تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات میں 10 لاکھ لوگ مارے گئے، ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو سرحد کے دونوں طرف ہجرت کرنی پڑی، نتیجتاً نفرت کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے آج تک خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
تقسیم کے وقت کے فسادات کی ابتدا تو 16 اگست 1946 کو کلکتہ کے فسادات سے ہو چکی تھی تاہم راولپنڈی میں مارچ 1947 کو ہونے والے فسادات نے تو گویا تقسیم کے خون آلود ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ اگر یہ فسادات نہ ہوتے تو ماہرین کا خیال ہے کہ شاید پاکستان اور بھارت آج امریکہ اور کینیڈا کی طرح کے ہمسائے ہوتے۔
تارا سنگھ کا بیان جس نے آگ لگا دی
تین مارچ کو لاہور میں پرانی انارکلی میں واقع کپورتھلہ ہاؤس میں ایک اجلاس ہوا جس میں ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے تارا سنگھ کو پاکستان کے قیام کے خلاف مہم چلانے کی ذمہ داری دی گئی۔ وہاں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 11 مارچ کو ’اینٹی پاکستان ڈے‘ منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو اور سکھ جاپانیوں اور نازیوں کی طرح خودکش حملوں کے لیے تیار ہو جائیں، سکھ پنجاب پر پہلے کی طرح دوبارہ اپنا تسلط قائم کریں گے۔
چار مارچ1947 کو جب پنجاب اسمبلی کے اندر پاکستان میں شمولیت کرنے یا نہ کرنے پر بحث ہو رہی تھی، اس وقت پنجاب اسمبلی کے باہر مسلم لیگی کارکن پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ اسمبلی سے باہر آئے اور کرپان نکال کر نعرہ لگا دیا کہ جو پاکستان مانگے گا اسے قبرستان دیں گے۔
زبان سے نکلے الفاظ واپس نہیں آتے، بس پھر کیا تھا، ماسٹر تارا سنگھ کے بیان سے پنجاب میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس کی ابتدا ماسٹر تارا سنگھ کے گاؤں ہرنال سے ہوئی جو ضلع راولپنڈی میں مندرہ چکوال روڈ پر واقع تھا۔ مسلمان مظاہرین نے اس گاؤں میں سکھوں کے مکانات کو آگ لگا دی، 59 سکھ قتل کر دیے گئے، ان مقتولین میں ماسٹر تارا سنگھ کی والدہ بھی شامل تھیں۔
بھارتی مصنف گیانندرا پانڈے اپنی کتاب Remembering Partition: Violence, Nationalism and History in India میں لکھتے ہیں کہ سب سے خوفناک فسادات راولپنڈی کے نواحی گاؤں چوا خالصہ میں ہوئے جہاں مری اور کشمیر سے مسلمان مسلح ہو کر بڑی تعداد میں چھ مارچ کی شام اکٹھے ہوئے اور سکھ خاندانوں کو حکم دیا کہ وہ اگر اپنی سلامتی چاہتے ہیں تو اسلام قبول کر لیں۔
چوا خالصہ میں ہوا کیا تھا؟
چوا خالصہ فسادات میں بچ جانے والے ایک سکھ رندہیر سنگھ جی لکھتے ہیں کہ چوا خالصہ پوٹھوہار کے اہم دیہات میں سے تھا جہاں سکھ اور ہندو ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن پھر مارچ کا بدقسمت مہینہ شروع ہو گیا۔ ماسٹر تارا سنگھ کے بیانات سے حالات خراب ہوئے تو سکھ مقامی گردوارے میں اکٹھے ہوئے۔ گلاب سنگھ سب سے متمول سکھ رہنما تھے، جن کی حویلی بھی سب سے بڑی تھی۔
انہوں نے پیشکش کی کہ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے، تمام سکھ ان کی حویلی میں پناہ گزین ہو جائیں، بجائے اس کے کہ سب ایک ایک کر کے مارے جائیں۔ جس پر علاقے کے تمام سکھ اپنے بال بچے اور قیمتی سامان لے کر حویلی میں اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے حویلی میں مورچے قائم کر لیے، لکڑی کے دروازوں پر لوہے کی سلیں لگا کر انہیں مضبوط بنا دیا گیا اور حویلی کی دیواروں کو بھی لوہے کی سلاخوں سے مضبوط کر لیا۔ گرو گرنتھ صاحب کے بھی 36 نسخے ایک بڑے کمرے میں جمع کر دیے جبکہ پانی بڑے بڑے ڈرموں میں اکٹھا کر لیا گیا۔
کھانے پینے کی اشیا بھی ذخیرہ کر لی گئیں۔ سکھ بڑھتے ہوئے خطرے سے پریشان تھے اس لیے وہ گرو گرنتھ صاحب کی عبادت کرنے لگے۔
آٹھ مارچ 1947 کو جب سنگت جاری تھی تو ہزاروں مسلمانوں نے حویلی کو گھیر کر ’اللہ اکبر،‘ ’مسلم لیگ زندہ باد‘ اور ’کافروں کو مار دو‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ان کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ تھی اور تمام مسلح تھے جن میں سے کچھ کے پا س بندوقیں بھی تھیں۔ وہ تارا سنگھ کا نام لے کر سکھوں کو سبق سکھانے کی تقریریں کر رہے تھے۔ سکھوں نے خدا کو یاد کر کے ’واہ گرو واہ گرو‘ کا ورد شروع کر دیا۔
مسلمان قریبی سکول میں چلے گئے۔ معلوم نہیں وہاں ان کے درمیان کیا طے ہوا کہ انہوں نے باہر آ کر سکھوں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے حویلی پر دھاوا بول دیا۔ سکھوں نے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں حملہ آور پسپا ہو گئے۔
حویلی کی ایک سمت سے مسلمانوں نے بہت شدت سے حملہ کیا جہاں سردار پرتاب سنگھ نے آٹھ نو سکھوں کے ساتھ مل کر بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ اس دوران ایک گولی سردار پرتاب سنگھ کی ٹانگ میں لگ گئی۔ اگلے روز مسلمان پھر حویلی کے باہر جمع ہو گئے۔ انہوں نے حملہ کیا مگر کامیابی نہیں ملی۔ اب انہوں نے حویلی کے اندر ایک مذاکراتی وفد بھیجا کہ اگر سکھ غیر مسلح ہو جائیں تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
مگر یہ شرط گلاب سنگھ نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جنگ چھڑ گئی جو اگلے دو دن تک جاری رہی۔ آخری دن مسلمان بارود لے آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر سکھ باہر نہ آئے تو وہ حویلی کو بارود سےاڑا دیں گے۔ مسلمانوں نے ہاتھوں میں قرآن اٹھا رکھے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں صرف سونا اور پیسہ دے دیں وہ سب کو امان بخش دیں گے۔
سکھوں نے یقین کر لیا اور وہ اجتماعی دعا کرنے کے بعد باہر آ گئے۔ سکھ قریبی گردوارے میں چلے گئے اور سنت نام واہ گرو کا ورد کرنے لگے۔ اسی دوران دس ہزار کے قریب مسلمان وہاں پہنچ گئے، جن کے ساتھ نائی بھی تھے جو ہاتھوں میں استرے لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے نائیوں سے کہا کہ سکھوں کے بال کاٹ دو۔ وہاں بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور سب بے یارو مدد گار تھے۔ اسی دوران گلاب سنگھ کی بیوی سردارنی لاجونتی کور ان کے پاس آئی اور ا س نے کہا کہ وہ گھر اپنے کنویں کے پاس جانا چاہتی ہے۔ سردار گلاب سنگھ اسے کنویں کے پاس لے گئے جہاں 90 کے قریب سکھ خواتین موجود تھیں، جن میں بہت سی نوجوان اور کنواری لڑکیاں بھی تھیں اور گلاب سنگھ کی پوتیاں، نواسیاں، بھتیجیاں اور دوسری رشتہ دار خواتین بھی تھیں۔
اسی دوران گلاب سنگھ کو معلوم ہوا کہ کچھ حملہ آور سنگت پر چڑھ دوڑے ہیں۔ وہ کنویں سے گردوارے کی طرف دوڑے جو تقریباً دو سو قدم کے فاصلے پر تھا۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچے ایک مسلمان رہنما نے ان سے پوچھا، ’آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ آپ کے پاس آدھا گھنٹہ ہے۔ یا اسلام قبول کر لیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
وہاں موجود سکھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی صورت اپنا دھرم نہیں چھوڑیں گے۔ گلاب سنگھ نے کہا، ’یہ کام تو اورنگ زیب جیسا حکمران بھی نہیں کروا سکا آپ کیسے یہ کروا لیں گے۔ ہم سکھ مت چھوڑ کر ہر گز مسلمان نہیں ہوں گے، آپ کاجو دل چاہے کر لیں۔‘
جب گلاب سنگھ گردوارے کی طرف آیا تو کچھ پٹھان، پونچھ اور میرآباد کے حملہ آوروں نے دیکھا کہ خواتین کنویں پر اکیلی ہیں تو انہوں نے کنویں پر پہنچ کر انہیں گھیر لیا۔ انہوں نے خواتین سے کہا کہ وہ انہیں لے جا کر انہیں مسلمان کر کے ان سے شادی کریں گے۔ اس موقعے پر سردارنی لاجونتی کور نے للکارتے ہوئے کہا، ’کسی سکھ عورت کی طرف قدم نہ بڑھانا ہم مر جائیں گی مگر تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گی۔‘
مسلمانوں کو اس جملے کی توقع نہیں تھے۔ وہ سردارنی طرف بڑھے۔ سردارنی جس کی بغل میں پانچ سالہ پوتی اور پوتا تھا، اس نے ’جے کارا‘ اور ’بولے سو نہال ست سری اکال‘ کا نعرہ بلند کیا اور کنویں میں چھلانگ لگا دی۔
اس کی پیروی میں تمام 90 سکھ عورتیں کنویں میں کود گئیں۔ جب یہ خبر گردوارے میں پہنچی تو سب سکھ کنویں کی طرف دوڑے۔ جب گلاب سنگھ وہاں پہنچے تو کنواں خواتین سے اٹا ہوا تھا اور اس کی پوتی ہربجن کور، بہو کرتار کور اور سالی سردارنی رام رکھی کور کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں کیونکہ وہ ڈوبی نہیں تھیں۔ اس طرح 87 سکھ عورتوں کی جان چلی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہیں کنویں سے باہر نکلا گیا۔ مسلمان ادھر ادھر ہو گئے۔ تمام سنگت گلاب سنگھ کے گھر اکٹھی ہوئی۔ چھ روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 200 سکھ قتل ہوئے۔ ارد گرد کے دیہات ڈیرہ خالصہ، کلر، تھمالی اور بیول میں آگ لگی ہوئی تھی۔
نامور بھارتی مصنف بھیشم ساہنی جن کی پیدائش راولپنڈی میں ہوئی، وہ اپنی کتاب Today’s Past:A Memoir میں لکھتے ہیں کہ میں اس کنویں کے ساتھ کھڑا تھا جہاں سکھ عورتوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لیے چھلانگ لگا کر خودکشیاں کی تھیں۔ میرے ساتھ جو سکھ کھڑا تھا وہ بہت دلدوز لہجے میں لاشوں کی جانب اشارہ کر کے بتا رہا تھا کہ ’جناب وہ میری بیوی ہے، کیا آپ اسے دیکھ رہے ہیں؟ اس نے ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں۔ آپ اس کی چوڑیاں اتار لیں اب وہ اس کے کام کی نہیں رہیں وہ مر چکی ہے۔ یہ چوڑیاں میں نے اسے خرید کر دی تھیں۔‘
کنواں لاشوں سے اٹا ہوا تھا۔ ان کے اوپر سفید چونا ڈال دیا گیا تھا تاکہ بدبو نہ پھیلے۔ چونے کے بعد ایسے لگتا تھا کہ وہ لاشیں نہیں رہیں بلکہ مجسمے بن چکے ہیں۔ کنویں کے گرد متعدد سکھ جمع ہو گئے جو مرنے والی عورتوں اور بچوں کے رشتہ دار تھے۔ ایک سکھ زور سے رونے لگتا ہے لیکن پھر خاموش ہو کر بد دعائیں دینا شروع کر دیتا ہے، لیکن اس کی نگاہیں کنویں سے نہیں ہٹتیں۔ ’سر جس عورت نے اپنے بچے کو اپنی ٹانگوں میں دبایا ہوا ہے وہ میری بیوی ہے اور وہ میرا بیٹا ہرنام ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے۔‘
مصنف ارواشی بٹالیہ نے چوا خالصہ میں بچ جانے والوں کے انٹرویوز کیے۔ ایک خاتون نے انہیں بتایا کہ ’میر انام بسنت کور ہے۔ میرے خاوند کا نام سنت راجہ سنگھ تھا۔ ہم 12 مارچ کو گھر چھوڑ کر نکلے اور اگلا دن ہم نے باہر گزارا۔ سب سے پہلے ہم نے سوچا کہ ہم اکٹھے ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں لیکن پھر احساس ہوا کہ یہ حکمت عملی کار گر نہیں ہو گی۔ ہم تین چار دن محصور رہے اور باہر نہیں جا سکے۔ ہمارے ایک بندے کے پاس بندوق تھی ہم نے اسے استعمال کر کے مسلمانوں کے دو تین بندے مار دیے۔ جوابی فائرنگ میں میرا بہنوئی بھی مارا گیا۔
’ہم ہر جانب سے فائرنگ کی زد میں تھے۔ میرے ساتھ میرا جیٹھ ، میرا بڑا بہنوئی اور اس کا بیٹا بھی تھا۔ اس نے مجھے افیم دی کہ اسے پانی کے ساتھ پی لو۔ میرے جیٹھ نے اپنی ماں، بیوی، بہن، بیٹی اور چچا کو مار دیا۔ میری بیٹی بھی ماری گئی۔ ہم ایک مورچے میں چھپ گئے۔ پھر ہم سب اکٹھے ہو کر سرداراں دی حویلی میں جمع ہوئے۔ وہاں سب نے فیصلہ کیا کہ ہم مرنا پسند کریں گے مگر مسلمان نہیں بنیں گے۔ وہاں سب کو افیم کا کچھ حصہ دیا گیا۔ ایک سکھ لڑکی جو بہت خوبصورت تھی اسے مسلمان اٹھا کر لے گئے تھے، جس کے بعد سکھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام لڑکیوں کو قتل کر دیں گے۔
’میرا جیٹھ جس کا نام ہربنس سنگھ تھا، اس نے اپنی بیوی، بیٹی اور آٹھ سالہ بچے کو مار دیا۔ اس کے بعد میری نند، اس کے بیٹے اور بیٹی کی باری آئی۔ ان خون آشام لمحات سے جو بچ گئے تھے وہ 14مارچ کو جہلم پہنچے۔ وہاں ہم ایک ماہ رہے اور پھر ہمیں دہلی منتقل کر دیا گیا۔‘
چوا خالصہ فسادات کے تقریباً پونے دو ماہ بعد وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 29 اپریل کو چوا خالصہ کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کے بارے میں ان کے پریس اتاشی ایلن کیمبل جانسن لکھتے ہیں کہ ’راولپنڈی میں جہاز سے اتر کر ہم کمانڈر ہاؤس گئے ہی تھے کہ گورنر سر جنکس ہمیں کہوٹہ لے گئے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حال ہی میں ہولناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ 25 میل کار چلانے کے بعد ہم گرد آلود ہو چکے تھے اور پیاس کے مارے ہمارا برا حال ہو رہا تھا۔ ا س چھوٹے سے شہر میں آ کر ہم نے تباہی کا بھیانک منظر دیکھا۔ ہم گرے ہوئے مکانوں کے ملبے سے گزر کر جب آگے بڑھے تو ہم نے وہ منظر دیکھا جو جنگ میں بمباری کے بعد نظر آتا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں نے سکھوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور یہاں کے مسلمان اپنے اس عمل سے خوش نظر آتے تھے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ یہی مقامی سکھ اور سوداگر ان کی گزر اوقات کا ذریعہ تھے۔‘
سکھوں نے پاکستان میں شمولیت کا باب بند کر دیا
چوا خالصہ کے فسادات تاریخ کا وہ اہم موڑ ثابت ہوئے جب مہاراجہ پٹیالہ یادوندرا سنگھ نے قائداعظم کو دو ٹوک جواب دے دیا کہ راولپنڈی کے فسادات کے بعد سکھوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
معروف تاریخ دان اور سٹاک ہوم یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی کتاب The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed میں لکھتے ہیں کہ یہ صرف فسادات نہیں تھے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے والی عسکری مہم تھی۔ اس سانحے کے کئی ہفتے قبل سید اکبر خان سابق ایم ایل اے، کیپٹن لال خان، مولوی عبد الرحمٰن اور کالا خان ایم ایل اے نے جہاد کے لیے ارد گرد کے مسلمانوں کو ترغیب دینا شروع کر دی تھی۔ مساجد اور قریبی دیہات میں رضاکار بھیجے گئے جن کی دعوت پر سابق فوجی افسران جو جدید اسلحہ سے لیس تھے، انہوں نے کہوٹہ، چوا خالصہ اور نارا وغیرہ میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔
چوا خالصہ کی آگ نے راولپنڈی، اٹک اور جہلم کے کئی دیہات کو اپنی لپیٹ میں لیا اور یہاں کے 128 دیہات ایک ہی ہفتے میں آٹھ سے دس ہزار سکھوں اور ہندوؤں کے مقتل بن گئے۔ یہ لٹے پٹے قافلے جب دلی اور امرتسر میں لگائے گئے کیمپوں میں پہنچے اور اپنی دلدوز کہانیاں وہاں کے لوگوں کے سامنے بیان کیں، نتیجتاً ان علاقوں میں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔ چنانچہ جو سلوک یہاں سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے بھی بدترین سلوک وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا، 10لاکھ لوگ خاک و خون کی نذر ہوئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ یہ وہ المیہ تھا جس کو دیکھتے ہوئے امرتا پریتم یہ لکھنے پر مجبور ہوئیں کہ
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر
تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور