پنجاب کا نہری نظام: انگریزوں کے مقاصد کیا تھے؟

نہری نظام صرف آبپاشی کا منصوبہ نہیں، بلکہ سماجی انجینیئرنگ کا بھی بہت بڑا منصوبہ تھا۔ انگریزوں کو اس کا خیال کیسے آیا اور آج 75 سال بعد یہ نظام کس حال میں ہے؟

پنجاب کا نام سن کر ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایک سرسبز و شاداب علاقے کی ہے جہاں چھ دریا بہتے ہیں، جگہ جگہ نہریں چاندی بکھیرتی اور فصلیں سونا اگلتی ہیں۔

لیکن پنجاب کی یہ تصویر قدیم نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں پنجاب زراعت کے لیے نہیں جانا جاتا تھا اور اس کے رقبے کا بیشتر حصہ غیر آباد یا ’رکڑ‘ کہلاتا تھا۔ جو تھوڑی بہت کاشت کاری ہوا کرتی تھی وہ دریاؤں کے آس پاس کے علاقوں میں ہوا کرتی تھی۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ زراعت سے نہیں بلکہ گلے بانی سے منسلک تھا۔

لیکن پھر 1880 کی دہائی میں انگریزوں نے ایک ایسے منصوبے کی داغ بیل ڈالی جس نے آنے والے چند عشروں کے اندر اندر پنجاب کو وہ لہلہاتا خطہ بنا دیا، جس کا نقشہ ہمارے ذہنوں میں پنجاب کا نام سنتے ہی پھر جاتا ہے۔

نہری نظام کیسے شروع ہوا؟

انگریزوں نے 1849 میں سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا۔ آٹھ سال بعد جب جنگِ آزادی لڑی گئی تو اس میں پنجاب کے لوگوں کی اکثریت نے انگریزوں کا ساتھ دیا، خاص طور پر سکھوں نے دہلی میں جنرل بخت خان کی افواج کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ افغانوں سے لڑنے کے لیے بھی پنجاب کے باسی بہت کام آئے۔ اس سے انگریزوں کو احساس ہوا کہ یہ علاقہ ان کے برصغیر پر اقتدار کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ اس وقت صوبہ سرحد پنجاب کا حصہ تھا اور انگریز کی سلطنت کا آخری صوبہ تھا جس کی سرحدیں افغانستان سے جا ملتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہاں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مختلف قدم اٹھانا شروع کر دیے۔

انگریزوں کی عادت تھی کہ وہ مختلف خطوں کے لوگوں کی درجہ بندی کیا کرتے تھے۔ پنجاب کی بعض ذاتوں کو ’جنگجو اقوام‘ (martial races) کا خطاب دیا اور انہیں تھوک کے حساب سے اپنی فوج میں بھرتی کرنے لگے۔ ان ذاتوں میں جنجوعہ، گکھڑ، اعوان، کھٹر، جاٹ اور ٹوانہ کے علاوہ سکھ بھی شامل تھے، جب کہ گجر اور اودھ اس اعزاز سے محروم رہے۔ اس وقت برطانوی سلطنت اپنے عروج پر تھی اور دنیا بھر میں اقتدار میں چومکھی لڑائی لڑ رہی تھی، اس لیے انہیں جنگجوؤں کی بڑی سخت ضرورت تھی۔

یہ وہ زمانہ تھی جب برصغیر کا بڑا حصہ زراعت کے لیے بارشوں پر انحصار کرتا تھا۔ پنجاب کا مسئلہ یہ تھا کہ جوں جوں گلیات کے پہاڑوں سے نیچے جاتے ہیں، بارشوں کا تناسب اسی حساب سے گھٹتا جاتا تھا، اس لیے یہاں کی زمین زرخیز ہونے کے باوجود بڑی حد تک بیابان کا منظر پیش کرتی تھی کیوں کہ دریاؤں کے درمیان کے علاقے (جنہیں بار کہا جاتا تھا، جیسے ساندل بار، نیلی بار وغیرہ) تک پانی نہیں پہنچتا تھا۔ قانون کے مطابق یہ علاقے انگریز سرکار کی ملکیت تھے، اس لیے انہوں نے ان علاقوں کو آباد کرنے کی ٹھانی۔

انگریزوں کو ارضیاتی سروے سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں نہریں آسانی سے کھودی جا سکتی ہیں، کیوں کہ پوٹھوہار کے بعد ایک بتدریج ڈھلوان ہے جو سندھ تک چلی گئی ہے۔ ویسے تو اکا دکا نہریں چھوٹے پیمانے پر کھودنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا مگر باقاعدہ نہری نظام کا آغاز 1886 میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب میں ملتان کے قریب سدھنائی نہر کھودی۔

یہ صرف نہر ہی نہیں تھی بلکہ اس سے جو علاقہ سیراب ہوا، وہاں دوسرے علاقوں سے 2705 کسانوں کو لا کر ان میں پونے دو لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ اراضی تقسیم کی گئی۔ اس طرح یہ صرف زرعی نہیں بلکہ سماجی منصوبہ بھی تھا۔

 اس کے بعد سہاگ پاڑا، چونیاں، چناب، جہلم، لوئر باری دوآب، اپر چناب، اپر جہلم، اور نیلی بار میں لاکھوں ایکڑ سیراب کر کے وہاں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔

ان نہروں سے پہلے پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھا کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر لے گئے۔ یہ سارا کام جدید مشینری اور بلڈوزروں کے بغیر بیلچوں، کسیوں اور مزدوروں کے ذریعے کیا گیا۔

محقق ڈیوڈ لڈن کے مطابق انگریزوں نے کل ملا کر 33 ہزار 612 کلومیٹر لمبی نہریں کھودیں۔ یہ اتنا فاصلہ ہے کہ اس سے لاہور اور لندن کے درمیان ساڑھے پانچ چکر لگائے جا سکتے ہیں۔

کیپٹن گرے، نہروں کا سکندرِ اعظم

مقامی لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوا، اس کا اندازہ ایک قصیدے سے ہوتا ہے جو 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں فیروز پور کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ایل ایچ گرے کے لیے ایک پنجابی شاعر نے لکھا تھا۔ اس میں اس نے کیپٹن گرے کو سکندرِ اعظم سے تشبیہ دی اور کہا کہ ان کی بدولت اب پنجاب کے علاقوں میں بہار آ گئی ہے۔

نہ کاہش دوربین دی نہ حاجت کمپاس
اللہ صاحب گرے نوں دتا روشن قیاس

آصف والا ویکھ کے روڈے والا نیز
جا سبھراون نہر دی سوچ لئی تجویز

شاعر مزید کہتا ہے کہ نہروں کی وجہ سے پنجاب میں بہار آ گئی ہے:

اوہو گرے صاحب ہے، جو موجد انہار
نہراں لہراں مارسن لاگن رنگ بہار

انگریز پنجاب کے اتنے خیرخواہ کیسے بن گئے؟

یہی سوال پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر طاہر محمود کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا حصہ تھا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انگریز اپنی سلطنت کو کم خرچ بالانشین کے اصول پر چلانا چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنے وسائل برطانیہ سے لا کر یہاں استعمال کریں۔ پنجاب ہندوستان کا آخری صوبہ تھا جو انہوں نے منسلک کیا۔ انہیں احساس ہوا کہ یہاں پانی وافر موجود ہے، صرف اسے بروئے کار لانے کی دیر ہے۔‘

’دریاؤں کے بیچ میں بار کے علاقوں میں زیادہ تر چرواہے آباد تھے، اس لیے انگریزوں نے وسطی گنجان آباد علاقوں سے لوگوں کو منتخب کر کے ان کی آباد کاری کی اور انہیں مربعوں کے حساب سے زمین دی، تاکہ وسطی ضلعوں پر آبادی کا دباؤ بھی کم ہو، حکومت کو مالیہ اور آبیانہ کی مد میں آمدن بھی ہو اور مقامی لوگ زیادہ وفادار ہو جائیں۔‘

انگریزوں نے کوئی نہر اس وقت تک نہیں کھودی جب تک اس کا منافع بخش ہونا پہلے سے ثابت نہ ہو گیا ہو۔ بعض منصوبے پہلے ہی سال 40 فیصد منافع دینے لگے اور دو تین سال کے اندر ہی انہوں نے اپنی قیمت پوری کر لی۔ یہ قیمت مقامی کسانوں سے مالیہ اور آبیانہ کی مد میں وصول کی جاتی تھی۔ 

 

روس کے ساتھ ’گریٹ گیم‘

ڈاکٹر طاہر نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ ان کے کچھ سیاسی مقاصد بھی تھے۔ مثال کے طور روس افغانستان کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا اور انگریزوں کو ڈر تھا کہ کہیں وہ برصغیر میں انگریزوں کے اقتدار کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ اس لیے اگر مقامی لوگ انگریزوں کے وفادار ہو جائیں تو پھر روس کو اتنا موقع نہیں ملے گا کہ وہ اس صوبے کو غیر مستحکم کر سکے۔‘

یہ تو ابتدائی مقاصد تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصد میں تبدیلی بھی آئی۔

ڈاکٹر طاہر نے اس بارے میں بتایا کہ ’اس وقت برطانوی فوج کے لیے گھوڑے آسٹریلیا سے منگوائے جاتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مقامی طور پر گھوڑوں کا بندوبست کرنے کے لیے مقامی لوگوں میں زمینیں بانٹنا شروع کر دیں۔ اس مقصد کے لیے گھوڑا پال سکیم شروع کی گئی۔ جو شخص گھوڑے فراہم کرتا تھا اسے زمین دی جاتی تھی۔‘

جہلم میں سرگودھا، اسی طرح چناب میں فیصل آباد کو بطور مارکیٹ ٹاؤن قائم کیا گیا، پھر انہیں ریل نیٹ ورک کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں اور بندرگاہوں سے منسلک کیا گیا، اس لیے یہاں کی پیداوار نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ملکوں تک برآمد کیے جانے لگی۔

لوگوں کی وفاداریاں بذریعہ مربعے

ڈاکٹر طاہر کے بقول: ’ایک اور مقصد سیاسی کنٹرول کے لیے زمیندار طبقے کو مزید نوازنا تھا تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو کنٹرول کیا جائے اور ایسی کلاس تشکیل دی جائے، جو انگریز کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اس کے لیے انہوں نے بعض جاگیرداروں کو بڑی بڑی گرانٹس دیں۔ ان میں ٹوانہ، نون، ممدوٹ اور ٹوانہ خاندان وغیرہ شامل ہیں۔‘

صرف یہی نہیں، بلکہ انگریزوں نے بعد میں گدی نشینوں، پیروں اور سنت سادھوؤں کو بھی مربعوں پر مربعے دیے۔ لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کا یہ بھی موثر طریقہ ہے۔

اوپر جن جنگجو اقوام کا ذکر کیا تھا، ان میں بھی انگریزوں نے دل کھول کر زمینیں تقسیم کیں۔ جو سپاہی ریٹائر ہو کر لوٹتا تھا، اسے زمین ملتی تھی، جو زیادہ بہادری دکھاتا تھا، اسے زیادہ زمین ملتی تھی۔ جو نمبردار یا ذیلدار زیادہ بھرتیاں کرتا تھا، اسے زمین ملتی تھی۔

غربت کی لکیر پر رہنے والے پنجابیوں کے لیے یہ نعمت سے کم نہیں تھا کہ ایک تو فوج کی پکی نوکری، پھر پنشن اور آخر میں مربعے۔ گویا انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ کل ملا کر نو کالونیوں میں فوجیوں کو پانچ لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ زمین عطا کی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ 20ویں صدی کے شروع میں انگریز فوج کا 50 فیصد حصہ پنجابیوں پر مشتمل تھا، حالانکہ پنجاب کی آبادی برصغیر کی کل آبادی کے دس فیصد سے بھی کم تھی۔

سوشل انجینیئرنگ کا تجربہ

نہری نظام صرف زرعی منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی آباد کاری کی گئی۔ ان لوگوں کے لیے نئے گاؤں بسائے گئے جنہیں ’چک‘ کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے پنجاب کے گاؤں زیادہ تر پنڈ یا ڈھوک کہلاتے تھے۔

اس سے پہلے پنجاب کے پنڈوں کے نام روایتی ہوتے تھے، اب چکوں کے نام اسلام آباد کے سیکٹروں کی طرح ہندسوں اور حروفِ تہجی پر رکھے گئے، جیسے چک 481 ج ، یا چک 45 جی ڈی۔ یہ چک بڑی منصوبہ بندی سے تعمیر کیے گئے۔ ان میں موہن جو داڑو کی طرح بالکل سیدھی گلیاں بنائی گئیں، سکول، مسجد اور گردوارے کا بندوبست کیا گیا اور صفائی ستھرائی پر خاص توجہ دی گئی۔ جو کسان گھر کے آگے کوڑا پھینکتا تھا، اس پر جرمانہ لگایا جاتا تھا۔

ہل چلانے والے کے ہاتھ

پنجاب کے مورخ اور دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انگریز انہی کسانوں کو زمینیں الاٹ کرتے تھے جو ان کے خیال میں سب سے موزوں ہوتا تھا۔ مثلاً ’وہ کسان کے ہاتھ پکڑ کر دیکھتے تھے کہ یہ ہل چلانے والے ہاتھ ہیں بھی یا نہیں۔‘

ڈاکٹر صاحب نے اپنے خاندان کا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔ جب ان کے تایا زمین الاٹ کرنے کے لیے گئے تو انگریز افسر نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بچے کتنے ہیں؟ جب اسے پتہ چلا کہ تایا کی صرف دو بیٹیاں ہیں تو انہوں نے زمین دینے سے انکار کر دیا۔ ’پھر تایا نے میرے والد کو آگے کر دیا جو صحت مند نوجوان تھے۔ افسر نے کہا کہ ہاں اسے زمین مل سکتی ہے۔‘

آباد کار کسانوں اور مقامی چرواہوں کے رہن سہن اور ثقافت میں کتنا فرق تھا؟ ڈاکٹر منظور اعجاز نے اس بارے میں ایک دلچسپ بات بتائی کہ جب ان کے والد زمین لے کر ساہیوال کے علاقے میں آئے تو یہاں کے مقامی لوگ، جنہیں جانگلی کہا جاتا تھا، وہ والد کو سالن کھاتا دیکھ کر بڑے حیران ہوتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ’یہ جو تم روٹی کی کشتی سی بنا کر اس میں سالن بھر کر کھاتے تو یہ کیسے کر لیتے ہو؟ ہمیں بھی سکھاؤ۔‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگوں میں سالن سے روٹی کھانے کا تصور ہی موجود نہیں تھا۔

اس طرح اس آبادکاری کے نتیجے میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آ گیا جو پنجاب کی روایت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے بالکل الگ تھا۔ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دوسرے علاقوں میں آباد کیا گیا ہو۔

مورخ ڈیوڈ گلمارٹن نے لکھا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے تعمیر کردہ آبادکاری کے نئے، منظم اور منطقی ماحول نے آبادکاروں کو ایک جدید انسان میں بدل دیا۔‘

پہلے دریا کا پانی پانچویں دریا تک

یہ سارا نظام ہنسی خوشی چلتا رہا، پھر آ گیا 1947 اور انگریز بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے چلتا بنا اور پیچھے چھوڑ گیا سرحدوں کی تقسیم کا قضیہ، جس کے تحت تمام دریا بھارت کو مل گئے اور وہ جب چاہتا پانی بند کر کے پاکستان کو بنجر بنا سکتا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے 1960 کی دہائی میں سندھ طاس منصوبے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت پاکستان نے بڑے جتنوں سے پانی کی کمی کا حل تلاش کیا۔اس معاہدے کے تحت سندھ طاس منصوبے پر دستخط ہوئے جس کے تحت مشرقی دریا یعنی راوی، ستلج اور بیاس انڈیا کو دے دیے گئے، جب کہ مغربی دریا جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔

انڈیا نے ان تینوں دریاؤں کے ہیڈورکس بند کر دیے اور یہ دریا خشک ہو گئے۔ ضلع قصور کے ایگزیکٹیو انجینیئر نہر جاوید رسول نے بتایا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم نے ایک لنک کینال سسٹم وضع کیا جس کے تحت آٹھ نہریں کھودی گئی اور ان نہروں کے ذریعے مغربی دریاؤں کا پانی لے کر انہیں مشرقی دریاؤں تک پہنچایا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سندھ کا پانی لنک کینال کے ذریعے ستلج تک پہنچایا، یعنی پہلے دریا کا پانی پانچویں دریا تک پہنچایا۔ اور اس طرح جنوبی پنجاب کو بنجر ہونے سے بچا لیا۔‘

صدر سندھ یونائٹڈ پارٹی سید زین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب کو پانی ملا ہم اس پر خوش ہیں، لیکن ہمارا دریا خشک ہو رہا ہے۔ سندھ میں پانی کم ہونے کی وجہ سے لاکھوں کسان یا تو مچھیرے بن گئے یا چرواہے بن گئے کیوں کہ ان کے حصے کا پانی ہی ختم ہو گیا تھا۔‘

جو کام انگریزوں نے نہیں کیے

اس کے بارے میں محکمۂ نہر میں ایڈیشنل سیکریٹری ٹیکنیکل خرم امین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد محکمۂ نہر نے کئی ایسے کام کیے جو انگریز دور میں نہیں ہوئے تھے۔ ’مثال کے طور پر انگریزوں نے اپنے زمانے میں کوئی ڈیم نہیں بنایا تھا، ہم نے پچھلے 75 برسوں میں متعدد ڈیم اور بیراج بنائے جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ 

’اس کے علاوہ انگریز کے زمانے کی نہریں کچی ہوا کرتی تھیں، ہم نے نہروں کو پکا کر کے ان سے ہونے والے پانی کے نقصان کو بہت کم کر دیا۔ آزادی سے پہلے نہری نظام کی استعداد صرف 28 فیصد تھی، یعنی اگر سو کیوسک پانی چھوڑا جاتا تو صرف 28 کیوسک کھیتوں تک پہنچتا تھا، ہم نے اس استعداد کو بڑھا کر 68 فیصد کر دیا۔‘

دو چار لوگ تو ضرور معطل ہوتے

یہ باتیں اپنی جگہ قابلِ تعریف ہیں، مگر ہم نے اس دستاویزی فلم کی تیاری کے دوران پنجاب کے کئی علاقوں کا دورہ کیا جن میں قصور، بیدیاں، کھڈیاں، اوکاڑہ اور ہیڈمرالہ شامل ہیں، ہمیں جگہ جگہ اس نظام میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار نظر آئے۔

قصور کے علاقے کھڈیاں میں ٹیل کٹورہ پر سابق اسسٹنٹ ریزیڈنٹ انجینیئر نہر میاں شوکت علی نے بتایا کہ یہاں نہروں کے اندر پیپل کے درخت اگے ہوئے ہیں، پشتوں کی حالت خستہ ہے، بورڈ سب اکھڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے دور میں ایسی کوئی بات ہوتی تو دو چار لوگ تو ضرور معطل ہو جاتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ