چین میں مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئی گھنٹوں تک فحش مواد کی بھرمار رہی، جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بارے میں خبروں کو چھپانے کی کوشش تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ملک کی سخت ’زیرو کووڈ‘ لاک ڈاؤن پالیسی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات حاصل کرنے سے روکنے کی ایک کوشش کے طور پر اتوار کو سپیم اٹیک کیے گئے۔
ہفتے کے آخر میں شنگائی اور بیجنگ سمیت چین کے متعدد شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ 1989 میں طالب علموں کی زیر قیادت جمہوریت نواز تحریک کے بعد سے ملک میں ایسے مظاہرے نہیں دیکھے گئے۔
تاہم جن صارفین نے ٹوئٹر پر ان چینی شہروں سے پوسٹس تلاش کرنے کی کوشش کی انہیں مظاہروں کے بارے میں مفید معلومات کی بجائے سپیم ٹوئٹس دکھائے گئے۔
ٹیکنالوجی اور سنسرشپ کے تجزیہ کار مینگیو ڈونگ نے ٹویٹ کیا کہ ’چینی بوٹس ٹوئٹر کو جنسی اشتہارات کے ساتھ بھر رہے ہیں، جس چینی صارفین کے لیے مظاہروں کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل کرنا ممکنہ طور پر مزید مشکل ہو رہا ہے۔‘
محققین نے نشاندہی کی کہ اس پلیٹ فارم پر برسوں سے غیر فعال کچھ اکاؤنٹس ایکٹیو ہو گئے اور احتجاج کے بعد ٹویٹ کرنا شروع کر دیا۔
مینگیو ڈونگ نے کہا، ’افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چینی یہ جاننے کے لیے ٹوئٹر پر جائے کہ گذشتہ رات چین میں کیا ہوا تو ممکن ہے اس کی سرچ کے نتائج میں سب سے پہلے بوٹس کی جانب سے شیئر کی جانے والی پوسٹس دکھائی دیں۔‘
مبینہ طور پر ٹوئٹر کو پلیٹ فارم میں بالغ مواد کی لہر روکنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ کیونکہ کمپنی میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کی وجہ سےافرادی قوت نصف سے زیادہ کم ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹوئٹر کے ایک سابق ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’یہ ایک جانا مانا مسئلہ ہے جس سے ہماری ٹیم دستی طور پر نمٹ رہی تھی، اس کے علاوہ ہم نے آٹومیشنز بھی لگائی تھیں۔‘
اس ماہ کے آغازمیں ٹوئٹر نے اپنی پوری افرادی قوت کو ساڑھے سات ہزار سے کم کر کے تقریباً دو ہزار کر دیا، جس میں کمپنی کی پوری انسانی حقوق اور مشین لرننگ اخلاقیات کی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔
ٹوئٹر کی سکیورٹی کے متعلق خدشات اور دھوکہ دہی سے متعلق غیر ملکی اثر و رسوخ کی کارروائیوں پر کام کرنے والے کمپنی کے عملے اور آؤٹ سورس کنٹریکٹ ورکرز کو یا تو نکال دیا گیا تھا یا کام کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی ہے۔
سابق ملازم نے مبینہ طور پر کہا کہ ’ٹوئٹر پر چین کے اثر و رسوخ سے متعلقہ تمام آپریشنز اور تجزیہ کاروں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘
چین میں وبائی مرض کی روک تھام کے لیے چار سال سے جاری لاک ڈاؤن کی سخت پالیسی’صفر کوویڈ‘ پروگرام کی وجہ سے شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
کچھ مظاہرین نے چین کے صدر شی جن پنگ اور کمیونسٹ پارٹی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا جو 73 سال تک ملک پر حکمران ہے۔
شنگھائی میں پولیس نے احتجاج کی ویڈیو بنانے والے بی بی سی کے ایک صحافی کو بھی زدوکوب کیا اور ہتھکڑیاں لگائیں۔
اس پر بی بی سی کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے صحافی ایڈ لارنس کے ساتھ ہونے والے سلوک پر انتہائی فکرمند ہیں، جنہیں شنگھائی میں مظاہروں کی کوریج کے دوران گرفتار کیا گیا اور ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔‘
’ہمیں چینی حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ وضاحت یا معافی نہیں ملی، جنہوں نے صحافی کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کیا انہوں نے صرف یہ دعویٰ کیا کہ ایڈ لارنس کو ان کی بھلے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا تاکہ وہ کرونا کا شکار نہ ہو جائیں۔‘
© The Independent