اردو کا پہلا اخبار تو ’جام جہاں نما‘ تھا جسے 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے پنڈت ہری ہردت نے جاری کیا تھا، تاہم اردو صحافت کے پہلے شہید مولوی محمد باقر تھے جنہیں 16 دسمبر 1857 کو جنگِ آزادی کے دوران باغیوں کی حمایت کرنے پر دہلی میں گولی مار دی گئی تھی۔
آزادی کے بعد سے گذشتہ 75 سالوں کا ریکارڈ تو کہیں دستیاب نہیں ہے کہ اس دوران پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں کتنے صحافی مارے گئے تاہم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1990 سے 2020 تک دنیا بھر میں دو ہزار 658 صحافی قتل ہوئے، جن میں سے پاکستان صحافیوں کے حوالے سے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے جہاں 138 صحافی اپنی جانوں سے گئے۔ انڈیا میں 116 اور بنگلہ دیش میں 23 صحافی قتل ہو چکے ہیں۔
مولوی محمد باقر اردو کے نامور ادیب مولانا محمد حسین آزاد کے والد تھے۔ عادل فراز کی کتاب ’اردو صحافت اور مولوی محمد باقر، ایک تجزیاتی مطالعہ‘ مطبع دہلی 2019 کے مطابق مولوی محمد باقر 1790 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا محمد اکبر سے حاصل کی، جو اپنے وقت کے ایک معتبر عالم تھے۔
بعد میں مولانا محمد باقر نے دہلی کالج میں داخلہ لے لیا، جہاں سے انہوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران وہ دہلی کالج کے پریس کے نگران متعین ہوئے۔ جب پرنسپل ٹیلر نے پریس بیچنے کی خواہش کی تو مولوی باقر نے ہی اسے خرید لیا۔
دہلی سے اردو کے پہلے اخبار کا اجرا
مولوی باقر نے جب پریس خریدا تو سب سے پہلے انہوں نے اردو کی کئی اہم کتابیں شائع کیں۔ شاہ محدث دہلوی کے فرزند شاہ محمد رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کی جانب سے قرآن کا پہلا اردو ترجمہ بھی اسی پریس سے شائع ہوا۔
1837 میں مولوی باقر نے دہلی سے پہلے اردو اخبار کا اجرا کیا جس کا نام ‘دہلی اردو اخبار‘ رکھا گیا۔ اس سے پہلے دہلی میں سلطان الاکبر، سراج الاکبر اور صادق الاکبر نام سے فارسی اخبار تو شائع ہو رہے تھے مگر اردو کا کوئی اخبار نہیں تھا۔
اخبار میں مرزا غالب کے گھر جوا خانے پر چھاپے کی خبر
اسی زمانے میں دہلی میں اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کا بڑا شہرہ تھا۔ دہلی اخبار کے 15 اگست 1841 کے شمارے میں مرزا غالب کے گھر جوا خانے پر چھاپے کی خبر یوں چھپی ہے:
’سنا گیا ہے کہ ان دنوں تھانہ گزر قاسم جان میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی قمار باز پکڑے گئے، مثل ہاشم خان وغیرہ کے جو سابق بڑی علتوں میں دورہ تک سپرد ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ بڑا قمار ہوتا تھا لیکن بہ سبب رعب اور کثرت مرداں کے یا کسی طرح سے کوئی تھانے دار دست انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانے دار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے، مقرر ہوا ہے۔ یہ پہلے جمعدار تھا بہت مدت کا نوکر ہے۔ جمعداری میں بھی بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا ہے۔ بہت بے طمع ہے۔ یہ مرزا نوشہ ایک شاعر نامی اور رئیس زادہ نواب میاں شمس الدین خان قاتل ولیم فریزر صاحب کے قرابت قریبہ میں سے ہے۔ یقین ہے کہ تھانہ دار پاس بہت رئیسوں کی سعی اور سفارش بھی آئی لیکن اس نے دیانت کو کام فرمایا سب کو گرفتار کیا۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ مولوی باقر کی استاد ابراہیم ذوق سے دوستی تھی جن کی غالب سے نہیں بنتی تھی اس لیے وہ مرزا غالب کے خلاف خبر لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
اخبار میں ایک مستقل کالم ’حضور والا‘ ہوتا تھا جس میں بہادر شاہ ظفر کے معمولات کی خبریں دی جاتی تھیں، اس لیے یہ اخبار عوام سے زیادہ خواص میں مقبول تھا۔ شاہی دربار، شعرا و ادبا اور کمپنی کے وہ افسران جنہیں اردو پڑھنا آتی تھی اخبار کا دلچسپی سے مطالعہ کرتے تھے۔ اخبار میں شیخ ابراہیم ذوق اور بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شائع ہوتا تھا۔
1857 کی جنگ آزادی اور مولوی باقر کا صحافیانہ کردار
جب دہلی میں بغاوت شروع ہوئی تو مولوی باقر کے اخبار نے اس کی بھرپور کوریج کی۔ انہوں نے اپنے اخبار کا نام بھی تبدیل کرکے ’اخبار الظفر‘ رکھ لیا تاکہ تمام انقلابی اور علم بغاوت بلند کرنے والے افراد بادشاہ کی ذات و صفات کو محور تصور کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ وہ خود بازاروں میں گھومے اور موقع پر جا کر رپورٹنگ کی۔ جب انگریزوں نے اپنے اسلحہ خانہ کو اس وجہ سے اڑا دیا کہ کہیں یہ باغیوں کے ہاتھ نہ لگ جائے تو اس موقع پر بھی وہ موجود تھے۔ انہوں نے باغیوں کے حق میں خبریں لگائیں اور نظمیں چھاپیں، جن میں ان کے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد کی نظم ’تاریخِ انقلاب عبرت افزا‘ بھی شامل تھی۔
ایک خبر یوں تھی، ’سنا گیا ہے کہ چار کمپنیاں کول کی بھی۔ انگریزوں کا منہ کالا کر کے حضور سلطانی میں حاضر ہوئیں یعنی جو انگریز پایا اسے موت کے گھر پہنچایا۔‘
اس جنگ میں انہوں نے قلعہ معلیٰ اور باغیوں میں پل کا کردار ادا کیا اور انگریز کی آمریت کے خلاف ان کا اخبار مورچہ بن گیا۔ اخبار میں بہادر شاہ ظفر کی امداد کے لیے شاہ ایران کے دستوں کی آمد کی خبر بھی شائع کی گئی۔ مولوی باقر بادشاہ کے اس حد تک قریب ہو چکے تھے کہ شاہی خزانے پر جب حملہ ہوا تو بادشاہ نے مولوی باقر کی زیر نگرانی فوج بھیج کر شاہی خزانہ لانے کا حکم دیا تھا۔
مولوی محمد باقر کی موت
جب دہلی خاک و خون میں غلطاں تھا تو دہلی کالج کے انگریز پرنسپل ٹیلر نے پرانے تعلقات کی بنا پر مولوی باقر کے ہاں پناہ لی، جنہوں نے انہیں اپنے باڑے میں چھپا دیا۔ دوسرے دن یہ خبر کسی طرح پھیل گئی تو مولوی باقر نے ٹیلر کو ہندوستانی لباس پہنا کر چلتا کیا لیکن لوگوں نے انہیں پھر بھی پہچان لیا اور لاٹھیوں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس لیے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ مولوی باقر کو اسی جرم کی پاداش میں 16 ستمبر 1857 کو گولی مار دی گئی۔ انگریز دہلی میں فاتح کی حیثیت سے 14 ستمبر کو داخل ہوئے تھے اس لیے دو دن بعد ہی مولوی باقر کو کیپٹن ہڈسن کی جانب سے گولی مار دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کے نزدیک وہ اہم باغی تھے۔
بعض محققین کے مطابق مولوی صاحب کی شہادت کا اصل سبب وہ اشتہار ہے جو خلاف جہاد سے متعلق ان کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں انہوں نے ہندو اور مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کی ترغیب دی تھی، گویا جہاد کو مسلمانوں پر واجب قرار دیا تھا۔ مولوی صاحب کی قبر کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا کیونکہ اس زمانے میں باغیوں کی لاشیں یا تو جلا دی جاتی تھیں یا پھر اجتماعی قبروں میں دفنا دی جاتی تھیں۔
انگریزوں کے جاسوس؟
مشہور محقق ولیم ڈیلرمپل نے اپنی کتاب ’دا لاسٹ مغل‘ میں مولوی باقر کے بارے میں لکھا ہے کہ جب دہلی میں باغی فوجی اکٹھے ہونا شروع ہوئے تو مولوی باقر کے اخبار نے انہیں بڑا سراہا اور انگریزوں کے خلاف ان کی جدوجہد کو جہاد قرار دے دیا، مگر جب رفتہ رفتہ کھلنا شروع ہوا کہ یہ لوگ انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو مولوی باقر نے پینترا بدل لیا اور وہ الٹا ان لوگوں کی مخبری کرنے لگے۔
حتیٰ کہ انہوں نے اپنے اخبار میں یہ تک چھاپا کہ جب یہ فوجی دہلی میں داخل ہوئے تو ان کے آگے آگے سبز لبادوں میں ملبوس اونٹنی سوار تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
ان کا لہجہ بدلتا چلا گیا اور انہوں نے لکھنا شروع کر دیا کہ لوگ ان فوجیوں کی لوٹ مار سے عاجز آ چکے ہیں۔
اس کے بعد ڈیلرمپل لکھتے ہیں کہ مولوی باقر نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور انگریزوں کے مخبر بن گئے۔ ان کے خفیہ مراسلے شہر سے باہر سمگل کیے جاتے تھے اور وہ آج بھی دہلی کے کمشنر آفس میں موجود ہیں۔
تاہم دہلی یونیورسٹی کی تاریخ دان شیریں موسوی نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مولوی باقر انگریزوں کے مخبر ہوتے تو انہیں دہلی کی فتح کے صرف دو دن کے اندر اندر گولی نہ مار دی جاتی۔
Shireen Moosvi tried to turn Baqar into a heroic proto-nationalist & dismissed the evidence without even visiting the DCO archive
— William Dalrymple (@DalrympleWill) September 16, 2016
ولیم ڈیلرمپل نے اس کے جواب میں ٹوئٹر پر لکھا کہ مولوی باقر کی میجر ہڈسن کے ساتھ خط و کتابت قطب مینار کے پیچھے واقع ڈی سی آفس میں موجود ہے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ شیریں موسوی نے میرے شواہد کو آرکائیوز دیکھے بغیر مسترد کیا ہے۔