ہر سال لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی ایسی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو سرجری کے ذریعے ٹانگوں کو تڑوانے کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر وہ آہستہ آہستہ بڑی ہو جاتی ہیں جس کا مقصد قد میں چند قیمتی انچوں کا اضافہ کرنا ہے۔
اولیور٭ بتاتے ہیں کہ کیسے وہ بتدریج قد کو لمبا کرنے والی سرجری کے لیے استنبول جانے کے فیصلے پر پہنچے۔
مجھ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے قد کے حوالے سے ہمیشہ گہرے عدم تحفظ کا شکار رہا ہوں جسے دور کرنے کے لیے اس سے پہلے میں نے مختلف تھراپی سیشن لیے لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
’پھر میں نے انسٹاگرام پر کچھ ایسے لوگ دیکھے جنہوں نے یہ سرجری کروا رکھی تھی اور پڑھا کہ اس سے ان کے اعتماد پر کس طرح مثبت اثر پڑا ہے۔
’میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ہی بار مستقل طور پر اس احساس کمتری سے چھٹکارا پانے کے لیے درد برداشت کرنا اور پیسہ خرچ کرنا مہنگا سودا نہیں۔‘
ایک فری لانس مصنف اور ویٹر کے طور پر عارضی کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کو یکجا کرتے ہوئے اولیور نے سرجری کے لیے کافی رقم بچا لی جس سے ان کا قد پانچ فٹ چھ انچ سے بڑھ کر مردوں کے لیے نفسیاتی طور پر اہم اوسط سنگ میل پانچ فٹ نو انچ تک پہنچ گیا۔
اب برطانیہ میں گھر واپس آنے کے بعد اولیور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’دوبارہ پہلی حالت میں واپس آنا تیز رو عمل نہیں۔ معمول کے مطابق چلنے کی شروعات میں تقریباً پانچ مہینے لگے ہیں۔‘
ترکی طویل عرصے سے طبی سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام چلا آ رہا ہے اور اب ڈینٹل ایمپلانٹس، سرجری سے پیٹ کم کرنے، چھاتی کی افزائش اور ناک کی پلاسٹک سرجری جیسے مقبول علاج کے لیے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔
لیکن سرجری سے قد لمبا کرنا محض ایک اور کاسمیٹک عمل نہیں ہے۔ یہ معتدل سے لے کر نہایت خطرناک نوعیت کی سرجری ہے جہاں آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال واقعی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
اگر مریض تقریباً 80 دن پر مشتمل طویل مدت کے لیے کڑی فزیوتھراپی کے لیے تیار نہ ہوں تو وہ ممکنہ طور پر خود کو زندگی بدل کر رکھ دینے والی پیچیدگیوں میں ڈال رہے ہیں۔
Wanna Be Taller استنبول کا ایک کلینک ہے جس نے گذشتہ سات برسوں میں 450 مریضوں کو اپنا قد لمبا کرنے میں مدد دی ہے۔
اس کی ویب سائٹ ’آپ کے استنبول پہنچنے کے لمحے سے لے کر اپنی مطلوبہ قامت حاصل کرنے تک ایک خوبصورت تجربے‘ کا وعدہ کرتی ہے۔
جانا مریضوں کی بہبود کی رابطہ کار کے طور پر مریضوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور ان کی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہیں، ان کے اولین ابتدائی سوالات سے لے کر جب تک کہ وہ اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لیے گھر واپس نہیں آتے، تک مریضوں کا خیال رکھتی ہیں۔
ان کے جذبے اور مہربانی کو دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اتنے زیادہ مریض ان پر کیوں اعتماد کرتے ہیں۔ غیر معمولی پستہ قد و قامت والی جانا کہتی ہیں انہیں ادارک ہے کہ مریضوں کو کونسی چیز ایسے قدم پر مجبور کرتی ہے جو بظاہر انتہائی سخت فیصلہ نظر آتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے یقینی طور پر ان سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ اس کام میں آپ کسی کے اچھا برا ہونے کے متعلق رائے نہیں قائم کر سکتے۔ مریض پوری دنیا سے آتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر کا تعلق امریکہ اور چین سے ہوتا ہے۔
’وہ یہاں اس لیے آتے ہیں کیونکہ ہم امریکہ کے مقابلے میں سستے علاج کی پیشکش کرتے ہیں جہاں (قد لمبا کرنے والی سرجری) بہت مہنگی ہے اور اس میں آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال کی لاگت الگ سے ہوتی ہے۔‘
سرجری کے بعد مریضوں کو عام طور پر پانچ دن کے لیے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے۔ پھر کلینک کے مریضوں کو آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال کے لیے استنبول کے ایک ہوٹل میں رکھا جاتا ہے جہاں صبح 10 بجے سے شام چھ بجے تک کلینک کے دیکھ بھال کرنے والے انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔
جانا کہتی ہیں: ’زیادہ تر مریض اپنے ملک لوٹنے سے پہلے تین یا چار ماہ تک یہاں ٹھہرتے ہیں۔‘
اس اہم فزیوتھراپی کی مدت کو مختصر کرنے یا اس میں جلدی برتنے کی کسی بھی کوشش کا انجام اکثر برا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’ماضی میں مریض گھر واپس لوٹنے سے پہلے صرف ایک ماہ تک قیام کرتے تھے لیکن زیادہ تر کو انفیکشن اور پٹھوں کے سکڑنے جیسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘
قد کو لمبا کرنے والی سرجری کے خطرات کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ طبی پیچیدگیوں میں ڈیپ وین تھرومبوسس (thrombosis) اور چربی کا امبولزم شامل ہو سکتا ہے۔
شاذ و نادر واقعات میں ہڈی مناسب طریقے سے بننے میں ناکام ہو سکتی ہے اور ہڈی گرافٹ سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
جانا بتاتی ہیں کہ زیادہ تر مریض بالغ مرد ہوتے ہیں جن کی عمریں عموماً 25 سے 45 کے درمیان ہوتی ہیں۔
وہ بالعموم 1.62 میٹر کے لگ بھگ ہوتے ہیں جو اپنے فیمرز (ران کی ہڈیوں) کو توڑ کر اور پھر لمبا کر کے اپنی اونچائی تین انچ (آٹھ سینٹی میٹر) تک بڑھانا چاہتے ہیں۔
تاہم جو مریض ایک سال یا اس کے بعد اپنی ٹانگ کے نچلے حصے (tibia) پر دردناک سرجری کے دوسرے دور سے گزرنے کے لیے تیار ہوں ان کا قد ساڑھے پانچ انچ (14 سینٹی میٹر) تک بڑھنا ممکن ہوتا ہے۔
لیکن جانا کے مطابق زیادہ تر مریضوں کے بہت معمولی اہداف ہوتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ بہت سے مریض محض اتنا چاہتے ہیں کہ ان کا قد ان کی گرل فرینڈ سے زیادہ ہو جائے۔
دوران ملازمت بہتر اعتماد حاصل کرنے کے لیے بھی نوجوان اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
قد کو سرجری سے لمبا کرنے کے کئی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ جانا پہلے اس تکنیک کا خاکہ پیش کرتی ہیں جسے ’Precice‘ کہا جاتا ہے۔
فیمر (ران کی ہڈی) میں سوراخ کرنے کے بعد سرجن اسے ہتھوڑے اور چھینی سے بالکل توڑ دیتا ہے۔
اس سے ران کی ہڈی میں ایک راستہ بنتا ہے جہاں ایک اندرونی لمبا کیل جڑ دیا جاتا ہے اور اسے پختہ کرنے کے لیے فریکچر کے اوپر اور نیچے ڈرل کر کے پیچ لگا دیے جاتے ہیں۔
پیچ کولہے سے ذرا نیچے اور گھٹنے سے اوپر ہوتے ہیں۔ سرجری کے بعد ریموٹ کنٹرول سے مقناطیسی سینسر چلائے جاتے ہیں تاکہ کیل کو تقریباً 1 ملی میٹر روزانہ کی رفتار سے بڑھایا جا سکے۔
جسم خالی جگہ کو پُر کرنے کے لیے نئی ہڈی پیدا کر کے اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اس طرح تقریباً 80 دنوں کے عرصے میں فریکچر کے کنارے فاصلہ پاٹتے ہوئے نئی ہڈی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جس کی لمبائی عام طور پر دو سے تین انچ ہوتی ہے۔
لیکن آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال سمیت پورے طریقہ کار کی لاگت 40 ہزار ڈالر ہے اور یہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مہنگا ہے۔
20 سال سے کم عمر مریضوں کے لیے جو عام طور پر زیادہ محدود وسائل رکھتے ہیں، Wanna Be Taller قد کو لمبا کرنے کا انتہائی سستا طریقہ ’Lengthening Over Nail‘ (ایل او این) پیش کرتا ہے جس کی لاگت 23 ہزار 850 ڈالر ہے۔
ایل او این طریقہ قد کو لمبا کرنے کی اصل تکنیک کا ایک جدید ورژن ہے جس کا آغاز 1950 کی دہائی میں روسی معالج گاوریل الیزاروف نے کیا تھا تاکہ فوجیوں کو میدان جنگ کے زخموں سے صحت یاب ہونے میں مدد مل سکے۔
ایل او این طریقہ اب بھی الیزاروف کی ایک تیکنیک استعمال کرتا ہے، ایک قسم کا بیرونی فکسیٹر یا دھاتی فریم جو باہر سے ٹانگ کے گرد لپیٹا جاتا ہے اور پنیں لگا کر جلد کے ذریعے ہڈی سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔
بیرونی فریم کا بتدریج لمبا ہونا جسم کی نئی اندرونی ہڈی کی تشکیل میں معاونت کرتا ہے۔
جانا بتاتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے یہ تکلیف دہ ہے اور اس میں آپ کی ٹانگ کے ساتھ دو یا تین مہینوں تک ایک بھاری چیز جڑی رہتی ہے، لمبا کرنے کا عمل دھات کی ایک کھوٹ والی چابی کے ذریعے انجام پاتا ہے جسے سوراخ میں ڈال کر (ہاتھ سے) ہر چھ گھنٹے بعد دن میں چار مرتبہ 90 ڈگری کے رخ پر موڑا جاتا ہے جس کا نتیجہ فی روز تقریباً ایک ملی میٹر کی نمو ہے۔‘
ایل او این انتہائی پریشان کن تیکنیک ہے۔ جب جانا مجھے ہاتھ سے موڑنے کا طریقہ کار بتاتی ہیں تو میں درد کی شدت کو تصور کرتے ہوئے تکلیف کے احساس سے غیر ارادی طور پر دہرا ہو جاتا ہوں۔
زیادہ تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایل او این طریقہ کار کے نتیجے میں ٹانگوں پر داغ پڑنے کا امکان ہوتا ہے اور انفیکشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے جس سے بچنے کے لیے انتہائی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
جانا مجھے بتاتی ہیں کہ ’سرجری کے بعد سچ پوچھیں تو پہلے چند دن کافی مشکل ہوتے ہیں۔ اگرچہ کچھ مریض درد کو بہت آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں لیکن زیادہ تر کو اینٹی بائیوٹکس اور خون کو پتلا کرنے والی ادویات کے ساتھ ساتھ عمدہ قسم کی درد کش ادویات اور مارفین کے مرکب کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مریضوں کو عام طور پر پانچ دن کے لیے ہسپتال میں رکھا جاتا ہے۔ ایک بار جب انہیں وہاں سے ہوٹل منتقل کر دیا جائے اس کے بعد ادویات صرف منہ کے راستے لی جاتی ہیں۔‘
اس کے بعد ہوٹل میں دی جانی والی دیکھ بھال انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جانا بتاتی ہیں کہ روزانہ کی سخت فزیوتھراپی اور سٹریچنگ ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ مریض کو ہر 15 دن میں ایکس رے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پہلے والی ہڈیاں نئی ہڈی بننے کی رفتار کی نسبت زیادہ تیزی سے الگ تو نہیں ہو رہیں۔
بہت سے نوجوان مریضوں کی طرح اولیور نے بھی قد لمبا کرنے کی سب سے کم قیمت سرجری ایل او این کا انتخاب کیا۔
اگرچہ بعض اوقات اس کی شدت انتہائی بڑھ جاتی مگر ایسا نہیں کہ اولیور کے لیے قد بڑا کرنے کے عمل کے دوران یہ تکلیف بدترین چیز تھی۔
وہ کہتے ہیں ’شاید قد لمبا کرنے کے دوران سب سے مشکل پہلو دن کا بیشتر حصہ بستر پر لیٹے رہنے کی بوریت تھی کیونکہ آپ پہلے 3 ماہ تک (سہارے کے بغیر) نہیں چل سکتے۔‘
جانا مریضوں سے طویل عرصے تک رابطے میں رہنے کی کوشش کرتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لیے اپنے آبائی ممالک میں واپس آ چکے ہوں اور اب بھی وہ اولیور کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں لیکن ان کا مریضوں کی اکثریت سے بہت جلد رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ محسوس کرتی ہے کہ بہت سے لوگ ان کے ٹیکسٹ میسجز کے جواب دینے میں زیادہ وقت لگانے لگے ہیں اور تب وہ سوچتی ہے کہ بہت سے لوگ اسے ماضی کا تجربہ سمجھتے ہوئے محض اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ مریض اکثر اپنے سماجی حلقے کے قریب ترین ممبران سے بھی اپنے طریقہ کار کی اصل نوعیت کو چھپاتے ہیں۔
حال ہی میں انہیں ایک مفصل کور سٹوری میں شریک ہونے کے لیے کہا گیا جہاں ایک مریض نے ان سے کہا کہ وہ آنے والے خاندان کے ایک فرد کو یہ باور کرانے میں مدد کریں کہ وہ اعضاء کی خرابی کو درست کرنے کے لیے ضروری سرجری کے لیے استنبول میں ہے۔
دوسرے لوگ گھر واپس آ کر اپنے اچانک بڑھے ہوئے قد کو مذاق میں اڑاتے ہوئے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ اعضاء کو کھینچنے کی مشقوں یا لمبائی میں اضافے کی گولی کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔
یہاں تک کہ ایک نے اپنے والدین کو بتایا کہ اس کا بڑھتا ہوا قد ترک کھانا کھانے کا ایک ضمنی اثر ہے۔
لیکن اس بات کے پیش نظر کہ عام طور پر مکمل صحت یاب ہونے میں آٹھ یا نو مہینے لگتے ہیں زیادہ تر مریض اپنے خاندان اور اپنے قریبی سماجی حلقے پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
جانا بتاتی ہیں کہ رومانوی تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے میں مسائل نوجوانوں کے لیے اس کے اہم محرک ہو سکتے ہیں۔
وہ ایک اور نوجوان مریض کا دل دہلا دینے والا تجربہ بیان کرتی ہے جس سے انہوں نے حال ہی میں دوستی کی تھی۔ انہیں اپنی شادی سے عین قبل ٹھکرا دیا گیا کیونکہ دلہن کی ایک سہیلی نے ان کے مستقبل کے بچوں کے قد کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
لیکن جانا کا خیال ہے کہ ملازمت کے دوران زیادہ پراعتماد ہونے کی خواہش اور بھی زیادہ طاقت ور عنصر ہے جو نوجوانوں کو جراحی کے ذریعے حل تلاش کرنے کی طرف لاتا ہے۔
کچھ لوگ کام کی جگہ پر سنجیدگی سے نہ لیے جانا یا اپنے خیالات کو اہمیت نہ ملنا وجہ بتاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کی کوتاہ قامتی پر ہونے والے ہنسی مذاق میں انہیں شریک ہونا پڑتا ہے لیکن اندر ہی اندر وہ ذلت کے احساس سے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ تباہ کن اثرات طویل مدتی ہوتے ہیں اور تکلیف دہ ڈپریشن اور عدم اعتماد کے مستقل احساس کا باعث بن سکتے ہیں۔
امریکن جرنل آف سائیکاٹری میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں بلند قامتی اور خودکشی کی شرح کے درمیان ایک انتہائی معنی خیز متضاد تعلق پایا گیا۔
2017 میں شائع ہونے والی اپنی زبردست کتاب Shortchanged: Height Discrimination and Strategies for Social Change، میں تانیہ ایس اوسینکی نے دلیل دی کہ قد کی بنا پر تعصب و تنقید امتیازی سلوک کی وہ آخری صورت ہے جسے سماجی طور پر قبولیت حاصل ہے۔
اوسنسکی کے مطابق قد کی بنا پر تعصب و تنقید سادہ نظروں میں ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک ایسا پرفریب لاشعوری تعصب ہے جو ’اتنے آرام سے برت دیا جاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘
اوسنسکی نسلی اور جنسی امتیاز کا آپس میں موازنہ کرتی ہیں، اگرچہ سماجی اصول ہدایات دیتے ہیں کہ کسی فرد کی جسمانی ساخت کے بارے میں تبصرے بعض وجوہات سے ناقابل قبول ہیں لیکن جب بات قد کاٹھ کی آتی ہے تو ہم عام طور پر انہیں یہاں لاگو نہیں کرتے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ 40 سال پہلے کام کی جگہ پر جس قسم کی نسل پرستی یا صنفی امتیاز پر مبنی ’چھیڑ چھاڑ‘ عام تھی وہ آج ہمارے لیے خوف ناک ہو گی لیکن مثال کے طور پر ہمارے لیے ایک گھٹیا مینیجر کے نپولین سنڈروم سے متعلق بڑبڑاتے ہوئے بحث میں شامل ہونا بالکل قابل قبول ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہمارے اندر ایک مبہم احساس موجود ہے کہ جب چھوٹے لوگ اعلی عہدوں کو حاصل کر لیتے ہیں تو پھر بھی ان کے پاس حقیقی طاقت لاگو کرنے کے لیے ’قدرتی اختیار‘ کی کمی ہوتی ہے۔
ہم ایک سیاسی رہنما کو نسلی بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنانے کے زمانے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن مثال کے طور پر طنزیہ کارٹون ہمیشہ رشی سنک کی کوتاہ قامتی کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔
’ہائیٹ ازم‘ کی اصطلاح سال فیلڈمین نے 1971 میں وضع کی تھی۔ ان کے بعد آنے والے سماجی ماہرین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہائیٹ ازم کی جڑیں ارتقائی عمل میں پیوست ہیں۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہم بلند قامتی کو قوت اور طاقت کے ساتھ منسلک کر کے دیکھتے آئے ہیں وہاں یہ سمجھنا آسان ہے کہ کس طرح غیر شعوری طور پر سائز سماجی حیثیت اور کام کی جگہ پر اعتبار کے ساتھ یکجان ہو جاتا ہے۔
کام کاج کی جگہ کے اعداد و شمار اس کی تصدیق کریں گے۔ برطانیہ، چین اور امریکہ کے تمام مطالعات بلند قامتی اور زیادہ تنخواہ کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ ایک الگ تحقیق کے مطابق محض تین فیصد چیف ایگزیکٹو آفیسرز پانچ فٹ سات انچ سے کم تھے۔
ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ چیف ایگزیکٹو آفیسرز عام آبادی سے اوسطاً تین انچ لمبے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور اگر یہاں حالیہ برسوں میں عام ہونے والے ’ووک‘ (woke) رحجان کے تحت کہا جائے کہ یہ دفتر کے معاملے میں سامنے والا ایک اور ’ازم‘ ہے تو ہمیں رک کر اس امکان پر غور کر لینا چاہیے کہ شاید ہم بقول اوسینسکی ’طویل قامت لوگوں کا استحقاق‘ کی علامات ظاہر کر رہے ہیں۔
حقیقی امتیازی حیثیت کی نشانی یہ ہے کہ آپ نے خوش قسمتی سے انجانے میں بغیر کسی کاوش تمام امتیاز حاصل کر لیے اور یہاں تک کہ آپ کو ان کا اندازہ تک نہیں جبکہ عین اسی وقت آپ کو اندازہ بھی نہ ہو کہ آپ کے کم خوش قسمت ساتھیوں کو معمول کے مطابق کیسی ذلالت برداشت کرنا پڑتی ہے۔
اپنی سرجری کے بعد اولیور کو برطانیہ میں اپنے گھر واپس آئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور وہ صحت یابی کے عمل میں تقریباً دو تہائی راستہ طے کر چکے ہیں، ان کی نقل و حرکت ابھی معمول پر آنا شروع ہوئی ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہدف کے مطابق برطانوی افراد کی اوسط پانچ فٹ نو انچ تک قد بڑا کر لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’میں اب اپنی شبیہہ سے کہیں زیادہ پراعتماد اور خوش ہوں۔ میں نے جم میں ویٹ لفٹنگ شروع کی ہے اور لوگوں نے میری نئی قامت کے بارے میں بہت مثبت رائے ظاہر کی ہے جو بہت اچھی لگتی ہے۔‘
اس نتیجے سے بچنا مشکل ہے کہ ہائیٹ ازم کی خطرناک منفی قوت ہمارے معاشرے میں زندہ ہے اور لوگوں کی بالخصوص نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد محض چند انچ لمبا ہونے کے لیے خود کو جان لیوا درد اور زندگی کو بدل ڈالنے والی پیچیدگیوں کے خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔
اس خطرے کے پیمانے کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ طبی سیاحت کی صنعت بین الاقوامی سطح پر ریگولیٹ نہیں ہے اس لیے اس عمل کے بعد کی پیچیدگیوں کے بارے میں بہت کم ڈیٹا موجود ہے۔
جہاں تک ان کی بات ہے تو اولیور کا اصرار ہے کہ قد بڑا کرنے کی سرجری کو ہلکا نہیں لیا جانا چاہیے اور اس کے بارے میں تب سوچنا چاہیے جب کوئی اور حربہ رہ نہ گیا ہو۔
وہ کہتے ہیں ’جو لوگ اس کا سوچ رہے ہیں میرا ان کو مشورہ ہے کہ پہلے اپنی اپنی شبیہ کے بارے میں دوسرے تمام طریقے اچھی طرح آزما لیں۔
شاید کچھ اور چیزیں ہیں جن سے آپ اپنے اعتماد اور خودی کو بہتر کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ بنیادی عنصر آپ کا قد ہے تو معقول رقم خرچ کرنے اور کافی سارا درد برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔‘
*شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔
© The Independent