ایک چارج پر سالوں چلنے والی تابکاری بیٹری

محققین لیتھیئم کے متبادل کے طور پر ایسی محفوظ ایٹمی بیٹریوں کی تیاری پر غور کر رہے ہیں جنہیں بار بار چارج کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

بیٹری کے تعارفی استعمال کے دوران محققین نے مشاہدہ کیا کہ جب دونوں برقیروں (الیکٹروڈز) پر موجود ریڈیوکاربن سے بیٹا شعاعیں خارج ہوتی ہیں تو وہ الیکٹرانز کا ایک سلسلہ پیدا کرتی ہیں جو ایک بیرونی سرکٹ سے گزرتا ہے اور قابل استعمال بجلی پیدا کرتا ہے (Su-Il In)

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ کاربن کی تابکار قسم سے چلنے والی ایک چھوٹی جوہری بیٹری کا ابتدائی نمونہ تیار کر لیا گیا ہے جو ایک بار چارج کرنے پر کئی دہائیوں بلکہ ممکنہ طور پر صارف کی پوری زندگی کے دوران محفوظ طریقے سے مختلف ڈیوائسز کو توانائی فراہم کر سکتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ایک پیس میکر اگر ایسی بیٹری سے چل رہا ہو تو وہ کسی شخص کی پوری زندگی تک کام کر سکتا ہے، اور یوں سرجری کے ذریعے بار بار بیٹری تبدیل کرنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔

تاہم سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیٹری کو بہتر بنانے کے لیے اب بھی مزید تحقیق درکار ہے تاکہ اس کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بہتر بنائی جا سکے۔

جدید دور میں موبائل فونز اور دیگر بہت سی ڈیوائسز میں لیتھیئم آئن بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں، جو عام طور پر ایک چارج پر چند گھنٹے سے لے کر چند دن تک چلتی ہیں۔

تاہم، سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ بیٹریاں استعمال کے ساتھ ساتھ کمزور پڑ جاتی ہیں اور انہیں بار بار چارج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

لیتھیئم کی کان کنی بھی ماحول کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ یہ توانائی کے بہت زیادہ استعمال کا تقاضا کرتی ہے اور اس میں بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی لیے محققین لیتھیئم کے متبادل کے طور پر ایسی محفوظ ایٹمی بیٹریوں کی تیاری پر غور کر رہے ہیں جنہیں بار بار چارج کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

اس مطالعے کے سربراہ محقق سول ان، جو جنوبی کوریا کے ڈیگو گیونگبک انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’لیتھیئم آئن بیٹریوں کی کارکردگی تقریباً اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔‘

یہ بیٹریاں توانائی پیدا کرنے کے لیے محفوظ تابکار مواد سے خارج ہونے والے اعلیٰ توانائی والے ذرات کو استعمال کرتی ہیں۔ یہ مواد تابکاری خارج کرتے ہیں، جسے مخصوص حفاظتی مواد کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، بیٹا شعاعوں، یعنی تیز رفتار الیکٹرانز کو صرف ایلومینیم کی ایک پتلی چادر سے روکا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے بیٹا وولٹائکس (betavoltaics)  ایٹمی بیٹریوں کے لیے ایک محفوظ انتخاب سمجھے جاتے ہیں۔

حال ہی میں امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ایک اجلاس میں پیش کی گئی نئی تحقیق میں محققین نے کاربن 14 (جو کاربن کی ایک غیر مستحکم اور تابکار قسم ہے) سے چلنے والی بیٹا وولٹائک بیٹری کا پروٹوٹائپ پیش کیا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن کی یہ قسم صرف بیٹا شعاعیں خارج کرتی ہے جنہیں دھات کی ایک چادر سے آسانی سے روکا جا سکتا ہے، اور یہ ایٹمی بجلی گھروں میں ایک ضمنی پیداوار کے طور پر بھی ’باآسانی دستیاب‘ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ان کہتے ہیں کہ ’میں نے کاربن کے ایک تابکار آئسوٹوپ کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ یہ صرف بیٹا شعاعیں پیدا کرتا ہے۔‘

اس بیٹری میں، جب بیٹا ذرات ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ پر مبنی نیم موصل سے ٹکراتے ہیں، تو ’تسلسل کے ساتھ الیکٹرانز کی منتقلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

بیٹری کے تعارفی استعمال کے دوران محققین نے مشاہدہ کیا کہ جب دونوں برقیروں (الیکٹروڈز) پر موجود ریڈیوکاربن سے بیٹا شعاعیں خارج ہوتی ہیں تو وہ الیکٹرانز کا ایک سلسلہ پیدا کرتی ہیں جو ایک بیرونی سرکٹ سے گزرتا ہے اور قابل استعمال بجلی پیدا کرتا ہے۔

چوں کہ ریڈیوکاربن بہت آہستہ خراب ہوتا ہے اس لیے محققین کا کہنا ہے کہ ایک خیال کے طور پر یہ بیٹری کسی شخص کی پوری زندگی تک چل سکتی ہے۔

ڈاکٹر سول ان نے کہا کہ ’ہم انگلی جتنی ڈیوائسز میں محفوظ ایٹمی توانائی شامل کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بیٹریاں خاص طور پر طبی آلات کے لیے بہت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی