع معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘ (‘The end is inevitable, Maverick, your kind is heading to extinction’)
جب پائلٹ کی جگہ کمپیوٹر چِپ لے لیتی ہے تو پھر تھکاوٹ، گھبراہٹ یا خوش فہمی کا کوئی احتمال نہیں رہتا، وہ تمام مسائل جو ٹاپ گن فلائٹ سکول کے کرداروں کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے مسائل فلم کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں لیکن اگر وہ جنگ کی عملی لڑائی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو پھر زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔
گھوسٹ بیٹ سسٹم کی ایجادات میں سے ایک ماڈیولر ڈیزائن کی اختراع ہے۔ متعلقہ مقام پر پہنچتے ہی اس کا ناک والا حصہ موقعے پر موجود عملے کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ایسی ہر تبدیلی سے اس کے کردار کی نوعیت مختلف ہو جاتی ہے۔ اسے اس طرح سے تیار کیا گیا ہے کہ یہ انسان بردار طیارے کے ساتھ ٹیم کے حصے کے طور پر بھی اڑ سکتا ہے۔
عرصہ دراز سے یہ تشویش پائی جا رہی تھی کہ کسی سنگین جنگ کی صورت میں حریف، براعظم آسٹریلیا میں موجود آسٹریلوی یا اس کے اتحادیوں کے تمام یا بیشتر ہوائی اڈوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا جس سے رائل آسٹریلین ایئر فورس کے لیے روایتی جنگی طیارے چلانا مشکل ہو جائے گا۔
گھوسٹ پروجیکٹ کا ایک مضبوط پہلو نسبتاً مختصر ہوائی اڈوں سے اڑان بھرنے اور اترنے کی صلاحیت ہے اور اس طرح یہ آسٹریلوی حکومت کو اپنے اڈوں پر تباہ کن حملوں کے بعد بھی فضائی موجودگی برقرار رکھنے کے قابل بنائے گا۔
دریں اثنا کچھ ڈرون طیاروں کو پہلے ہی دوران پرواز ایندھن بھرنے کے تجربات کے لیے تیار کر لیا گیا ہے۔ بحر ہند، بحر الکاہل اور آسٹریلوی براعظم کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ رائل آسٹریلین ایئرفورس کو وسیع پیمانے پر فضائی طاقت برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہو گا، اس لیے لازم ہے کہ فضا میں ایندھن بھرنے کا بندوست ہو۔
آسٹریلوی فضائیہ نے فضا میں ایندھن بھرنے والی ایئر بس پہ بھاری سرمایہ کاری کی ہے لیکن ان خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ ایئر بس ائیر بورن ٹینکرز جیسے بڑے طیارے دشمن کی فوج کا خصوصی ہدف ہوں گے۔ ایسے میں ہنگامی حالات کے دوران انسان بردار جہازوں کو ایندھن پہنچانے والے بغیر پائلٹ چھوٹے طیارے شاہی آسٹریلوی فضائیہ کو بحر ہند پر کارروائی جاری رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کے منصوبے ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں۔ سنگاپور کی کیلی ایرو سپیس بھی جیٹ سے چلنے والا ایک خود مختار ہوائی جہاز تیار کر رہی ہے۔ اس کے طیاروں پر کاربن فائبر کا خول ہے، جو ان کے ریڈار کی زد پر آنے کا خطرہ نہایت کم کر دے گا۔ واضح طور پر سنگاپور نے اپنی مشین کے برآمدی ورژن پر کافی منافع حاصل کیا ہے۔
اسی تصور کا امریکی ورژن برف پر چلنے والے چھوٹی سی گاڑی سے چھوڑا جا سکتا ہے جو جاسوسی یا نگرانی کی کارروائیوں کے لیے انتہائی مناسب ہے۔ اس کے پاس بغیر پائلٹ چھوٹے ڈرون چھوڑنے کی بھی صلاحیت ہے جو جوابی کارروائی کے طور پر دشمن کے علاقے میں مزید اندر تک گھسنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ Northrop Grumman X- 47 B امریکہ کی بغیر پائلٹ والی فوجی گاڑی ہے جو طیارہ بردار بحری جہاز سے اڑان بھرنے اور اور اترنے کی ثابت شدہ صلاحیت رکھتی ہے۔
اپنے سنگاپوری حریف کی طرح یہ جہاز بنیادی طور پر بغیر دُم کے ہے، جو دشمن کے ریڈار سے اس کی موجودگی چھپانے کا امکان مزید بڑھا دیتا ہے۔ محض ایک جیٹ انجن اسے 11 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کے قابل بناتا ہے اور گمان کیا جاتا ہے کہ یہ دو ٹن تک کا وزن لے کر چل سکتا ہے۔
بیشتر طیارہ بردار بحری جہازوں سے اڑنے والے بیشتر ہوائی جہازوں کی طرح X-47 B میں بحری جہاز کے مخدوش حالات کے دوران تختوں کے نیچے آسانی سے ذخیرہ کرنے کے لیے فولڈنگ ونگز ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فضائی جنگ کے بنیادی موضوعات میں سے ایک مسلسل حملوں سے مخالفین کو کمزور کرنا ہے۔ ایک فضائیہ ہر مشن میں کتنے طیارے کھو سکتی ہے؟ لاک ہیڈ مارٹن کا روایتی لڑاکا طیارہ ایف 35 (انسان بردار) امریکہ ساختہ جہاز ہے، جو آج کل جس بھی برآمدی مقابلے میں جائے سب سے آگے نکل جاتا ہے۔
لیکن ایف 35 بہت مہنگا ہے اور ایک دوسرے پر گولہ بارود والی جنگ میں عین ممکن ہے کہ کچھ حکومتیں اسے کھونے کے خوف سے استعمال کرنے میں متذبذب ہوں۔
اگر ہر انفرادی ہوائی جہاز کم قیمت پر آ رہا ہے تو اسی قیمت پر مزید طیارے بنانا ممکن ہونا چاہیے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر سٹالن کی کہی گئی بات بہت مشہور ہے کہ ہمہ گیر جنگ میں ’مقدار کا اپنا ہی ایک معیار یے۔‘ ممکنہ طور پر اس طرح کی بے رحم نکتہ سنجیاں مستقبل کی جنگوں میں بھی اثرانداز ہوں گی۔
بعض تخمینوں کے مطابق جیٹ سے چلنے والے ڈرون محض 20 لاکھ ڈالر کی معمولی رقم میں تیار ہو کر ہوا میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک ایف 35 آپ کو دس کروڑ ڈالر سے زیادہ کا پڑے گا۔ ایک انفرادی طیارے کی قیمت ہر وقت بڑھ رہی ہے۔ یہ اس سے ہٹ کر ہے جس کے بعد ہمیں پائلٹ کے اخراجات کا حساب لگانے بیٹھنا پڑے گا۔
درایں اثنا گوسٹ بیٹ جیسی مشینیں ایف 35 جیسے انسان بردار لڑاکا طیاروں کے ساتھ قریبی دائرے کی شکل میں اڑ سکتی ہیں جس سے کم لاگت کے ذریعے فضا میں زیادہ سے زیادہ مشینیں موجود ہوں گی۔
اگلی نسل کے ڈرون طیاروں کا ایک مجوزہ کردار کسی حریف کی طرف سے کیے جانے والے انسان بردار جہاز پر حملے کو دھوکہ دہی سے اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ دور سے انسان بردار طیارے اور بغیر پائلٹ ونگ مین کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ فضا میں تیرنے والا ایک میزائل صرف ایک ہدف کو تباہ کر سکتا ہے اس لیے ایک پائلٹ جس کے ارد گرد کئی ڈرون طیارے گھیرا ڈالے ہوں اس کے مارے جانے کے امکانات خاصے کم ہو جاتے ہیں۔
اب تک یہ کام شعلوں سے لیا جاتا رہا جو جیٹ انجن کے درجہ حرارت پر جلتے ہیں۔ اس قسم کے شعلے حالیہ ’ٹاپ گن‘ فلم میں بہت نمایاں طریقے سے دکھائے گئے ہیں اور انہیں اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ شعلوں کے پیچھے آنے والے میزائل الجھ کر رہ جائیں۔ اصل وجہ کیا تھی کہ انفرا ریڈ فلیئرز ایسے حریف کے خلاف کارآمد ثابت ہوں گے جو پہلے سے ہی ریڈار گائیڈڈ میزائلوں پر انحصار کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے میں پروڈیوسر ناکام رہا حالانکہ شعلوں والے بہت سے سسٹمز chaff خارج کرتے ہیں جو اصل ہدف کی جگہ ایک غلط ریڈار سگنل پیدا کرتا ہے۔
تاہم یہ سب مستقبل کی باتیں ہیں۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ زمین پر موجود افواج کی جانب سے معاونت اور جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے ڈرون طیارے اکثر ایک بڑے پرندے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور بصری طور پر ان کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ عسکری پیمانے کے مطابق وہ ناقابل یقین حد تک کم قیمت ہوتے ہیں جنہیں کھونے کے بعد باآسانی اور فوراً ان کا متبادل فراہم کیا جا سکتا ہے۔
پہلی ویتنام جنگ کے ایک فیصلہ کن معرکے Dien Bien Phu میں فرانسیسی فوج نے خود کو ایک بہتر مقام پر نصب توپ خانے کی گولہ باری میں گھرا ہوا پایا۔ بدقسمتی سے فرانسیسیوں نے ایک ایسے ہوائی اڈے پر قبضے کی غلطی کی جو ایسے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا جو ویت نامی لشکر کی رسائی میں تھے۔ ایک بار جب ویتنامیوں نے ایک مناسب قسم کے بلند مقام پر قبضہ کر لیا تو وہ دیکھ سکتے تھے کہ توپ کا ایک ایک گولہ کہاں اتر رہا ہے۔ پھر اس کے بعد فرانسیسی فضائیہ کے ناکارہ ہونے میں ذرا دیر نہ لگی۔
تب اسے فرانسیسی فضائیہ کی فاش غلطی تصور کیا گیا تھا لیکن ایسی خامیاں بہت جلد دوسری افواج کے لیے پیمانہ بن گئیں۔ ہاتھ سے پھینکے جانے والے ڈرونز اور تختے پر دھرے ویب کیمروں کی دستیابی کی بدولت اب دنیا میں تقریباً کسی بھی فوج کے پاس بہتر مقام سے فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ڈرونز کے موجودہ ضروریات کے عین مطابق ہونے کے سبب علاقائی توپ خانے ماضی کی گرد میں دفن ہونے جا رہے ہیں۔
کچھ مبصرین کے لیے عسکری ہوا بازی سے انسانی پائلٹوں کا خاتمہ حکومتوں کو جنگ میں جانے کے لیے زیادہ مائل کر سکتا ہے۔ دور دراز ملکوں سے آنے والی اپنے سپاہیوں کی لاشیں جمہوریت میں کبھی مقبول نہیں رہیں اور جدید دور میں اہل مغرب کے بہت سے سیاست دان اپنے فوجی اہلکاروں کو نقصان پہنچانے کے معاملے میں ہوشیار ہو چکے ہیں۔
اس طرح کے نظاموں کو بڑے پیمانے پر متعارف کروانے کے مضمرات شاید ہوا بازی کی مشق کی تکنیکی خصوصیات سے بالاتر ہوں۔ کیا اس طرح کی ٹیکنالوجی دور دراز بیٹھے دشمن کے خلاف اعلان جنگ یا کم سے کم کسی قسم کی فوجی کارروائی کے خطرے کے سیاسی اقدام کا امکان کم کر دے گی؟
1990 کی دہائی کے اوائل میں پہلی خلیجی جنگ کے بعد سے کروز میزائلوں کے حملے امریکہ کی اس شعبے میں پالیسی کا غالب عنصر رہے۔ یہ سچ ہے کہ کروز میزائل بغیر پائلٹ کے ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ایک ہی بار قابلِ استعمال ہتھیاروں کے نظام کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس معنی میں مہنگے پڑتے ہیں۔ گھوسٹ بیٹ جیسی مشینیں بہت سستی ہوں گی۔
فوجی ہوا بازی ایک بہت مہنگا کاروبار ہے اور امن کے وقت فضائیہ کو چلانے کی لاگت پوری مغربی دنیا کے ٹیکس دہندگان کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ بنی ہوئی ہے۔ مغربی اتحاد میں شامل ہر ایک ملک کے لیے اپنا خود مختار لڑاکا طیارہ ڈیزائن کرنا اور بنانا واقعی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ امریکہ کے کچھ اتحادی امریکہ پر مکمل انحصار سے احتیاط برت سکتے ہیں لیکن بہرحال مشترکہ منصوبے کم لاگت میں بہتر نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔
لڑاکا طیاروں کی حالیہ سودے بازیوں میں ایف 35 کے تسلط کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور برطانوی ٹائفون جہاز کا پیداواری سلسلہ واضح طور پر مایوسی کا شکار ہے لیکن ہر ایف 35 کے 15 فیصد اجزا برطانیہ میں تیار کیے جاتے ہیں اور برطانوی ایرو سپیس انڈسٹری ایف 35 سے متعلق برآمدی معاہدوں کی حالیہ لہر سے اچھی طرح فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ شاید ہمیں ڈرون کی اگلی نسل کے لیے بھی بالکل ایسا ہی کرنا چاہیے۔
© The Independent