اسماعیلی برادری کے 49ویں امام، پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم، چار فروری 2025 کو 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ان کی نماز جنازہ پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں اسماعیلی سینٹر میں آٹھ فروری کو ادا کی گئی جس میں اہل خانہ، اسماعیلی برادری کے رہنماؤں اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی، جن میں پرتگال کے صدر ریبیلو ڈی سوزا اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو شامل تھے۔
آغا خان چہارم کا تابوت سفید کپڑے میں لپٹا ہوا تھا جس پر ان کا ذاتی نشان سونے کے تاروں سے کڑھا ہوا تھا۔ نماز جنازہ کے بعد انہیں نو فروری کو ایک نجی تقریب میں مصر کے شہر اسوان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آغا خان چہارم کی جائیدادیں دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی ہیں، ان کے پاس مختلف ملکوں کی شہریت ہے اور ان کے پیروکار بھی ہر خطے میں موجود ہیں، تو پھر انہیں اسوان ہی میں کیوں دفن کیا گیا اور اسماعیلی برادری کا مصر کے ساتھ بالعموم اور اسوان شہر کے ساتھ بالخصوص کیا تعلق ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اساطیری دریائے نیل پر واقع قدیم شہر اسوان اسماعیلی برادری کے لیے گہری تاریخی، ثقافتی اور روحانی اہمیت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو ان کے پیشوا کی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا گیا۔
اسوان سے آغا خان چہارم کا ذاتی تعلق
آغا خان چہارم کا اسوان کو اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر انتخاب اس شہر سے ان کے گہرے ذاتی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ باقی باتوں کا ذکر نیچے چل کر آئے گا، لیکن صرف ایک دلچسپ ذاتی واقعہ اس تعلق پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے۔
میمفس ٹورز ویب سائٹ کے مطابق آغا خان چہارم ایک بار ٹانگوں کے فالج کا شکار ہوئے تھے۔ انہیں دنیا بھر میں کہیں بھی اعلیٰ ترین طبی سہولیات مل سکتی تھیں مگر ڈاکٹروں نے انہیں صحت یابی کے لیے اسوان جانے کا مشورہ دیا۔
شہر کے ماحول اور شاید وہاں انہیں ملنے والی دیکھ بھال نے انہیں جلد ہی صحت یاب کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں اسوان کے ساتھ ایک خصوصی تعلق اور لگاؤ پیدا ہو گیا۔
ذاتی حوالے سے آگے بڑھ کر تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسوان شہر کی اسماعیلی برادری کے لیے مرکزی اہمیت ہے۔
آغا خان چہارم کا تعلق مصر اور پورے مشرقی افریقہ تک محیط تھا، جہاں انہوں نے مختلف نسلوں اور قوموں کے درمیان مثبت تعلقات کو فروغ دیا۔ خاص طور پر انہوں یہاں ایک اخبار دی ایسٹ افریکن قائم کیا جس نے خطے میں میڈیا اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسوان میں آغا خان چہارم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کا مزار ہے۔
اسوان کو بطور جائے مدفن چننے کے فیصلے کے پیچھے خاندانی تعلق کو برقرار رکھنے اور اپنے پیش رو کی قائم کردہ روایت کو جاری رکھنے کی خواہش کی عکاسی ملتی ہے۔
آغا خان چہارم کو وقتی طور پر ان کے دادا کے مقبرے میں دفن کیا جائے گا۔ ان کے لیے ملحقہ زمین پر الگ مزار تعمیر کیا جائے گا اور جب وہ مکمل ہو جائے تو ان کے جسد کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔
اسماعیلی برادری اور اسوان شہر: ایک مشترکہ میراث
اسوان میں آغا خان سوم کا مقبرہ، جہاں آغا خان سوم اور چہارم دونوں دفن ہیں، اسماعیلی برادری اور شہر کے درمیان دیرپا تعلقات کا ثبوت ہے۔
گلابی چونے کے پتھر سے فاطمی طرز تعمیر پر مبنی براق سنگ مرمر کی قبر والا یہ مقبرہ دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔
آغا خان سوم ممتاز رہنما اور نزاری اسماعیلی فرقے کے 48ویں امام تھے۔ اسوان شہر سے انہیں اس قدر محبت تھی کہ وہ اپنی سردیاں اسی شہر میں گزارا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس شہر کو اپنی آخری قیام گاہ کے طور پر منتخب کیا۔
یہ مقبرہ ایک اہم ثقافتی نشان اور اسماعیلی برادری کے لیے زیارت گاہ کے طور پر قائم ہے۔ آغا خان سوم کی قبر پر روزانہ سرخ گلاب رکھنے کی روایت آج بھی موجود ہے، جس کا آغاز ان کی اہلیہ بیگم ام حبیبہ آغا خان نے کیا تھا۔
اس کے علاوہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اسوان میں مختلف منصوبوں میں سرگرم عمل رہا ہے، جو اس شہر کے لوگوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور شہر کی ترقی میں حصہ ڈال رہا ہے۔
اسماعیلی برادری اور مصر: ایک تاریخی داستان
اسماعیلی برادری اور مصر کے درمیان تعلق کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں جس کے ڈانڈے فاطمی دورِ حکومت تک پھیلے ہوئے ہیں۔
فاطمی ایک اسماعیلی خاندان تھا جس نے 10ویں اور 12ویں صدی کے درمیان شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے بیشتر حصے پر حکومت کی۔
مصر کا موجودہ دارالحکومت قاہرہ اسی فاطمی دورِ حکومت میں 969 میں قائم کیا گیا تھا جو اسماعیلیوں کے لیے گہری تاریخی اور روحانی اہمیت کا حامل ہے۔
فاطمیوں نے قاہرہ میں اہم تعلیمی اداروں کی داغ بیل ڈالی جن میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک جامعہ الازہر یونیورسٹی شامل ہے۔
یہ یونیورسٹی 14ویں اسماعیلی امام اور فاطمی حکمران معد المعزّ لدين الله نے قاہرہ شہر کے قیام کے فوراً بعد یعنی 970 عیسوی کے لگ بھگ قائم کی تھی۔
ابتدا میں یہ جامعہ دینی علوم کے لیے مخصوص تھی مگر بعد میں اس میں دیگر شعبے بھی قائم کر دیے گئے۔
اس ادارے نے اسلامی فکر اور ثقافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس سے بڑے علما وابستہ رہے ہیں۔
فاطمیوں نے مصر میں متعدد مساجد بھی تعمیر کیں، جن میں سے کئی آج بھی موجود ہیں۔
آغا خان مصری حکمران بنتے بنتے رہ گئے
آغا خان خاندان اور مصر کے درمیان تاریخی تعلق بہت گہرا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آغا خان سوم 1914 میں مختصر طور پر مصر کے تخت کے امیدواروں میں شامل تھے۔
تاریخی ویب سائٹ http://www.egy.com/historica/96-10-19.php کے مطابق انگریزوں نے آخری لمحے پر مداخلت کر کے سر آغا خان کو مصر کا حکمران نہیں بننے دیا۔
اگرچہ یہ معاملہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا مگر اس سے واضح ہوتا ہے کہ مصری معاملات میں آغا خان کے خاندان کی تاریخی شمولیت کتنی گہری ہے۔
انہی آغا خان سوم نے 1906 میں مسلم لیگ کے قیام میں بھی مرکزی کردار ادا کیا اور ان کی پاکستان کی تحریک میں خدمات کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
جب آغا خان سوم کا 11 جولائی 1957 کو 71 سال اسماعیلی امام رہنے کے بعد انتقال ہوا، جو اسماعیلی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ ہے، تو ان کی وصیت کے مطابق بیٹے کی بجائے ان کے پوتے پرنس کریم کو جانشین مقرر کیا گیا۔
ملکہ الزبتھ دوم نے نئے آغا خان کو ایک پیغام بھیجا، جس میں ان کے دادا کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور ان کی حمایت کی پیشکش کی گئی۔
موجودہ آغا خان، پرنس رحیم الحسینی آغا خان پنجم، اسماعیلی برادری کے 50ویں امام ہیں۔ ان سے توقع ہے کہ وہ اپنے والد کی انسان دوستی اور قیادت کی میراث کو جاری رکھیں گے اور اسماعیلی برادری کی مستقبل میں رہنمائی کریں گے۔
اسوان: قدیم تاریخی اور ثقافتی مرکز
قدیم مصر کی جنوبی سرحد پر دریائے نیل پر واقع یہ شہر ہزاروں سالوں سے ایک اہم تجارتی مرکز اور مصر اور افریقہ کے درمیان دروازے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اس شہر کا نام قدیم مصری زبان کے لفظ ’سوین‘ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بازار یا منڈی ہے۔ اس سے شہر کی تجارتی اہمیت کا اندازہ لگیا جا سکتا ہے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینییکا کے مطابق فرعونوں کے زمانے میں یہ مجسموں اور تعمیرات کے لیے استعمال ہونے والے پتھر گرینٹ کا اہم ذریعہ تھا، اور اس کی کانوں نے مصر کے بہت سے مشہور یادگاروں کے لیے پتھر فراہم کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ شہر متعدد آثار قدیمہ کے مقامات کا گھر ہے، جن میں فِلَی میں آئیسس کا مندر، نامکمل اوبلیسک اور نوبیئن میوزیم شامل ہیں۔
یہ مقامات اسوان کی بھرپور تاریخ اور تہذیبوں کے سنگم کے طور پر اس کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔
اسوان کو یونیسکو کے تخلیقی شہر برائے دستکاری اور لوک فن کے طور پر بھی نامزد کیا گیا ہے، جو ثقافتی تحفظ اور ترقی کے لیے اس کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔
مصر خود بہت بڑی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دنیا کی ابتدائی اور سب سے دیرپا تہذیبوں میں سے ایک ہے، جو اپنے فن تعمیر، جدید زرعی طریقوں اور پیچیدہ مذہبی عقائد کے لیے مشہور تھی۔ قدیم مصر کے اہرام، مندر اور مقبرے آج بھی لوگوں کو مسحور اور متاثر کرتے ہیں۔
قدیم مصریوں نے ریاضی، طب، آبپاشی اور زراعت میں نمایاں کردار ادا کیا، اور اپنی تابندہ اور دیرپا میراث چھوڑی۔
اسوان میں دفن ہونے کا آغا خان چہارم کا فیصلہ اسماعیلی برادری اور مصر کے درمیان گہرے اور کثیر الجہتی تعلقات کا ثبوت ہے۔
اسوان، اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ، اسماعیلی امامت کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
آغا خان کے مقبرے کی موجودگی، برادری کے ترقیاتی اقدامات اور فاطمی خلافت سے شہر کا تعلق، یہ سب اسماعیلیوں کے لیے اسوان کی اہمیت میں حصہ ڈالتے ہیں۔
مزید برآں، اسوان شہر تاریخ، ثقافت اور روحانیت کی ایک بھرپور داستان کا نمائندہ ہے۔ اس خطے میں پروان چڑھنے والی قدیم تہذیبوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
اسوان میں آغا خان چہارم کی تدفین اس قدیم میراث اور اس کے اندر اسماعیلی برادری کے مقام کی یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔ اساطیری دریائے نیل پر آغا خان چہارم کی آخری آرام گاہ روایت کے تسلسل کی علامت ہے۔