کتوں کے پالتو جانور بننے اور ان کا ہمارے ساتھ سماجی اور جذباتی تعلق کئی تحقیقات کا موضوع بنا ہے۔
ہمیں ایسا سوچنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ جیسے ہم نے جانوروں کو سدھا کر انہیں گھروں میں رہنے کے قابل بنایا، لیکن اس سے کہیں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ بھیڑیوں نے یہ کام خود کیا۔
مزید یہ کہ 15 ہزار سال قبل بھیڑیے کتوں میں کیسے تبدیل ہوئے یہ نظریہ اس امر پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے کہ کس طرح تقریباً 40 ہزار سال پہلے ہمارے اپنے قدیم آبا و اجداد خود اسی طرح ڈرامائی انداز میں خود اپنے آپ کو بھی سدھا لیا تھا۔
کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی میں انسانوں اور جانوروں کے تعلقات کے آثار قدیمہ میں مہارت رکھنے والے بشریات کے پروفیسر رابرٹ جے لوسی بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی نوع کے دوستانہ مزاج اراکین کو ارتقائی فائدہ نظر آتا ہے تو وہ خود کو سدھا لیتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگل میں رہنے والی کسی نوع کے مزاج کو انتہائی تیزی سے بدل دیتا ہے کیونکہ جو جانور مشکل حالات میں جارحانہ ردعمل ظاہر کرنے کا امکان کم رکھتے ہیں ان کی نسل آگے بڑھنے کے امکانات ڈرامائی طور پر بڑھ جاتے ہیں۔
پروفیسر لوسی کے مطابق جدید کتوں کے آبا و اجداد کے یورپ اور ایشیا کے مختلف علاقوں میں پھیلنے سے پہلے ان کی ابتدا مشرقی ایشیا میں ہوئی تھی جہاں شاید مشرقی خطوں میں وہ بھیڑیوں کے ساتھ زیادہ گھل مل گئے تھے۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’یہ امکان ہے کہ 15 اور 20 ہزار سال قبل کے درمیان کسی وقت ان کے ملاپ سے یورپ میں سب سے قدیم کتوں کا جنم ہوا ہو۔‘
یہ وقت بہت اہم ہے۔ وسط حیاتیاتی دور کے آخری حصے میں غالباً ہمارے آبا و اجداد بتدریج خانہ بدوش طرز زندگی سے دور ہو رہے تھے اور طویل مدتی کیمپوں میں آباد رہنے کا آغاز کر رہے تھے۔
پروفیسر لوسی بتاتے ہیں کہ ممکنہ طور پر بھیڑیوں کا خود کو پالتو جانوروں میں ڈھالنے کا عمل ان کے ہڈیوں اور سبزیوں کے ٹکڑوں کی خاطر کیمپوں کے ارد گرد جمع ہونے سے شروع ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بھیڑیوں کے کچھ ضمنی گروہ انسان کے رہائشی ٹھکانوں اور ان کے آس پاس خوراک کی تلاش میں آنے لگے جو انسانوں کے بچ جانے والے حصے سے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔
’بھیڑیوں کے وہ گروہ اپنے حقیقی جنگلی ساتھیوں سے الگ ہوتے گئے اور یوں وہ جنگلی آبادی سے دور ہونے لگے۔
’ممکنہ طور پر یہ ماحول ان جانوروں کے لیے موافق رہا جو زیادہ دوستانہ مزاج والے، تناؤ کو زیادہ برداشت کرنے والے تھے اور جن کے بھاگ جانے کا امکان کم تھا۔‘
پروفیسر لوسی کا خیال ہے کہ جنگلی کتے پالتو کتوں میں تبدیل ہو گئے جو انسانوں کے ساتھ بہت جلد گہرے جذباتی رشتے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ ان کی بطور نگران، محافظ، بربرداری اور سب سے بڑھ کر شکار میں ساتھی کے طور پر خصوصی قدر کی گئی۔
ان کے بقول ’یہ سماجی بندھن آثار قدیمہ سے واضح ہیں۔
’اس کا بہترین ثبوت کتوں کی تدفین کے مقامات ہیں جن کے ابتدائی آثار تقریباً 14 ہزار سال پہلے کے ملتے ہیں اور پھر بتدریج ان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔‘
1914 میں جرمنی میں بون اوبرکاسل (Bonn-Oberkassel) کے مقام سے ملنے والے کتے کی دریافت اس بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
اس مقام سے ملنے والی باقیات میں ایک کتا، ایک مرد اور عورت کے ساتھ ساتھ کئی آراستہ اشیا بھی شامل ہیں۔
ڈی این اے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتا جدید کتوں کا جد امجد تھا۔
کتوں کی تدفین کے مقامات آثار قدیمہ کے ریکارڈ میں ہر جگہ موجود ہیں، تقریباً اسی وقت کے دوران یوکرین، عراق اور مشرقی سائبیریا میں بننے والی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں۔
تدفین کے دوران کتوں کو دیگر اشیا سمیت جس طرح قبر میں رکھا جاتا وہ اکثر بالکل انسانی لاشوں کے تدفین کے طریقہ کار کا عکس پیش کرتا ہے۔
لیکن شکاری گوشت خوروں سے شکار جمع کرنے والی برادریوں کے کیمپ فائر کے آس پاس قابل بھروسہ ساتھی بننے تک بھیڑیوں نے کتنی جلدی یہ سفر طے کیا ہو گا؟
1950 کی دہائی میں روسی ماہر جینیات دمتری بیلایف کے ذریعہ شروع کیا گیا سائبیرین لومڑی کے فارم کا مشہور تجربہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کتوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے جنگلی جانور (canines) بہت کم وقت میں قابل اعتماد پالتو جانوروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
محض دوستانہ مزاج کی غیر جارحانہ لومڑیوں کو نسل در نسل پیدا کرتے ہوئے صرف 50 نسلوں میں جنگلی لومڑیوں کو کسی حد تک پالتو جانوروں میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔
صرف آٹھ نسلوں کے بعد بیلایف کی لومڑیوں نے جسمانی طور پر تبدیل ہونا شروع کر دیا، ہلکے رنگ کی کھال، بڑی اور زیادہ دلکش آنکھیں، لچکدار دم اور لٹکتے ہوئے کان۔
جب انہیں خالصتاً موافق ماحول میسر کیا گیا تو لومڑیوں میں جنگل کے اندر ہزاروں یا لاکھوں سال میں واقع ہونے والی تبدیلیاں بیلایف کی لومڑیوں میں محض چند درجن نسلوں کے اندر رونما ہوئیں۔
پالتو کتوں کی طرح بیلایف کی لومڑیاں سماجی کنایوں اور انسانی اشاروں کا جواب دینے کے قابل تھیں۔
یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو زیر نگرانی موافق ماحول مہیا نہ کیے جانے والے ان کے جنگلی ساتھیوں میں نہیں دیکھی گئی جو محض نسل میں اضافہ کرتے جا رہے تھے۔
اس کی وجہ سے بیلایف اور دیگر محققین نے یہ تجویز کیا کہ جانوروں میں بعض جسمانی خصلتوں کی نشوونما انسانوں کے ساتھ مانوس ہونے سے ہی آتی ہے، یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ڈومیسٹی کیشن سنڈروم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ ایک ایسا رجحان تھا جسے چارلز ڈارون پوری طرح سے نہیں سمجھتے تھے مگر انہوں نے نوٹ کیا تھا کہ پالتو جانوروں کی جسمانی ساخت میں ماحول سے موافقت کے ایک جیسے رجحانات پائے جاتے ہیں۔
تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے اس بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ جب بیلایف کی لومڑیوں پر تجربات شروع کیے گئے تو اس وقت کیا وہ مکمل جنگلی جانور تھیں یا نہیں۔
2019 کے ایک مقالے میں بتایا گیا کہ بیلایف کی حاصل کردہ لومڑیاں کینیڈا کے ایک فر فارم سے تھیں جہاں کاشت کار پہلے سے ہی کھال کے غیر معمولی نمونوں کے لیے جانوروں کی افزائش کر رہے تھے۔
اس مقالے میں شامل محققین میں سے ایک یونیورسٹی آف میساچوسٹس میڈیکل سکول سے وابستہ جینومک سائنس دان ایلینور کارلسن نے تب امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیلایف نے لومڑیوں کو مانوس ماحول میں تیار کیا تھا، لیکن ان کا مقالہ یہ کہتا ہے کہ ’یہ نہیں کہ ڈومیسٹیکیشن سنڈروم وجود نہیں رکھتا بلکہ محض یہ کہ ہمارا نہیں خیال کہ اس کا وجود ثابت کرنے کے لیے شواہد کافی ہیں۔‘
تاہم ییل یونیورسٹی کے کینائن کوگنیشن سینٹر کے ایک محقق زیکری سلور کا خیال ہے کہ بیلایف کے کئی دہائیوں پر محیط تجربے کے اثرات کافی گہرے ہیں۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’اس سے ہم پر واضح ہوتا ہے کہ جنگلی جانوروں سے پالتو جانوروں میں تبدیل ہونا ایک گہرا عمل ہے جو کسی نوع کی جسمانی و ذہنی دونوں خصوصیات تشکیل دے سکتا ہے۔
’یہ اس نظریے کے لیے ایک بہت مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جنگلی جانور سے پالتو جانور بننے کے عمل نے کتے کے ادراک کی تشکیل کی۔‘
سلور کا خیال ہے کہ انسانوں اور جدید پالتو کتوں کے درمیان رشتہ اس وقت قائم ہوا جب وہ شکار کے ساتھی بنے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب ہمارے پاس شکار کرنے کا ایک قابل اعتماد ساتھی تھا جس کے پاس ہم سے مختلف نوعیت کی مہارتیں تھیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم چیز کہ وہ ہماری بات چیت کو سمجھنے کے قابل بھی تھے۔
’ایسا نہیں کہ یہ ایک ہی بار میں ہو گیا ہو۔ ممکنہ طور پر یہ چیز ان کے پالتو بننے کے عمل کے دوران ایک ضمنی فائدے کے طور پر شامل ہو گئی۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے شاید انہیں رکھا جو واقعی ہمارے ارد گرد کو سمجھنے میں اچھے تھے۔
’یہ وہ تھے جن کے ساتھ ہم اپنا کھانا بانٹتے تھے۔ یہ وہی ہیں جنہیں ہم نے اپنی بستیوں میں قریب رکھا اور اسی لیے انہوں نے اپنی جینیات اور ادارک کو منتقل کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں بہتر کامیابی حاصل کی اور نسلوں کو بڑھایا۔‘
ہر خاندان کے گھر میں پالتو کتا موجود ہونا ایک ثبوت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ جدید دور کے گھریلو کتے نسل در نسل چلتے ہیں، ہماری سماجی بات چیت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
’اپنے انسانی مالکان کے زیر تسلط ماحول میں کتوں نے اپنے آپ کو ایک خصوصی حیثیت میں ڈھال لیا ہے۔
’یہاں تک کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہمارے جذباتی وابستگی کے نظام میں راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاکہ مختلف نسلوں کے درمیان محبت کا ایک انوکھا نظام تشکیل دے سکیں۔
آکسیٹوسن ’محبت‘ کا ایک ہارمون ہے جو بچے کی پیدائش کے دوران ماؤں کے خون کی گردش میں شامل ہوتا ہے اور ماں کے دودھ کے ذریعے انسانی شیر خوار بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔
’بچپن کے دوران ماں اور بچے کے درمیان آنکھ کا رابطہ آکسیٹوسن میں اضافہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے جو ان کے بندھن کو مضبوط کرتا ہے۔
’سلور وضاحت کرتے ہیں کہ ایک انقلاب برپا کرنے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کتوں نے کسی نہ کسی طرح اس بنیادی ارتقائی سلسلے کو اختیار کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کتے اور انسانوں کے درمیان آنکھ کا رابطہ دونوں فریقوں میں آکسیٹوسن پیدا کرتا ہے۔
ان نتائج سے پہلے ہم نے آنکھوں کے رابطے پر آکسیٹوسن پیدا کرنے والے ایسے جوڑے کو نہیں دیکھا تھا جن کا تعلق مختلف نسلوں سے ہو۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کی ایک گہری ارتقائی بنیاد ہے۔
کسی نہ کسی طرح کتوں اور انسانوں کے درمیان وابستگی کافی فایدہ مند تھی اس لیے ہمارے جسموں نے ایک حیاتیاتی ردعمل تیار کیا تاکہ ہمیں ان تعاملات میں کشش محسوس ہو۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’آکسیٹوسن کی پیداوار انسانوں میں ایک مثبت اعصابی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہ کتوں اور انسانوں کے درمیان میل جول کے لیے ایک ارتقائی جبر تھا۔‘
اس کے برعکس بعض تحقیقات سے یہ رائے سامنے آتی ہے کہ جن بھیڑیوں کو اپنے ہاتھوں سے پال پوس کر بڑا کیا گیا ان کے ساتھ بات چیت سے انسانی آکسیٹوسن کی سطح متاثر نہیں ہوتی۔
ایسا لگتا ہے کہ پالتو کتوں کے ارد گرد رہنے سے انسانوں اور کتے کی نسل سے تعلق رکھنے والے جانوروں دونوں کے دماغ کی کیمسٹری تبدیل ہو گئی۔
جہاں تک اپنے مالکان کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی بات ہے تو کتے اس کے بڑے ماہر ثابت ہوئے ہیں۔
وہ انسانوں کے ساتھ آنکھ سے رابطہ قائم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور یہاں تک کہ چہرے کے نئے پٹھے تیار کر چکے ہیں تاکہ زیادہ مؤثر طریقے سے ایسا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
بھیڑیوں کے برعکس پالتو کتوں نے آنکھ کے گرد متعین لیویٹر پٹھے زیادہ واضح تیار کیے جو انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ اپنے ابروؤں کے ذریعے اس التجا کو بہتر طریقے سے کر سکیں۔
اسے پپی ڈاگ ایکسپریشن (puppy dog expression) کہا جاتا ہے۔
تحقیق نے یہاں تک تجویز کیا ہے کہ پالتو جانوروں کے بچاؤ کے مراکز میں فیصلہ کن مراحل کے دوران قدرتی انتخاب اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں سب سے زیادہ اداس آنکھوں والے کتوں کے دوبارہ ٹھیک ہونے کا امکان نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔
سلور کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کتے انسانی رویے کے پرجوش طالب علم ہیں اور اپنی توجہ فطری طور پر ان چیزوں پر مرکوز کریں گے جو لوگوں کو پریشان کر رہی ہوں۔
ایک سادہ تجربے میں جہاں دو اجنبی ایسے رویے اپنائیں جن میں ایک کو واضح انداز میں تعاون پسند اور دوسرے کو کھنڈت ڈالنے والے کے طور پر پیش کیا جائے وہاں زیادہ سماجی تجربے کے حامل تربیت یافتہ کتے اس انسان کو ڈھونڈ نکالیں گے جو زیادہ کھلے دل سے سماجی بندھن میں بندھنے کا امکان رکھتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کتے اپنے مالکان کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔
نیورو امیجنگ تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے ایک حصے کاڈیٹ نیوکلیئس نے خوراک کے مقابلے میں تعریف کے جواب میں زیادہ متحرک ہونے کا مظاہرہ کیا۔
ایک سادہ تجربہ جہاں مالکان رونے کا ڈرامہ کرتے ہیں عام طور پر ایک کتا اس شخص کو فرضی تکلیف میں دلاسہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
سلور کہتے ہیں، ’چونکہ کتوں کو انسانوں کے ساتھ اپنی وابستگی سے بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے، یہ ان کے حق میں جاتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو انسان یہ سہولت مہیا کیے ہوئے ہیں ان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رہیں۔‘
شاید کتے کی نسل کے خود کو پالتو جانوروں میں ڈھالنے کے تصوراتی ماڈل کا سب سے زیادہ دلچسپ اطلاق تیزی سے مقبول ہوتے اس نظریے میں نظر آتا ہے کہ انسان بھیڑیوں کے تجربے سے ملتی جلتی تبدیلی سے گزرا ہے لیکن محض 40 ہزار سال قبل۔
2020 میں ڈیوک یونیورسٹی سے وابستہ ارتقائی بشریات کے پروفیسر برائن ہیئر نے ’Survival of the Friendliest‘ نامی کتاب شائع کی جس سے یہ فرضی نظریہ بہت مقبول ہوا کہ آخری مرحلے کے انسانوں نے خود کو سدھا کر گھروں میں رہنے کے قابل بنایا تھا۔
آثار قدیمہ کی مدد سے بشریات کو سمجھنے کے حوالے سے اس بات کے قوی ثبوت موجود ہیں کہ اس وقت کے آس پاس انسانوں نے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح میں کمی کا تجربہ کیا جس کا اظہار ابروؤں کی چوٹیوں کے کم ہونے، چھوٹے چہروں اور مختصر ہوتی کھوپڑیوں میں ظاہر ہوا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے آپ کو سدھانے والے دوسرے جانوروں کی طرح ہم نے بھی جسمانی ساخت کو نرم کیا۔
دوستانہ مفروضے کی بقا سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح گرتی گئی سماجی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز انسانی رویے کا تعین کرنے میں زیادہ موثر ہوتے گئے۔
نتیجے کے طور پر دوستانہ انسان جو باہمی امداد اور تعاون پر مبنی اتحاد بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں ایک ارتقائی فائدہ حاصل ہوا۔
ممکنہ طور پر یہ تبدیلی اس وقت ہوئی جب زندہ رہنے والی پانچ انسانی نسلوں میں ایک ہومو سیپینز یا جدید انسان تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیئر کا کہنا ہے کہ قدرتی انتخاب میں دوستانہ مزاج نے ہمیں ایک برتری فراہم کی جس کی وجہ سے ہمیں نی اینڈرتھال اور دیگر کا مقابلہ کرنے کا موقع ملا۔
ایسا نہیں کہ یہ مفروضہ علمی یا عوامی تنقید کی زد میں نہ آیا ہو۔
لیکن اگر ہم اس طرح سوچتے ہیں کہ ابتدائی پالتو کتے دراصل خود کو گھریلو جانور میں تبدیل کرنے والے بھیڑیے تھے جو ہمارے ابتدائی گھریلو آبا و اجداد کی طرف متوجہ ہوئے تو یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ ہم اس طرح کی ہمدرد روحیں اور مختلف نسلوں کے درمیان بندھن قائم کرنے کی منفرد خصوصیات کیوں رکھتے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود انسانی دوستی کی واضح حدیں ہیں جو ہمیشہ بہت مشروط ہوتی ہیں۔
بیشتر دیگر پری میٹس کی طرح ہم اپنے سماجی گروہ کو بڑھانے اور اجنبیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ صرف اس صورت میں جب ہمیں یہ احساس ہو کہ وہ پہلے سے ہی ہمارے ساتھ اہم خصوصیات اور خصلتوں کا اشتراک کرتے ہیں۔
گھریلو کتے کہیں بھی ناسمجھی کا مظاہرہ نہیں کرتے، ایک اجنبی محض ایک ایسا دوست ہے جس سے وہ ابھی تک نہیں ملے۔
وہ تحقیق جو مجھے سب سے زیادہ دلچسپ لگتی ہے وہ پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک ارتقائی ماہر حیاتیات بریجٹ فان ہولٹ نے کی ہے۔
ان کی ٹیم نے ولیمز بیورین سنڈروم پر توجہ مرکوز کی ہے، ایک بہت کم پائی جانے والی ’ہائیپر سوشل‘ طرز عمل کی حالت ہے جو لوگوں کو غیر معمولی کھلی ڈلی اور قابل اعتماد شخصیت کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔
اس حالت میں مبتلا لوگ نئے لوگوں کی صحبت تلاش کرتے ہیں، گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ملنسار ہوتے ہیں، ان میں غیر معمولی مہربانی، ہمدردی اور معاف کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے جن لوگوں میں یہ حالت پائی جاتی ہے ان کا استحصال کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور بعض اوقات انہیں اپنے آپ سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پالتو کتوں کی طرح ولیمز بیورین سنڈروم میں مبتلا لوگوں کے ڈی این اے کے اسی حصے پر جینومک خلا پایا جاتا ہے۔
لیکن صاف طور پر ڈی این اے کا وہی حصہ بھیڑیوں اور زیادہ وسیع شخصیت کی اقسام والے لوگوں میں بڑی حد تک اصل حالت میں برقرار ہوتا ہے۔
یہ تحقیق کا انتہائی دلچسپ گوشہ ہے کیونکہ یہ زور دے کر کہتا ہے کہ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے کتے کی نسل سے تعلق رکھنے والے کچھ جنگلی جانوروں کو پہلے قدرتی طور پر پالتو بننے اور پھر مصنوعی طور پر ہزاروں سالوں سے ایسے پالتو جانور پیدا کرنے کے لیے منتخب کیا جو بیماری کی حد تک دوستانہ ہوں۔
© The Independent