گوگل کے اے آئی ٹول سے ایک دہائی پرانا طبی مسئلہ دو دن میں حل

محققین کا کہنا ہے کہ بیماریوں کی روک تھام کے لیے مصنوعی ذہانت کی یہ پیش رفت ’انقلابی‘ ثابت ہو سکتی ہے۔

15 جون 2023 کو ایک ٹیکنیشن کو چین کے شہر ووہان میں ایک لیبارٹری میں مصنوعی ذہانت پر مبنی سروائیکل کینسر کی سکریننگ کر رہی ہیں (اے ایف پی)

گوگل کے تیار کردہ ایک نئے مصنوعی ذہانت ( اے آئی) ٹول نے محض دو دن میں طب کے حوالے سے جڑا ایک مسئلہ حل کر لیا، جسے سائنس دانوں کو حل کرنے میں دس سال لگے۔

یہ اہم پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امپیریل کالج لندن کے محققین گوگل کے جدید ترین ’کوسائنٹسٹ اے آئی‘ ماڈل کی جانچ کر رہے تھے۔

وہ ایک ایسے طبی مسئلے پر تحقیق کر رہے تھے جو انہیں کئی سالوں سے درپیش تھا۔

جب سائنس دانوں نے ایک مختصر پرومپٹ میں سوال درج کیا کہ ’کچھ سپر بگز (مزاحم بیکٹیریا) اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کیسے حاصل کرتے ہیں؟‘ تو اے آئی نے کئی جوابات تجویز کیے جن میں سے ایک ایسا تھا جو وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ درست ہے۔

امپیریل کے انفیکشیس ڈیزیز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جوزے پینادیز نے کہا: ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ الگورتھم نے دستیاب شواہد کا تجزیہ کیا، مختلف امکانات کا جائزہ لیا، سوالات کیے، تجربات کا ڈیزائن بنایا اور وہی مفروضہ پیش کیا جس تک ہم نے برسوں کی محنت اور تحقیق کے بعد پہنچے، مگر اے آئی نے یہ سب کچھ لمحوں میں کر دکھایا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اے آئی ’کو-سائنٹسٹ‘ پلیٹ فارم ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ہم پہلے ہی دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں سائنسی ترقی کو بے حد تیز کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘

تحقیق کے شریک رہنما ڈاکٹر ٹییاگو ڈیاز دا کوسٹا کا کہنا تھا کہ یہ اے آئی ٹول سائنس دانوں کو ایسے غیر ضروری تجربات سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے جو قیمتی وقت اور وسائل ضائع کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اے آئی تمام دستیاب شواہد کو یکجا کر کے ہمیں سب سے اہم سوالات اور تجرباتی طریقے تجویز کر سکتا ہے۔ اگر یہ نظام ہماری توقعات کے مطابق کام کرتا ہے تو یہ ایک انقلابی تبدیلی ہو سکتی ہے جس سے غیر ضروری تجربات سے بچتے ہوئے سائنسی ترقی کی رفتار غیر معمولی حد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔‘

یہ نیا اے آئی ٹول تجربات کی اہمیت کو ختم نہیں کرتا بلکہ محققین کا ماننا ہے کہ یہ دریافتوں کی رفتار بڑھانے میں مدد دے گا کیونکہ یہ سب سے زیادہ ممکنہ مفروضے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ابتدائی کامیابیاں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس ( اے ایم آر) کے شعبے میں ہونے کا امکان ہے جو اس وقت عالمی سطح پر صحت کے سب سے بڑے مسئلے میں سے ایک ہے کیوں کہ سپر بگز کی وجہ سے انفیکشنز اور اموات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

امپیریل کالج لندن کی پروفیسر میری رائن نے کہا: ’دنیا اس وقت وبائی امراض، ماحولیاتی استحکام اور خوراک کی کمی جیسے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں روایتی تحقیق و ترقی ( آر اینڈ ڈی) کے عمل کو تیز کرنا ہوگا اور اس میں اے آئی کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے سائنس دان دنیا کے بہترین ماہرین میں شامل ہیں جو تجسس اور تخلیقی سوچ کے ذریعے اے آئی ٹیکنالوجیز کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی بائیومیڈیکل تحقیق میں نئی راہیں کھول سکتی ہے اور سائنسی کام کو مؤثر بنا کر ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔‘

یہ نتائج ابھی تک ’پیئر ریویو‘ کے عمل سے نہیں گزرے لیکن ان پر مبنی ایک تحقیق، جس کا عنوان "AI mirrors experimental science to uncover a novel mechanism of gene transfer crucial to bacterial evolution" ہے، بائیو آرکائیو (bioRxiv) پر شائع کی گئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق