آبنائے تائیوان کے حساس روٹ سے منگل کو ایک امریکی بحری جہاز ایک بار پھر سے گزرا، جس کو امریکی فوج نے معمول کی سرگرمی قرار دیا مگر ایسا کوئی بھی عمل روایتی طور پر چین کو ناگوار گزرتا ہے جس کے خیال میں یہ صرف واشنگٹن کی طرف سے علاقائی کشیدگی بڑھانے کی کوشش ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی بحریہ نے کہا کہ گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر ملیئس نے بین الاقوامی قانون کے مطابق بین الاقوامی پانیوں میں ’معمول کے مطابق آبنائے تائیوان سے گزرا۔‘
بحریہ نے مزید کہا: ’آبنائے تائیوان کے ذریعے جہاز کی آمدورفت ایک آزاد اور کھلے انڈوپیسیفک کے لیے امریکی عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکہ کی فوج جہاں بھی بین الاقوامی قانون اجازت دیتا ہے وہاں پرواز کرتی ہے، جہاز بھیجتی ہے اور کام جاری رکھتی ہے۔‘
چین کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
گذشتہ ماہ چینی فوج نے آبنائے تائیوان کے ذریعے جنگی جہاز بھیجنے پر امریکہ اور کینیڈا کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
چین کا دعویٰ ہے کہ جمہوری طور پر حکومت کرنے والا تائیوان اس کا اپنا علاقہ ہے، اور اس نے پچھلے ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے میں تائیوان کے فضائی دفاعی زون میں بار بار فضائیہ کے مشنز بھیجے، جس کی تائی پےنے مذمت کی ہے۔
زیادہ تر ممالک کی طرح امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کوئی رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن وہ اس کا سب سے اہم بین الاقوامی حمایتی اور اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجنگ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں تائیوان کو سب سے حساس اور اہم مسئلہ قرار دیتا ہے۔
امریکی بحریہ کے جہاز تقریباً ہر ماہ آبنائے تائیوان سے گزر رہے ہیں، جس سے بیجنگ اشتعال میں آسکتا ہے۔ امریکی اتحادی بھی کبھی کبھار آبنائے تائیوان کے ذریعے بحری جہاز بھیجتے ہیں، جیسے ستمبر میں برطانیہ نے کیا۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین نے تائیوان کی فرموں کو جزیرے کی آزادی کی حمایت کرنے کے خلاف متنبہ کیا۔
چین کے ریاستی میڈیا کے مطابقت مین لینڈ ریگولیٹرز نے ائیوان کے ایک گروپ پر جرمانہ عائد کیا ہے کیونکہ تائی پے اور بیجنگ کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے چین میں کام کرنے والی تائیوان کی کمپنیوں اور ان میں سرمایہ کاری کرنے والی مقامی فرموں پر معاشی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
صدر سائی انگ وین کے 2016 کے انتخاب کے بعد سے تائیوان پر فوجی، سفارتی اور اقتصادی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ وہ اس جزیرے کو ’پہلے سے ہی آزاد‘ اور نہ کہ ’ایک چین‘ کے حصے کے طور پر دیکھتی ہیں۔