آج کا انسان اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جی رہا ہے۔ اس کی اپنی زندگی کا محور دوسرے اچھا کہتے رہیں، کے گرد اتنا گھومتا ہے اور اتنا گھومتا ہے کہ وہ اندر سے کھوکھلا اور تنہا ہو کر وقت سے پہلے ایک زندہ نعش بن جاتا ہے۔
ڈرامے نے تو اس علامتی نعش کو موت کی نیند بھی سلا دیا ہے تاکہ اس بات کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔
کہانی مونا کے گرد گھومتی ہے۔ مونا ایک موٹی مگر سمجھ دار ، باشعور اور حساس لڑکی ہے جو اپنے فیصلے بھی خود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنے پہ آنے والی مشکلات کو سہنے کی ہمت بھی رکھتی ہے جبکہ اس کی بہن سمیعہ اس کا تضاد ہے وہ ساری عمر ماں کی خاطر،اس کے بعد شوہر کی خاطر اپنے ہر طرح کے جذبے اور خواہشات قربان کرتی آئی ہے بطور بیٹی اور بطور بیوی وہ ایک آئیڈیل لڑکی ہے لیکن سب کے لیے اچھا بننے میں اس کی ذات کی اتنی نفی ہو جاتی ہے کہ وہ ڈپریشن سے مر جاتی ہے۔
اس کے والد اور بہن مونا کو اندازہ تھا کہ سمیعہ کو سلم سمارٹ آئیڈیل بیوی اور بیٹی بننےکے لیے کیا کیا قربانی دینا پڑ رہی ہے۔ اس کی جسمانی و ذہنی صحت متاثر ہوتے ہوتے یہاں تک بات پہنچتی ہے کہ وہ زندگی سے ہار جاتی ہے۔
اس کے باپ کو پچھتاوا ہے کہ کاش اس کا شوہر اور ماں اس کو ڈاکٹر کے پاس جانے دیتے تووہ اس نفسیاتی مرض سے نکل آتی مگر ان دونوں کاخیال تھا کہ یہ محض خام خیالی ہے کہ وہ ذہنی طور پہ بیمار ہو چکی ہے کیونکہ اس کے پاس تو دنیا کی ہر آئیڈیل شے موجود ہے حسین ہے ، ماں بننے کے بعد بھی سمارٹ ہے، دولت ہے، اچھا شوہر ہے،اچھا گھر ہے، والدین اچھے ہیں، ایک اچھا طرز زندگی ہے تو ایسی بندی کو کوئی بیماری کیسے ہو سکتی ہے ڈپریشن کیسے ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے کہ آئیڈیل زندگی تو انسان کو مل جاتی ہے مگر اس میں سے زندگی کی نفی ہو جاتی ہے۔
زندگی کا سکون اور خوشی نارمل رہنے میں ہے۔ مونا گرچہ موٹی ہے مگر وہ ایک اپنے سچے جذبے دباتی نہیں ہے ، رونےکا موقع ہے تو رو لیتی ہے، کھل کر ہنس بھی سکتی ہے، زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحے جی بھی لیتی ہے۔ اپنے دل کی بات بھی کہہ سکتی ہے۔ غصہ بھی کر سکتی ہے۔ سکوٹی بھی چلا سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ لوگ کیا کہیں گے۔
مونا میں قوت فیصلہ ہے جو ایک طاقت ور اور ذہنی جسمانی صحت مند انسان میں ہوتی ہے، اس کو اپنے موٹاپے کا اندازہ ہے۔
دنیا بلکہ اس کی ماں بھی اس کے بارے میں کیا کہتی اور سوچتی ہے اسے سب علم ہے مگر وہ زندگی جینے سے ہار نہیں مانتی۔
کراچی سے لاہور آ کر جاب تلاش کرنے لگتی ہے۔
ایک چھوٹاسا گھر لے کر رہنے لگتی ہے۔ اس کا ایک کلاس فیلو عرفان بھی اسی کی طرح کچھ موٹا ہے اسے دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ اسے پسند کرتے ہوئے بھی اپنی حقیقت سے خود بھاگ رہی ہے لیکن عرفان اسے پرپوز کو دیتا ہے۔ اسی دوران مانا کی بہن کا انتقال ہو جاتا ہے و9 کراچی چلی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرفان مایوسی میں جلد بازی، جذبات اور بد گمانی سے کام لیتے ہوئے شادی کر لیتا ہے۔
مونا کے بہنوئی اس کی شادی اپنے ایک بزنس پارٹنر سے کروانے کی کو شش کرتے ہیں جو ایک بچی کا باپ ہے۔ مونا کی ماں کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بہتر رشتہ ہے لیکن مونا کے دل کی بات ہمیشہ کی طرح کوئی نہیں سمجھ رہا ہوتا۔
لڑکی کو بھی مرد کی طرح پہلی شادی کے وقت پہلا ہی مرداچھا لگ رہا ہوتا ہے لیکن وہ بول نہیں سکتی۔
اس کراچی لاہور کے سفر میں مونا کی بہن زندگی ہار جاتی ہے تو مونا کے والد اس کے کلاس عرفان کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں
یہاں مونا ایک بار پھر ہار جاتی ہے سمیعہ جس ڈپریشن سے مر گئی تھی مونا اس ڈپریشن کو سہنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ بہت شدید صدمے کا شکار ہوتی ہے مگر قابل رحم نہیں بنتی۔ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔
مکالمے بہت سادہ اور بہت اچھے ہیں زندگی کے فلسفے معلوم ہوتے ہیں گرچہ موضوع کو ہائی لائٹ کرنے کی وجہ سے کہیں طویل ہو گئے ہیں مگر بوجھل نہیں لگتے۔
سعمیہ کہتی ہے
’ممی آپ کی پرفیکٹ بیٹی بننے کے لیے میں نے پتہ نہیں کیا کیا سہا ہے"
ایک جگہ مونا کہتی ہے" میرادل ہیوی ہے اس لیے تم نے نازک دل کی لڑکی سے شادی کر لی ہے"
گویا اسے اپنی کمی کا احساس اپنے اس دوست سے بھی ہوا جو کبھی اس کو باڈی شیمنگ کا احساس نہیں دلاتا تھا۔
ایک اور حسین جملہ ہے
"تم نے اسے کبھی ماں کی نظر سے دیکھا ہی نہیں ، دیکھتی تو نظر آتا۔ تمہارے لیے تو وہ صرف ایک ٹوائے تھی جسے تم دنیا کو دیکھا کر صرف خوش ہوا کرتی تھی کہ دیکھو اس طرح کی چیز کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ اس کے اندر بالکل انرجی نہیں تھی اور ہم دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے کہ دیکھو کتنی سمارٹ ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی خوشی کے بارے میں نہیں سوچا۔۔ سب نے مارا ہے اسے "
کردار اپنی اپنی جگہ پرفیکٹ میچ لگ رہے ہیں۔ صنم جنگ کی اداکاری کے ساتھ ڈریسنگ اور جیولری نے ایکس ایل سائز کو ایک حیسن اور نفیس آئیڈیا بھی دیا ہے۔
مصنف حسیب احمد نے ہر اعتبار سے ایک عمدہ مکالمہ اور منظر لکھا ہے۔ علی حسن ہدایت کار ہیں۔ ڈرامے نے حال کو مسلہ نہیں بنا لیا بلکہ جو ہوا سو ہوا سمجھ کر زندگی کی انگلی تھام کر کہانی آگے بڑھ گئی ہے۔
مونا کے بہنوئی کی زندگی میں اس کی پہلی بیوی جیسی ہی دبلی پتلی آئیڈیل سی لڑکی پھر آ جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ اسے جینے کا ڈھنگ سیکھاتی ہے یا مونا کی بہن کی طرح چپ کے پہاڑ کے نیچے دب کے مر جاتی ہے۔
کراچی اور لاہور کی عکس بندی بہت خوبصورت کی گئی ہے۔ کراچی کا سین آنے سے پہلے سمندر اور لاہور کا آنے سے پہلے یہاں کا فضائی عکس دکھایا جاتا ہے تو بڑی سکرین کا لٖطف آتا ہے عکس بندی میں جمالیات حس دکھائی دیتی ہے۔
موٹی مونا اصل میں موٹے دماغ کو نارمل کرنے کی طرف ایک کامیاب و حسین قدم ہے۔