مانسہرہ اور مردان کا اشوک کیا کہتا ہے؟

پاکستان میں موجود ان دو اہم ترین سنگی تحریروں کے بارے میں لوگ نہیں جانتے کہ بدھ مت میں انہیں بدھا کے فرامین کے بعد سب سے مقدس درجہ حاصل ہے اور شاید لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ انڈیا کے جھنڈے پر جو دھرما چکرا بنا ہوا ہے، وہ اشوک سے ہی موسوم ہے۔

اشوک کے سنگی فرامین شاہراہِ ریشم پر مانسہرہ میں اور سوات موٹر وے پر مردان کے قریب شہباز گڑھی  میں پتھر کی بڑی چٹانوں پر موجود ہیں (سجاد اظہر)

شاہراہِ ریشم پر مانسہرہ میں اور سوات موٹر وے پر مردان کے قریب شہباز گڑھی میں پتھر کی ایسی بڑی بڑی چٹانیں موجود ہیں، جن پر اشوک کے فرامین کندہ ہیں۔

اشوک نے ہندوستان پر 274 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تقریباً 42 سال حکومت کی۔ اس کے سنگی فرامین صرف پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان اور انڈیا میں بھی ملتے ہیں۔ انڈیا میں کرناٹک ضلع کے گاؤں مسکی اور سناٹی میں، اڑیسہ کے گاؤں دھاؤلی اور افغانستان کے شہر قندھار میں بھی ان کے فرامین ملے ہیں، جو بڑے بڑے پہاڑی پتھروں پر کندہ کیے گئے ہیں۔

اشوک کون تھا اور اس نے یہ فرامین کیوں کندہ کروائے؟

اشوک موریہ خاندان کا تیسرا حکمران تھا، جو چندر گپت موریہ کا پوتا اور بندو سار کا بیٹا تھا جو 304 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور 232 قبل مسیح میں وفات پا گیا۔ اس کی سلطنت موجودہ بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر حفیظ سید کی کتاب ’اشوکِ اعظم‘، جس کا تفصیلی ابتدایہ لالہ لاجپت رائے نے تحریر کیا تھا، میں لکھا ہے کہ کلنگ (موجودہ اڑیسہ) کی جنگ جو 262-63 قبل مسیح میں لڑی گئی، اس میں اشوک کے ہاتھوں ایک لاکھ افراد مارے گئے، جس نے اسے اتنا رنجیدہ کیا کہ اس نے صرف برہمن دھرم سے بدھ مت میں ہی جائے پناہ نہیں لی بلکہ ہر قسم کی خون ریزی بھی ممنوع قرار دے دی۔

جنگ سے امن کا سورج طلوع ہوا، بدھ مت کی تبلیغ سرکاری سطح پر کی گئی اور فتح کی بگل کی بجائے دھرم کا نقارہ بجنے لگا۔ اشوک کی سلطنت میں انسانوں کو ہی نہیں جانوروں کو بھی ہلاک کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔

آج کی دنیا میں بھی طاقت کی حکمرانی ہے۔ پھر اندازہ کریں کہ آج سے 2300 سال قبل کے معاشرے میں ایک ایسا بادشاہ جو امن کا داعی ہو، اس کا راج کب تک چل سکتا تھا؟ اپنی ہی حکومت کے اہلکار بادشاہ کی خیراتوں اور نیکیوں سے تنگ آ کر باغی ہو گئے۔ وزرا اور صوبیدار خود مختار بن بیٹھے۔

اس کا بیٹا راج کونال، جو ٹیکسلا کا گورنر رہ چکا تھا، اس کے بیٹے سمپارتی کو جب ولی عہد بنایا گیا تو اس نے اشوک کی جانب سے مختلف خانقاہوں کو جاری کیے جانے والے وظائف بھی بند کر دیے۔ یہاں تک کہ ایک دن اپنے دادا کا کھانا بھی یہ کہہ کر آدھا بھیجا کہ خزانہ خالی ہو چکا ہے۔

سنگی کتبوں پر لکھے ہوئے رسم الخط کو کیسے پڑھا گیا تھا؟

ابھی تک اشوک کے فرامین پر مشتمل 33 سنگی تحریروں کا پتہ چل سکا ہے، لیکن آج سے 112 سال پہلے دنیا یہ نہیں جانتی تھی کہ ان پتھروں پر جو کچھ لکھا ہے یہ کون سی زبان ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔ اس گتھی کو ایک انگریز مفکر جیمز پرنسپ (James Prinsep) نے 1837 میں سلجھایا تھا۔

1794 میں ایک برطانوی محقق ولیم جونز کو پتھر کے ایسے ستون ملے، جن پر کوئی مخفی پیغام لکھا ہوا تھا۔ اگلے 50 سال تک کوئی محقق یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ ہندوستان بھر سے ملنے والی ان سنگی تحریروں کا کیا مطلب ہے۔ یہ تحریریں براہمی رسم الخط میں لکھی ہوئی تھیں، جو عرصہ دراز سے پڑھا نہیں جا سکا تھا۔

اس رسم الخط کو فیروز شاہ تغلق اور اکبر اعظم نے بھی سمجھنے کے لیے اپنے دور کے لسانی ماہرین کی خدمات حاصل کیں لیکن کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ پورے ہندوستان میں اس زبان کو سمجھنے والا کوئی نہیں تھا۔ جب ہندوستان میں برطانوی دور آیا تو ایک انگریز ماہر جیمز پرنسپ نے 1837 میں یہ چیلنج قبول کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیمز بنیادی طور پر دھاتوں کے ماہر تھے لیکن انہوں نے کمال بصیرت پائی تھی۔ سانچی کے سٹوپا پر ایک لفظ دانم لکھا ہوا تھا، جس کا مطلب خیرات یا عطیہ کے طور پر لیا جاتا ہے اور جسے بھکشو صدیوں سے استعمال کرتے آ رہے تھے۔ اسی لفظ نے بالآخر اس مخفی زبان کو سمجھنے میں مدد کی۔

جیمز پرنسپ کو ایک بادشاہ دیوانم پیا پیا داسی کے لفظ کی شناخت بھی ہو گئی، جس سے بات مزید آگے بڑھی۔ اسے ایک تاریخ دان جارج ٹرنر نے بتایا کہ پالی زبان جو سری لنکا میں بولی جاتی ہے، اس میں اشوک کے لیے لفظ دیوانم پیا پیا داسی استعمال ہوا ہے۔

موریہ دور میں جو غیرملکی سیاح ہندوستان آئے تھے ان میں یونانی سیاح میگاستھینز (Megasthenes) اور چینی سیاح فاحین (Fa-Hien) شامل تھے۔ انہوں نے اپنے سفرناموں میں اشوک کے لیے دیوانم پیا پیا داسی کا لفظ استعمال کیا تھا۔

13ویں سنگی کتبے پر لکھا ہوا تھا کہ اشوک نے حال ہی میں کلنگ کو فتح کرنے کے بعد بدھ مت قبول کر لیا ہے۔ جیمز پرنسپ نے ان سنگی کتبوں کی زبان سمجھنے میں دن رات ایک کر دیا، حتیٰ کہ ان کی صحت بھی خراب ہو گئی مگر وہ اس رسم الخط کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کے صرف تین سال بعد انتقال کر گئے۔

ان سنگی کتبوں کو پڑھنے کے بعد ہی دنیا کو معلوم ہوا کہ اشوک کون تھا اور اس کے دور کو ہندوستان بھر میں بدھ مت کے لیے عہدِ زریں قرار دیا گیا۔ کلکتہ میں جیمز پرنسپ کی یاد میں دریا کنارے ایک یادگار بنائی گئی ہے، جسے پرنسپ گھاٹ کہا جاتا ہے۔

مانسہرہ اور شہباز گڑھی کے سنگی فرامین پر کیا لکھا ہوا ہے؟

پاکستان میں موجود ان دو اہم ترین سنگی تحریروں کے بارے میں لوگ نہیں جانتے کہ بدھ مت میں انہیں بدھا کے فرامین کے بعد سب سے مقدس درجہ حاصل ہے اور شاید لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ انڈیا کے جھنڈے پر جو دھرما چکرا بنا ہوا ہے، وہ اشوک سے ہی موسوم ہے۔

یہ دھرما چکرا بدھ مت کے موت و حیات کے فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ ان سنگی کتبوں میں بھی یہی پیغام دیا گیا ہے۔ شہباز گڑھی کے کتبے پر لکھا ہوا ہے کہ شاہی محل میں کوئی جانور نہ کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی قربانی کی جائے۔ تمام عقائد کے ماننے والوں کو آزادی حاصل ہے کیونکہ سبھی مذاہب اچھائی کے طالب ہیں، اگرچہ لوگ ان پر اپنی اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتے ہیں لیکن جو کوئی بھی صادق اور امین نہیں وہ سماج میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ بن جائے کم تر ہی رہتا ہے۔

اشوک نے اقتدار سنبھالنے کے 10 سال بعد بودھی کے درخت کی زیارت کی اور بھکشوؤں سے ملاقات کی، انہیں تحائف دیے، ضرورت مندوں کی مدد کی، ریاست میں دھرم کی تعلیم کے بارے میں جائزہ لیا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

اشوک کہتا ہے کہ دھرم کی نعمت لاثانی ہے، یعنی دھرم کو پہچاننے، اس میں حصہ لینے اور اسے اپنانے سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ دھرم کی بنیادی تعلیمات میں نوکروں اور غلاموں سے شفقت، ماں باپ کی اطاعت، عزیز و اقارب کو تحائف دینا اور جانوروں کو ذبح کرنے سے باز رہنا شامل ہے۔  جو کوئی بھی نیک عمل کرتا ہے وہ دنیا میں آسودہ رہتا ہے اور آخرت میں بلند مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔

شہباز گڑھی میں لکھے گئے سنگی کتبے پر کلنگ کی جنگ پر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ بادشاہ اس سے رنجیدہ ہے کہ اتنے زیادہ لوگ مارے گئے لیکن بادشاہ مزید دکھی ہو گا کہ اگر یہ تاریخ دہرائی گئی۔ اب بادشاہ چاہتا ہے کہ جیت صرف محبت کی ہو اور یہی محبت آخرت میں کام آتی ہے۔ میں اپنے خاندان کے آنے والے بادشاہوں کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ ہتھیاروں کے ذریعے حاصل ہونے والی فتح سے دور رہیں۔ وہ صبر اور رحم میں ہی مسرت محسوس کریں، اسی میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

مانسہرہ میں لکھے ہوئے سنگی کتبے کا خلاصہ ہے کہ نیکی کرنا مشکل کام اور گناہ کرنا آسان لگتا ہے۔ اگر میرے پیش رو میری پیروی کریں گے تو مجھے خوشی ہو گی۔ انہیں نیکی کو عام کرنا ہو گا۔ میں نے ہر جگہ دھرم کی تبلیغ کرنے والے لوگ مقرر کیے ہیں، جو رعایا کی خبر گیری کریں گے اور ضرورت مندوں اور مظلوموں کی مدد کریں گے۔ یہ تحریر میں نے اس لیے پتھروں پر کھدوائی ہے تاکہ یہ عرصے تک قائم رہے اور میری نسل بھی میرے احکامات کی پابند رہے۔

آج سے 23 سو سال پہلے اشوک نے جنگوں سے توبہ کرتے ہوئے اس خطے میں امن و آشتی کو ریاست کا ستون قرار دیا تھا اور ہر قسم کی خون ریزی چاہے وہ کسی جانور کی ہی کیوں نہ ہو، ممنوع قرار دے دی تھی۔ اس کا پیغام تو پتھروں پر کندہ ہونے کی وجہ سے محفوظ ہے، مگر خطے کو اس کے بعد کوئی اشوک نہیں مل سکا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ