ہم ٹی وی سے ڈراما ’اگر‘ کی سب سے مجبوری اور برائی کے درمیان کی لکیر کو واضح کرتا ہے۔
اس ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ کوئی کسی بھی حوالے سے دھوکے باز نہیں ہے۔ سب فطرت اور معاشرتی رہن سہن کے ہاتھوں مجبور ہیں لیکن سب زندگی کے حوالے سے مثبت طور پہ ثابت قدم اور مستقل مزاج بھی ہیں۔
بعض اوقات انسان کی مجبوریاں اس کی برائیاں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے سماجی حالات کا براہ راست تعلق معاشی حالات سے ہوتا ہے، اگر معاشی حالات زوال کا شکار ہوں تو زندگی خاندانوں کے لیے ’اگر‘ بن جاتی ہے۔
جگن کاظمی عینی آپا کا کردار کر رہی ہیں۔ عینی، جس نے والد کی وفات کے بعد پڑھ کر گھر کو سنبھالا، چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھایا، خود ترقی کرتے کرتے ٹیچر سے ایک سکول پرنسپل کے عہدے تک پہنچی۔ ایک سیلف میڈ عورت جب اپنے والدین گھر کی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو اس کی اپنی زندگی اور اپنے گھر کو بسانے کا مناسب وقت گزر ہی جاتا ہے یا اس میں تاخیر ہو جاتی ہے، کیونکہ اس معاشرے نے عمر کی ایک خاص حد کا تعین کر کے اس میں انسانی سوچ کو برف کی طرح جما دیا ہے۔ انسان نسل در نسل اس میں سے نکل ہی نہیں پا رہا۔
یہ کہانی اس برف کی سل پہ اک ہتھوڑے کے مترادف ہے، جس کا مقصد مجبوریوں کو سمجھ کر موجودہ حالات کو قبول کرتے ہوئے انہیں محبت کے گیتوں میں بدل دینا ہے۔
قرۃ العین کی ماں اس کی جوانی میں یہ کہہ کر ایک رشتہ مسترد کر دیتی ہیں کہ اس کے سوا گھر کا سہارا کوئی نہیں ہے۔ وہ یہ باتیں سن لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ کبھی اس کا خواب بھی نہیں دیکھتی۔ احساس بھی ختم کر کے ایک مشین بن جاتی ہے جسے یہ گھر ہر حال میں چلانا ہے۔
لمحے اڑتے چلے جاتے ہیں کہ سب سے چھوٹی بہن کا رشتہ آ جاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ وقت کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا۔
بالوں کی چاندی رات کی چاندنی کی طرح من میں اتر کر سکون کر چکی تھی، کتابوں کی دوستی نے زندگی کو فلسفوں کے سہارے ٹانک دیا تھا۔ چھوٹی بہن چاندنی نے بھی اسی زندگی کو اپنا لیا تھا۔ یوں کتابوں سے دوستی والے فلسفے کہانی میں تین کرداروں میں نظر آتے ہیں۔
ان سب حالات میں ایک بیوہ عورت کی جو سوچ ہو جاتی ہے، اس کی ماں کی بھی یہی سوچ ہو گئی تھی کہ بیٹی بھی جب تک کمانے کے قابل نہ ہو جائے، اپنے قدموں پہ کھڑی نہ ہو جائے اس کی شادی نہیں کرنی چاہیے۔ زندگی نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا اس لیے اس کی سوچ پختہ ہو گئی تھی کہ شادی کی بعد حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔
دوسری سوچ جو سماجی ہے کہ بڑے بچوں کی شادی سے پہلے چھوٹے کی شادی نہیں ہو سکتی۔
اس سوچ سے گھر میں جمود اور سکوت کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔ بھائی کو یہ سوچ تھی کہ بہنوں کی شادیوں سے پہلے اس کی شادی کی بات کرنا ناممکن ہے۔
لیکن حوریہ جو ایک ٹین ایجر لڑکی ہے، ناسمجھ ہے، گھر میں سب سے چھوٹی ہے اور سب سےبڑے خواب دیکھتی ہے۔ اس پورے ماحول سے بےزار بھی ہے اپنے ایک فیصلے سے گھر میں ہلچل کا باعث بن جاتی ہے، جو حالات اور سوچ کو دھکہ دینے کے لیے بہت ضروری تھا۔
جو لڑکا اسے پسند کرتا ہے اس کا رشتہ بھی آ جاتا ہے مگر اس کی ماں انکار کر دیتی ہے۔ یہاں مثبت نکتہ یہ ہے کہ سب بہن بھائی اس کا ساتھ دیتے ہوئے ماں کو شادی کے لیے رضا مند کر لیتے ہیں۔
اسی دوران عینی کو اس کے سکول میں ایک ٹیچر شاہ ویز پسند کرنے لگتا ہے جو اسے دو سال چھوٹا ہے۔ وہ عینی کو پروپوز کرتا ہے لیکن شاہ ویز کی ماں نہیں مانتی۔
یہاں ڈراما ’دوبارہ‘ کی یاد آ گئی جس میں ہیرو ہیروئین سے کم عمر تھا مگر انہوں نے ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزاری۔
یہ موضوع ٹیبوز توڑنے والا ہے بلکہ اس ڈرامے میں بہت سے سماجی ٹیبوز کو چیلنج کیا گیا ہے، جن کو اگر ہم نے اب بھی نہ بدلا تو ہم معاشیات کے ساتھ معاشرت بھی ڈبو دیں گے۔
چاند کا کردارایک بھائی کے کردار کے طور پہ کتنا متناسب پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف وہ اپنی خاندان کی مجبوریاں بھی سمجھتا ہے، اپنی بہنوں کے جذبات بھی، دوسری طرف وہ اپنی محبت کو بھی پانا چاہتا ہے۔ ہم نے مرد کی اس مجبوری کو کبھی خاطر میں نہیں رکھا۔
آئیے ایک لڑکے چاند کو اس زاویے سے بھی سمجھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
چاندنی کے روپ میں ایک ایسی لڑکی کا درد سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے پیدا ہونے پہ لڑکا ہونے کا خواب دیکھا گیا تھا اور اس درد نےاس کو کبھی سکون ہی نہ لینے دیا۔
ڈرامے میں بہن بھائیوں کا آپسی تعلق ایک خاص تربیت کا عکاس ہے جس میں مرد کے اندر کا سماجی شہسوار بازی نہیں لے جاتا بلکہ سمجھ داری سے سب افعال سر انجام دینے کی تگ و دو میں ہے۔
اس کی بہن اگر گھر کا سہارا بنی ہے تو اسے اس کی قربانی کا احساس ہے۔ تین ہیرو ہیں تینوں کی نفیس بنت سے بنے گئے ہیں۔
کہانی کو راویتی چالاکی اور مکاری سے بقا نہیں بخشی گئی، بلکہ مثبت رویوں کو رواں رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مکالمے بہت عمدہ ہیں بلکہ اتنے جاندار اور فلسفیانہ ہیں کہ بعض مکالمے عام ناظر کی اٹھان سے اوپر چلے گئے ہیں۔
ہم نے ڈرامے کی مصنفہ مدیحہ شاہد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ’مکالمے کے حوالے سے ہمیشہ اچھا فیڈ بیک ملا کہ آپ دریا کو کوزے میں بند کر دیتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہر ناظر اور قاری کا اپنا تصور بھی ہوتا ہے جو بہت مضبوط ہوتا ہے۔ کہانی کو وہ اپنے تصور سے دیکھتا ہے۔ ’اگر‘ کو بھی ہر ناظر اپنے چشم تصور سے ہی دیکھ رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’اگر ایک ایسی کہانی ہے جو لوگوں کو یاد رہ جائے گی۔‘
دوبارہ،‘ ’پنجرہ‘ اور اس کے بعد ڈراما ’اگر‘ ہمارے لیے بھی یونہی ہے جیسے جون ایلیا کی ’یعنی‘ کے بعد ’شاید‘ پڑھ لی جائے۔
ڈراما دیکھتے رہیں کہ یہ ہمیں بتانے جا رہا ہے، تجربۂ زیست اور جذبۂ زیست میں کیا فرق ہے، اور تجربات جذبات پہ اور جذبات تجربات پہ کب اور کیسے برتری لے جاتے ہیں اور ان کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔