کیا حکومت بجلی کے بلوں میں ٹیکس ریلیف دے گی؟

کیا حکومت بجلی صارفین کو ٹیکس ریلیف دے سکے گی یا نہیں اور کیا بجلی مزید سستی ہو سکتی ہے؟ انڈیپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

30 مئی 2021 کی اس تصویر میں کراچی میں بجلی سپلائی کمپنی کا اہلکار بجلی کی تاروں کی مرمت کر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں مہنگی بجلی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ڈالر ریٹ کنٹرولڈ ہے، شرح سود نیچے آ چکی ہے اور مہنگائی میں بھی کمی ہوئی ہے لیکن بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہو سکیں۔

حکومت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے بڑے دعوے کیے تھے۔ ابھی 15 مارچ کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے دس روپے مزید لیوی لگا دی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ سرکار جلد ہی بڑے بجلی ریلیف کا اعلان کرے گی۔

تقریباً آٹھ روپے فی یونٹ کے دعوے کیے جا رہے تھے، عوام ایک مرتبہ پھر امید لگا کر بیٹھ گئی۔ پہلے کہا گیا کہ 23 مارچ کو بجلی پر ٹیکس ریلیف کا اعلان کیا جائے گا لیکن اعلان نہیں ہو سکا۔

اب اعلان ہوا ہے تو  ایک روپے 71 پیسے  فی یونٹ بجلی کم کرنے کی درخواست کی گئی ہے یعنی کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔

حکومت ابھی بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ بجلی صارفین کے لیے ریلیف پیکج پر کام جاری ہے اور آئی ایم ایف کی منظوری سے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔

گرمیاں آ رہی ہیں اور بجلی کے بلز آیٹم بم بن کر عوام پر گرائے جائیں گے۔ عوام سرکار کی جانب دیکھ رہی ہے اور سرکار آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت بجلی صارفین کو ٹیکس ریلیف دے سکے گی یا نہیں اور کیا بجلی مزید سستی ہو سکتی ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’200 یونٹس استعمال کرنے والوں پر ٹیکس تقریباً 22 فیصد ہےجو کہ 35 سے 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس میں 18 فیصد سیلز ٹیکس، 9 فیصد تک انکم ٹیکس اور دیگر فکسڈ چارجز شامل ہیں۔ ٹیکس ریٹ کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نہیں مانے گا، 8 روپے فی یونٹ کا ریلیف قلیل مدت میں تقریباً ناممکن ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سرکار آٹھ روپے فی یونٹ بجلی ریٹ کم کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے دیر پا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی دس روپے بڑھائی گئی۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن کی بنیاد پر بھی اگر بجلی ریٹ کم ہو سکتا ہے تو وہ صرف تقریبا 1.71 وپے فی کلو واٹ ہے۔

’سرکار کس بنیاد پر دعوے کر رہی تھی یہ تو وہی بتا سکتی ہے۔ مکمل پاور کپیسٹی کا 20 فیصد چائنیز آئی پی پیز کی ملکیت ہے۔ اگر ان کے ساتھ قرضوں کو ری شیڈول کر لیا جائے تو تقریباً پونے تین روپے فی یونٹ تک کمی کی جاسکتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’اگر بجلی کا استعمال پانچ فیصد تک بڑھا دیا جائے تو بھی ایک روپے 17 پیسے فی کلو واٹ بجلی کا ریٹ کم کیا جا سکتا ہے۔ کیپٹو پاور پلانٹس کی پیداروی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر کیپٹو پاور پلانٹس کی بجائے گیس ایسے آئی پی پیز کو دی جائے جن کی پیداواری صلاحیت بہتر ہے تو تقریباً تین روپے 35 پیسے فی کلو واٹ بجلی سستی کی جا سکتی ہے۔

’بجلی چوری اور ریکوری کے نقصانات کا تخمینہ تقریبا 11.43 فیصد ہے، اگر اسے پانچ فیصد کم کر لیا جائے تو ایک روپے 90 پیسے فی کلو واٹ بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ کے الیکٹرک کی طرح باقی ڈسکوز کی نجکاری سے بجلی نقصانات کم ہو سکتے ہیں جس سے بجلی کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تجاویز حکومت کو کئی مرتبہ دی جا چکی ہیں لیکن شاید سرکار کے لیے ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔‘

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابو ذر شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے ہم سے آٹھ روپے فی یونٹ بجلی کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا، اس میں بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف ہے۔ مہنگی بجلی سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہو چکی ہے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، جس سے بےروزگاری بڑھ رہی ہے۔

’اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 44 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن سرکار اور آئی ایم ایف کو اس سے فرق نہیں پڑ رہا۔‘

ان کے مطابق: ’اگر آئی ایم ایف نہیں مان رہا تو بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے ٹیکسز کی بجائے آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز ختم کیے جائیں۔ تقریباً 1800 ارب روپے سالانہ  کپیسٹی چارجز کی مد میں دیے جا رہے ہیں جو کہ پانچ ارب روپے روزانہ کے بنتے ہیں۔ ان میں سے آدھے آئی پی پیز حکومت کے ہیں۔

’تقریباً 17 روپے فی یونٹ کپیسٹی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں۔ اگر سرکاری آئی پی پیز کو ادائگیاں بند ہو جائیں تو تقریباً آٹھ روپے بجلی فوراً کم ہو سکتی ہے۔‘

سلیم خان ایک نجی کمپنی میں اکاونٹنٹ ہیں۔ شدید گرمی آنے سے پہلے وہ سولر سسٹم لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے کچھ رقم جمع کر رکھی ہے۔

انہوں نے لیسکو میں اپنے ایک دوست سے سولر سسٹم لگوانے کے حوالے سے معلومات لیں تو انہیں معلوم ہوا کہ نئی سولر پالیسی سے حکومت کی آمدن تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ نیٹ میٹر صارفین پچاس فیصد سے بھی کم ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ