چین میں اتوار کو سینکڑوں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کی ’زیرو کرونا پالیسی‘ کے خلاف احتجاج کیا جو چین جیسے ملک میں عوامی غم و غصے کا ایک غیر معمولی مظاہرہ ہے۔ احتجاجی ویڈیوز میں شرکا کو ’شی جن پنگ، حکومت چھوڑ دو‘ کے نعرے لگاتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ واقعات بیجنگ اور شنگھائی میں پیش آئے۔
چین کی یہ سخت حکمت عملی عوام میں مایوسی پھیلا رہی ہے۔ لوگ اچانک لاک ڈاؤن، طویل قرنطینہ اور بڑے پیمانے پر کرونا ٹیسٹ کی ملک گیر مہمات سے تنگ آ چکے ہیں۔
شمال مغربی چین میں واقع سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں جمعرات کو اچانک شدید آتش زدگی کے بعد عوامی غم و غصے کو ایک نیا مہمیز ملا کیوں کہ ان کا موقف ہے کہ لاک ڈاؤن کی پالیسیاں وقوعے پر امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کا بنیادی سبب بنیں۔ چینی حکام ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔
اتوار کے روز لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے سینکڑوں افراد نے بیجنگ کی بڑی اور اہم ’سنگھوا یونیورسٹی‘ میں ریلی نکالی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عینی شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’صبح ساڑھے 11 پر طلبا کینٹین کے دروازے پر پلے کارڈ اٹھائے نمودار ہونا شروع ہوئے، پھر اور لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔ اب وہاں 200 سے 300 لوگ ہیں۔‘
’شرکا نے قومی ترانہ اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے نغمے گائے، نعرے لگائے کہ جن کا مفہوم ’آزادی غالب آئے گی‘ اور ’لاک ڈاؤن نہیں، آزادی چاہیے‘ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ طالب علم خالی کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جو چین کی حالیہ سنسر شپ کے خلاف ایک علامتی احتجاج ہے۔
قبل ازیں ایک ویڈیو جو اسی مقام پر بنائی گئی دکھائی دے رہی تھی، جس میں طالب علموں کو ’جمہوریت اور قانون کی حکمرانی، اظہار کی آزادی‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا، اسے فوری طور پر اتار لیا گیا ہے۔
شنگھائی کے حوالے سے ایک اور عینی شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی سہ پہر شہر کے مرکز میں سینکڑوں لوگ جمع ہوئے جو ایک خاموش احتجاج کے لیے وہاں آئے تھے۔ اسی جگہ پر چند گھنٹے قبل ایک مظاہرہ بھی شروع کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین خالی سفید کاغذ اور سفید پھول تھامے کئی چوراہوں پر خاموشی سے کھڑے رہے۔
اس علاقے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ویڈیوز، جو دوپہر کے آخر میں لی گئیں، ہجوم نعرے لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی مختلف زاویوں سے اس فوٹیج میں پیلے پھولوں کا گلدستہ تھامے ایک شخص چوراہے پر پولیس کی گاڑی میں زبردستی دھکیلا جاتا دکھائی دے رہا ہے اور باہر لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
شام کے بعد شنگھائی میں آج سیکورٹی فورسز کی بھاری موجودگی دیکھی گئی۔ پیلے رنگ کی جیکٹوں میں ملبوس درجنوں پولیس اہلکاروں نے سڑکوں کو مکمل گھیرے میں لے لیا اور احتجاج کنندگان کو فوراً علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا۔
ہجوم کی احتجاجی ویڈیو میں مظاہرین کو ’شی جن پنگ، حکومت چھوڑ دو‘ کے نعرے لگاتے دکھایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف عوامی مخالفت کا ایک غیر معمولی مظاہرہ تھا اور اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا اور اے ایف پی نے اس کی جغرافیائی تصدیق بھی کی۔
احتجاج کے شرکا میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’معمولی جھڑپیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر پولیس مہذب تھی۔ یہ حیران کن ہے کہ چین کے موجودہ حالات میں اب بھی بہت سے بہادر لوگ باہر آ چکے ہیں۔‘
متعدد عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔ شنگھائی پولیس نے تبصرے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
حکام نے احتجاج کی آن لائن بحث کو روکنے کے لیے تیزی سے ریلیوں کی فوٹیج سامنے آنے کے ٹویٹر اور چینی متبادل ویبو سے متعلقہ مواد کافی حد تک ڈیلیٹ کروا دیا۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں نانجنگ انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن میں بڑے پیمانے پر مظاہرہ بھی دکھایا گیا، جس میں لوگ لائٹیں اور سفید پلے کارڈ تھامے تھے۔ مظاہرے سے متعلق ہیش ٹیگز ویبو پر سنسر کیے گئے تھے، اور چینی ویڈیو پلیٹ فارمز ڈوئین اور کویشو سے یہ فوٹیج بھی ہٹا دی گئی تھیں۔
ژیان، گوانگژو اور ووہان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہیں جو مختلف جگہ پر احتجاج دکھا رہی ہیں۔ اے ایف پی آزادانہ طور پر ان فوٹیجز کی تصدیق کرنے سے قاصر تھی۔
یہ مظاہرے وائرس کے حوالے سے چین کے صفر رواداری کے نقطہ نظر پر بڑھتی ہوئی عوامی مایوسی کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔