لیڈی ڈیانا کی زندگی سے ماخوذ یہ ڈراما ’میری شہزادی‘ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا ڈراما ہے جو برطانیہ کے شاہی خاندان کی ایک شہزادی کی زندگی پر بنایا گیا۔
لیڈی ڈیانا کو دلوں کی شہزادی کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی چاہنے والوں کے دل میں دھڑک رہی ہیں۔
گرچہ اس ڈرامے میں بادشاہت کی جگہ سیاست کا انتخاب ہوا ہے کیونکہ ہمارے سماج میں سیاست بادشاہت کے مترادف ہے، لیکن شہزادی کے گرد ہالہ وہی ہے جو شاہی شہزادی کے گرد تھا۔
اسے قبل لیڈی ڈیانا کی زندگی پہ نیٹ فلیکس نے ’دا کراؤن‘ جیسی کامیباب سیریز کے چار سیزن پیش کیے۔
فلم ’ڈیانا‘ نے بھی بےحد کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں لیڈی ڈیانا پہ بے شمار دستاویزی فلمیں بنیں لیکن پاکستانی سماج میں ڈھال کر اس کردار کو پہلی بار پیش کیا جا رہا ہے۔
چونکہ یہ اصلی شہزادی کی کہانی ہے اس لیے منفرد اور مختلف بھی لگ رہی ہے کہ اسے مصنوعی طور پہ گلیمرائز نہیں گیا۔
دانیہ جو ڈرامے کا مرکزی کردار ہے، جس دن پیدا ہوتی ہے اس دن اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہتی۔ اس لیے دانیہ کو اس کے نانا نانی نے پالا ہے۔ وہ بھی شاہی خاندان اور یہاں ایک سیاسی خاندان کا حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں اور دانیہ میں سادگی ہے۔
دانیہ محبت بھری کوئی رومانوی زندگی گزارنا چاہتی ہے، جس میں وہ کم پیسوں میں بھی گزارا کرنے کو تیار ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’پیسوں کے بغیر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔محبت کےبغیر نہیں۔‘
یہ جملہ اس کی پوری سوچ کی، خوابوں کی عکاسی کرتا ہے لیکن عموماََ انسان کو پوری زندگی گزار کے محبت و عزت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور اکثراسے اپنے خوابوں ہی کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ دانیہ کبھی بھی اس خاندان کی بہو نہیں بننا چاہتی تھی لیکن قسمت کیھنچ تان کر اسے اس مادی دنیا میں لے آتی ہے۔ نہ صرف لے آتی ہے بلکہ مادی اور سرمئی زندگی گزارنے پہ مجبور بھی کرتی ہے۔
شہزادیوں نے چونکہ مادیت دیکھی ہوتی ہے اور اس کے کمالات و ثمرات بھی دیکھے ہوتے ہیں اس لیے وہ زندگی میں جینے کو اہمیت دیتی ہیں۔ محل ان کے لیے قید خانہ ہوتا ہے لیکن عام لڑکی یہ بات سمجھ نہیں پاتی کہ محل، دولت و ہوس قید خانہ کیسے ہوتے ہیں۔
اس بات کو ایک کلاسیک فلم ’رومن ہالیڈے‘ میں بھی بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہروز کے والد سی ایم ہیں اور پاکستان میں سی ایم ہونا بادشاہت ہے۔ دانیہ شہروز کی چچا زاد ہے، جس کی ماں کا انتقال شادی کے ایک سال بعد ہی ہو گیا اور دانیہ کے والد نےاپنی بھابھی کی بہن سے دوسری شادی کر لی۔
اچانک دانیہ کے تایا کی طبعیت بگڑتی ہے تو ڈاکٹر کچھ عرصے کا مہمان بتاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خاندان سے ہی کوئی لڑکی ان کے بیٹے کے لیے مل جاتی تو خاندان کا مان رہ جاتا اور خاندانی خون خاندانی ہی رہتا۔
خاندان میں لڑکیاں بہت کم پیدا ہوتی ہیں اس لیے لے دے کے ایک دانیہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اسی کشمکش میں وہ اپنی بھتیجی دانیہ کا انتخاب اپنے بیٹے شہروز کے لیے کر لیتے ہیں۔
شادی کی رات دانیہ کو علم ہوتا ہے کہ شہروز تو پہلے سےایک غیر مسلم لڑکی کے ساتھ شادی کر چکا ہے، اس کا ایک بیٹا بھی ہے جو امریکہ میں رہتے ہیں۔ جس لڑکی کو اس کے گھرانے نے کبھی قبول نہیں کیا۔
گویا سب جانتے ہیں کہ شہروز شادی شدہ ہے اور ایک بچے کا باپ ہے لیکن دانیہ اور اس کے نانا نانی سے یہ بات چھپائی جاتی ہے۔
دانیہ کے والد سمیت سب ہی اس کو یہی سمجھاتے ہیں کہ اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ شہروز شادی شدہ ہے۔
خاندانی بہو کا رتبہ تو اس کے پاس ہے اور اگلی شہزادی بھی وہی ہے۔
دانیہ کی نانی اس شادی پہ راضی نہیں ہیں اور شادی کے بعد دانیہ کو پہلی رات سے ہی جو درد سہنے پڑتے ہیں محبت نما شے کے، جو مصنوعی داؤ پیچ دیکھنے پڑتے ہیں۔
وہ ان سب کو اپنے نانا نانی سے چھپانے لگتی ہے۔ اس کی ساس نےاس سے موبائل بھی لے لیا ہوا ہے لہٰذا رابطے کی کوئی صورت بھی نہیں ہے۔
دانیہ کے لیے اصل دھچکہ شہروز کی پہلی بیوی کیم اور بیٹے سنی کا پاکستان آ جانا ہے۔ اس سارے ڈرامے میں جو خاص بات ہے وہ یہ کہ کوئی بھی سیاہ و سفید کردار نہیں ہے۔ ’گرے‘ یعنی سرمئی کردار ہیں۔
ہیرونما کوئی کردار موجود نہیں۔ سب دنیا دار انسان ہیں۔ جن کی ترجیحات میں دنیا، دنیا داری، طاقت، دولت اور اقتدار پہ قبضہ قائم رکھنا ہے۔
اس سب کوقائم رکھنے کے لیے نمک کی کان میں سب نمک بنے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے اندر کی آگ میں خود بھی جھلس رہے ہیں اور دوسروں کو بھی تاپ دے رہے ہیں۔ سیاست و بادشاہت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
شہروز کی ماں کو بیٹے سے بھی اگلے سی ایم تک کی غرض ہے کیونکہ ملکہ وہ شوہر کی زندگی میں بھی تھی اس لیے اسے اقتدار چھوڑا نہیں جا رہا اور اس کے ملکہ رہنے کی سوچ کو اس کی بہن تقویت دیتی ہے کیونکہ وہ بھی جانتی ہے کہ اگر یہ ملکہ ہے تو وہ مہارانی ہے۔
اقتدار کے لیے ہی وہ اپنی بہن کو بیاہ کر اپنے سسرال لاتی ہے اور اب اقتدار کے لیے ہی وہ شہروز کی دونوں بیویوں کو مہرہ بنا رہی ہے۔
شوشل میڈیا پہ شہروز کے کردار کو کافی ناپسند کیا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے دو عورتوں کی زندگی خراب ہو رہی ہے اور اس کے اندر کا سرمئی انسان دونوں عورتوں کو سیاست کی طرح مہرے بنا کر استعمال کر رہا ہے۔
جب کہ دونوں ہی عورتیں اسے مخلص بھی ہیں اور محبت بھی کرتی ہیں لیکن دونوں کے لیے ہی شہروز کو تقسیم کرنا نا قابل قبول سچائی ہے۔
شوشل میڈیا پہ ہی اس ڈرامے کی کہانی کو بےنظیر بھٹو کی زندگی سے مماثل بھی کہا جا رہا ہے، لیکن وکی پیڈیا اور چینل اس کو لیڈی ڈیانا کی زندگی سے ماخوذ کہانی بتا رہے ہیں۔
بات وہی ہے دلوں میں رہنے والوں کی زندگیوں میں مماثلت بھی ہو سکتی ہے اورجس نے زندگی میں جو پرچہ دیا ہوتا ہے نتیجہ اسی کا آتا ہے۔
دانیہ کو رکھنا شہروزکی مجبوری ہے۔ خاندانی خون اور ایک خاندانی شادی کی سیاست یا بادشاہت میں بہت اہمیت ہے۔ کیم اس کے بچے کی ماں بھی ہے اور اس کی محبت بھی۔
اب شہروز آدھی رات ایک بیوی کے پاس ہے آدھی رات دوسری کے پاس ہے اور باتوں باتوں میں اس نے دونوں کو شیشے میں اتارا ہوا ہے۔
شہروز مرد کا یہ وہ کردار ہے جو عورت کے حوالے سے اس کے اندر کی سمندر دلی کو شفافیت سے دیکھا رہا ہے کہ اگر اس کے مقاصد کچھ اور ہیں تو اسے کسی کے دل میں ہونے، نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسے فرق یہ پڑتا ہے کہ اس کے مقاصد کے لیے کون سا قدم اور شخص اہم ہے۔ وہ کئی وجود لے کر چل سکتا ہے۔
سیاست کا بھی یہی اصول ہے لیکن شہروز کی ماں سماج کی بھی عکاس ہے۔ دانیہ اور کیم عوام کی عکاسی کر رہے ہیں۔
زنجبیل عاصم شاہ ڈراما نگار ہیں اور ہم ٹی وی اس منفرد کہانی کو دکھا رہا ہے۔ مکالمے سادہ مگربہت مضبوط و مربوط ہیں۔ مشکل کام تھا، محنت دکھائی دے رہی ہے۔
موسیقی بہت عمدہ ہے۔ بیک گراؤنڈ میوزک نے تو روح کا کام کیا ہے۔ اداکاری جاندار ہے گرچہ مصنوعی پن کا الزام لگایا جا رہا ہے، لیکن وہ کردار کی مجبوری ہے۔
کردار کچھ نفاستیں اپنی زمین سے بھی لیتا ہے کچھ اپنی ذات سے بھی اٹھاتا ہے۔ اس لیے ڈراما یہ بات ذہین میں رکھ کر دیکھیں کہ یہ لیڈی ڈیانا کا کردار ہے، جو اس زمین کی شہزادی نہیں تھی تو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔