برطانیہ ہندوستان سے لوٹی گئی 640 کھرب ڈالر کی دولت واپس کرے: تاریخ دان

آکسفیم کے مطابق 1765 سے 1900 کے درمیان برطانیہ نے متحدہ ہندوستان اتنی دولت نکالی جس سے پورے لندن کو 50 پاؤنڈ کے نوٹوں سے چار بار ڈھانپا جا سکتا ہے۔

19 اگست 2022 کو گلاسگو میں کیلونگرو آرٹ گیلری اینڈ میوزیم میں سیاح ایک قدیم ہندوستان کی تلوار دیکھ رہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ نے ہندوستان سے لوٹے گئے نوادرات کو انڈیا واپس بھیجوایا ہے (اے ایف پی)

ایک تاریخ دان نے تجویز دی ہے کہ برطانیہ اپنے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کو بھاری رقم بطور معاوضہ ادا کرنے کی بجائے لوٹے گئے نوادرات واپس کرے۔ یہ تجویز آکسفیم کی رپورٹ کے بعد سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ انڈیا کو 52 ٹریلین پاؤنڈز (65 ٹریلین ڈالر) سے زیادہ رقم ادا کی جانی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مغربی ممالک کو سابق نوآبادیاتی ممالک کو ہر سال کم از کم چار کھرب پاؤنڈز بطور معاوضہ اور ’ماحولیاتی قرض‘ ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ اخراجات پورے کیے جا سکیں جو ترقی یافتہ معیشتوں کی وجہ سے غریب ممالک کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔

’ Takers not Makers: The Unjust Poverty and Unearned Wealth of Colonialism‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا: ’آکسفیم کے مطابق سن 1765 سے 1900 کے درمیان برطانیہ نے سب سے زیادہ دولت یعنی 10 فیصد متحدہ ہندوستان سے نکالی جو آج کے حساب سے 33.8 کھرب ڈالر بنتی ہے۔

یہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ پورے لندن کو 50 پاؤنڈ کے نوٹوں سے چار بار ڈھانپا جا سکتا ہے۔

لوٹی گئی رقم 64.82 کھرب ڈالر کا تخمینہ رپورٹ کے مصنفین نے نہیں لگایا بلکہ دہلی کے دو انڈین ماہرِ اقتصادیات اتسا پٹنائک اور پربھات پٹنائک نے لگایا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’جو لوگ غلامی اور نوآبادیاتی استحصال کا شکار ہوئے انہیں معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ ہمارے جدید نوآبادیاتی اقتصادی نظام کو مساوی بنانا ہوگا تاکہ غربت کا خاتمہ کیا جا سکے اور اس کے اخراجات ان لوگوں کو برداشت کرنے چاہییں جنہوں نے اس نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا.‘

انڈین تاریخ دان اور مصنف رانا صفوی نے اتنی بڑی مالی معاوضے کی ادائیگی پر عمل درآمد کے حوالے سے سوال اٹھایا۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہ ممکن ہے کہ یہ عمل دنیا بھر میں ماضی کی وسیع ناانصافیوں کے حوالے سے نیا پنڈورا باکس کھول دے گا۔

انہوں نے کہا: ’جو چیزیں حقیقت میں واپس کی جا سکتی ہیں وہ نوادرات، زیورات، دستاویزات، مسودات اور تصاویر ہیں جو انڈیا سے لوٹی گئی تھیں۔ یہ تمام چیزیں واپس کی جانی چاہییں اور یہ صرف انڈیا کی بات نہیں بلکہ دنیا کے تمام عجائب گھر افریقہ اور ایشیا سے لائے گئے نوادرات سے بھرے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’رقم کی واپسی دیوانے کا خواب ہو سکتی ہے لیکن انڈیا سے غیرقانونی طور پر لوٹی گئی چیزوں کی واپسی ضروری اور ممکن ہے۔‘

آکسفیم کی رپورٹ کو کچھ ماہرین کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لارنس گولڈمین نے کہا کہ ’آکسفیم کو عوام کے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ جھوٹی تاریخ اور نظریاتی جھکاؤ کے ساتھ مواد فراہم کریں گے تو لوگ انہیں عطیات دینے سے گریز کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس کی مخالف دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ انڈیا کو برطانیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انڈیا کو 18ویں صدی میں فرانسیسی سلطنت کا حصہ بننے یا 19ویں صدی میں روسی سلطنت یا 20ویں صدی میں جاپانی تسلط سے بچایا، یہ سب حقیقی خطرات تھے لیکن ایسے دلائل جو تاریخ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، بے کار ہیں۔‘

آکسفیم کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’نوآبادیاتی نظام کے اخراجات کا درست تخمینہ لگانا ہمیشہ بحث کا موضوع رہے گا لیکن یہ واضح ہے کہ ہم نے رپورٹ میں جن اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے وہ معقول ہیں، لیکن اس سے علاوہ بھی اندازے بھی لگائے جا سکتے ہیں تاہم، بہت کم لوگ اس بات پر اختلاف کریں گے کہ برطانیہ نے اپنی سلطنت اور خاص طور پر ہندوستان کی اپنی نوآبادیات سے اہم مالی فائدہ حاصل کیا اور یہ کہ یہ فوائد بنیادی طور پر اس وقت برطانیہ کے امیر ترین افراد کو حاصل ہوئے۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2024 میں ارب پتیوں کی دولت 2023 کے مقابلے میں تین گنا تیزی سے بڑھی اور آئندہ دہائی میں پانچ کھرب پتیوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ تاہم دنیا بھر میں غربت کی شرح میں 1990 سے اب تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

آکسفیم کے مطابق دنیا کے 60 فیصد ارب پتیوں کی دولت وراثت، بدعنوانی یا اجارہ داریوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کی عدم مساوات کی جڑیں نوآبادیاتی نظام میں پیوست ہیں جس نے امیر ممالک کے چند افراد کو مالا مال کر دیا جب کہ خواتین اور نسلی اقلیتوں سمیت غریب طبقات کا استحصال کیا گیا۔

’دنیا بھر میں لوگوں کے اس استحصال نے امیر ممالک کے امیر لوگوں کے لیے دولت کے دروازے کھول دیے جس نے گلوبل ساؤتھ میں گہری عدم مساوات کو جنم دیا اور یہ نظام اکثریت کی قیمت پر چند اشرافیہ کی حمایت کرتا ہے۔‘

’ٹیکرز ناٹ میکرز‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ نوآبادیاتی دور کی میراث آج بھی جاری ہے کیونکہ دولت گلوبل ساؤتھ (غریب ممالک) سے گلوبل نارتھ (امیر ممالک) کی طرف ہر گھنٹے میں تین کروڑ ڈالر کی شرح سے منتقل ہو رہی ہے۔ رپورٹ نے نشاندہی کی کہ اس عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے نوآبادیاتی استحصال کے معاوضے کی ادائیگی اور ایسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں جن کا مقصد معاشرے کے امیر ترین افراد کو زیادہ ذمہ دار بنانا ہو تاکہ مساوات قائم ہو اور غربت کا خاتمہ ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں کہا گیا: ’متاثرین کو معاوضہ دینا ضروری ہے تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہو، انہیں اطمینان فراہم کیا جائے، ہونے والے نقصان کی تلافی ہو، ان کی بحالی ممکن ہو اور مستقبل میں ایسے مظالم سے بچا جا سکے۔‘

آکسفیم کے ترجمان نے مزید کہا: ’بہت سے دوسرے ماہرین اور سماجی کارکنوں کی طرح ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے امیر ممالک کو نوآبادیاتی ظلم و ستم کے بدلے معاوضہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ ان افراد سے معاوضہ مانگنے کی بات نہیں ہے جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ یہ رقم ان لوگوں اور کارپوریشنز سے وصول کی جانی چاہیے جو ان نظاموں سے آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں، نہ کہ عام لوگوں سے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ عدم مساوات کی واحد وجہ نوآبادیات ہے۔ اس کی دیگر وجوہات میں اجارہ داری کی طاقت، اقربا پروری اور بدعنوانی بھی شامل ہیں لیکن نوآبادیات، تاریخی اور موجودہ دونوں حیثیت میں، ایک بنیادی وجہ ہے جسے ایک زیادہ مساوی مستقبل کے لیے حل کرنا ضروری ہے۔‘

آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار نے کہا: ’عالمی معیشت پر چند امیر افراد کی گرفت اس حد تک مضبوط ہو چکی ہے جو کبھی ناقابلِ تصور تھی۔ ارب پتیوں کو روکنے میں ناکامی اب ایسے افراد کو جنم دے رہی ہے جو جلد کھرب پتی بن جائیں گے۔ نہ صرف ارب پتیوں کی دولت تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ ان کا اثر و رسوخ بھی تین گنا زیادہ ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس معاشی اجارہ داری کا سب سے بڑا مظہر ایک ارب پتی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے جو دنیا کے سب سے امیر آدمی ایلون مسک کے تعاون اور حمایت سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت چلا رہے ہیں۔ ہم یہ رپورٹ ایک واضح انتباہ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں عام لوگ چند انتہائی امیر افراد کی بے پناہ دولت تلے دب رہے ہیں۔‘

آکسفیم نے یہ بھی تجویز دی کہ حکومتیں زیادہ آمدنی پر پابندی لگائیں، امیروں پر ٹیکس عائد کریں، ٹیکس سے بچانے والی پناہ گاہیں ختم کریں اور گلوبل ساؤتھ سے دولت کی منتقلی کو الٹ دیں۔

انہوں نے کہا: ’وراثت پر ٹیکس لگانا ضروری ہے تاکہ نئی اشرافیہ کو ختم کیا جا سکے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’سابق نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنے نوآبادیاتی دور کے نقصانات کو تسلیم کرنا ہوگا، متاثرہ کمیونٹیز سے رسمی معافی مانگنی ہوگی اور ان کے لیے معاوضہ فراہم کرنا ہوگا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ