سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے 1992 میں بش سینیئر کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے فقرہ کہا، جو آج بھی مشہور ہے، It’s the economy, stupid کہ الیکشن لڑنے کے لیے سب سے اہم چیز معیشت ہے، اس کے مقابلے پر باقی ساری چیزیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔
کلنٹن تو بش کو ہرا کر اگلے آٹھ سال اقتدار پر براجمان رہے لیکن یہ فارمولا ترکی میں کام نہیں آیا جہاں صدر رجب طیب اردوغان کے حریف کمال کلیچ دار اوغلو تمام تر کوششوں کے باوجود ہار گئے، حالانکہ 2023 کے ترکی کی معاشی حالت 1992 کے امریکہ سے کہیں بدتر ہے۔
آج ترکی مہنگائی عروج پر ہے۔ چیزوں کی قیمیتں اتنی تیزی سے بدلتی ہیں کہ دکان داروں نے اپنی مصنوعات پر ٹیگ لگانا چھوڑ دیے ہیں کیوں کہ صبح کچھ اور قیمت ہوتی ہے اور شام کو کچھ اور۔ گذشتہ سال افراطِ زر کی سطح 85 فیصد کو چھو گیا تھا۔ البتہ اب یہ سطح 44 فیصد کے قریب ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستانی عوام ’خوش قسمت‘ ہیں کہ بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں اپریل میں یہ شرح ’صرف‘ 37 فیصد تھی۔
مزید یہ کہ ترکی میں اسی سال فروری میں تباہ کن زلزلہ آیا جس سے کم از کم 50 افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حزبِ اختلاف نے اس کا الزام حکومت کی جانب سے کمزور انفراسٹرکچر اور ناقص تعمیراتی میٹریل پر دھرا۔
تو وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر اردوغان جیتے؟
1 سیاسی انجینیئرنگ
اردوغان کے حریف کمال قلیچ دار اوغلو نے انتخابات کے نتائج نشر ہونے کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے حالیہ برسوں کے سب سے زیادہ غیرمنصفانہ انتخابی عمل کا سامنا کیا ہے۔‘
غیرمنصفانہ عمل کی ایک مثال استنبول کے میئر اکریم امام اوغلو ہیں، جن کے بارے میں رائے شماری کے بعض نتائج سے ظاہر ہوا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں اردوغان کے خلاف آسانی سے جیت سکتے ہیں۔
لیکن پچھلے سال دسمبر میں امام اوغلو کو ڈھائی سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان پر الزام کیا تھا، یہ کہ انہوں نے حکام کو ’احمق‘ کہا تھا۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اس کے بارے میں دسمبر 2022 میں لکھا، ’اکریم امام اوغلو کے خلاف فیصلہ انصاف کا بازو مروڑنے کے مترادف ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2023 کے انتخابات میں سیاسی مخالفوں کا منہ بند کرنے کے لیے حکومت عدالتوں کا استعمال کر رہی ہے۔
امام اوغلو اکیلے نہیں ہیں، برطانوی اخبار ’سپیکٹیٹر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف گذشتہ برس ترکی میں 16 ہزار سیاسی مخالف سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
امام اوغلو کے منظر سے ہٹنے کے بعد حزبِ اختلاف کو کمال قلیچ دار اوغلو کے پیچھے اکٹھا ہونا پڑا، جو نسبتاً کمزور امیدوار تھے۔
2 منظم سیاسی مہم
یہ 14واں الیکشن ہے جو اردوغان جیتے ہیں۔ ان کے پاس ایک بےحد منظم، تجربہ کار اور مستعد انتخابی ٹیم ہے جو جدید خطوط پر انتخابی مہم چلانے کا ہنر جانتی ہے۔
اس کے مقابلے پر ان کی حریف جماعتیں بکھری ہوئی نظر آئیں اور مختلف پارٹیوں کا مجموعہ ہونے کے باعث ان کے پاس کوئی مربوط پلان آف ایکشن نہیں تھا۔
اس کے علاوہ اردوغان نے ان انتخابات کا انعقاد قبل از وقت ہی کروا دیا جس سے حزبِ اختلاف کو تیاری کا موقع نہیں مل سکا۔
3 کنٹرولڈ میڈیا
’کنورسیشن‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں آسٹریلیا کی چارلز سٹرٹ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اوزالب نے لکھا ہے کہ اردوغان کی ترک میڈیا پر تقریباً ہر جگہ گرفت ہے، جس کے ماسٹر مائنڈ میڈیا اور کمیونیکیشن کے سربراہ فرح دین التون ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ترک میڈیا یا تو براہ راست اردوغان کے رشتہ داروں کی ملکیت ہے، جیسا کہ ’صباح‘ اخبار جس کا انتظام سیدات البیرک کے زیر انتظام ہے، یا التون کے ذریعہ مقرر کردہ اور نگرانی کرنے والے منتظمین کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔‘
اس کنٹرول کی ایک مثال سرکاری ٹیلی ویژن ٹی آر ٹی پر دونوں صدارتی امیدواروں کو دیا جائے والا ایئر ٹائم ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اپریل میں قلیچ دار اوغلو کو کل 32 منٹ ملے، جب کہ اردوغان کو 32 گھنٹے!
4 سوشل میڈیا پر پکی گرفت
دنیا بھر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو اپنے حق میں بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ ترکی میں بھی ایسا ہی ہے۔ فرح دین التون اردوغان کے سوشل میڈیا مشیر بھی ہیں۔ محمد اوزالب کے مطابق انہوں انتخابی فضا کو اردوغان کے حق میں ہموار کرنے کے لیے بوٹس اور ٹرولز کی فوج کا بھرپور استعمال کیا۔
5 مذہبی ووٹروں کی بھرپور حمایت
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردوغان کو خاصی عوامی حمایت حاصل ہے۔ صدارتی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل تیسرے امیدوار سنان اوغان نے، جنہوں نے ابتدائی مرحلے میں پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، اردوغان کی حمایت کا اعلان کر دیا، جس سے اردوغان کو خاصی تقویت ملی۔
ترکی کا دیہی اور کم پڑھا طبقہ قلیچ دار اوغلو کی جماعت کو سیکیولر پارٹی سمجھتا ہے۔ انہیں یاد ہے کہ اسی جماعت نے ماضی میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی اور دیگر ایسی پالیسیاں اختیار کی تھیں جو مذہب سے وابستہ عوام آج تک نہیں بھولے۔
محمد اوزالب کے مطابق ’ترکی میں قدامت پسند اور مذہبی طبقہ اردوغان کو ایک عالمی رہنما اور ایک ہیرو کے طور پر دیکھتا ہے جنہوں نے ترکی کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر بدنیت قوتوں کے خلاف جدوجہد کی۔‘
اردوغان کے مزید پانچ سال: ترکی میں آگے کیا ہو گا؟
اس جیت کے بعد اردوغان پانچ سال تک ترکی کے صدر رہیں گے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے اقتدار کا کل دورانیہ چوتھائی صدی پر محیط ہو جائے گا۔
قوم پرستی کا جذبہ
ترکی میں مقیم پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار فرقان حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو ترکی کے مستقبل کے بارے میں بتایا کہ ’صدر اردوغان کی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کوئی اہم تبدیل کی ہرگز توقع نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں مغربی ممالک کے رہنماؤں اور ان کی جانب سے دیے جانے والے بیانات اور خاص طور پر مغربی میڈیا کی جانب سے ان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنائے رکھا جس کی وجہ سے ان میں پہلی بار قومیت کا جذبہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرقان حمید کہتے ہیں کہ اس سے پہلے اردوغان نے کبھی بھی اپنی انتخابی مہم میں قومیت پسندی کے جذبے کا استعمال نہیں کیا تھا، ’اب وہ قومیت پسندی کے جذبے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اپنی کامیابی کی بڑی وجہ بھی یہی سمجھ رہے ہیں، اور ملک کے اندر بھی وہ پہلے سے زیادہ قومیت پسند رہنما کے طور پر جانے پہچاننے لگے ہیں۔
امریکہ میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر گونل تول نے اردوغان کے بارے میں کتاب لکھی ہے، ’اردوغانز وار۔‘اس میں وہ لکھتی ہیں کہ جیت کے بعد اردوغان معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے، اور اس سلسلے میں وہ زیادہ قدامت پسندانہ معاشی پالیسیاں متعارف کروانے کی کوشش کریں گے۔ اس کی ایک جھلک معاشی ماہر محمد شمشیک کو انتخابی مہم کا حصہ بنانے سے نظر آتی ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اب جب کہ اردوغان کا اقتدار اگلے پانچ برسوں کے لیے طے ہو گیا ہے، وہ انسانی حقوق اور اداروں پر کریک ڈاؤن میں تیزی لا سکتے ہیں، ’اس حد تک کہ ترکی جمہوریہ ہی نہ رہے۔‘
اس کے علاوہ لامحالہ اردوغان کی جیت کے اثرات بین الاقوامی منظر نامے پر بھی مرتب ہوں گے۔
ترکی نیٹو کا رکن ہے مگر اس کے نیٹو کے سب سے بڑے حریف روس کے ساتھ بےحد دوستانہ تعلقات ہیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد دوسرے نیٹو ملکوں نے روس پر پابندیاں لگائی ہیں مگر ترکی کی روس سے تجارت جاری ہے۔
اس وقت ترکی سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا ہے، اور ترکی کے ووٹ کے بغیر سویڈن نیٹو میں شامل نہیں ہو سکتا۔ توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں اردوغان نیٹو سے بھاری مراعات حاصل کریں گے۔
ترکی میں موجود 36 لاکھ کے قریب شامی پناہ گزینوں کا مستقبل بھی اردوغان کے ہاتھوں میں ہے۔
ترکی میں بہت سے قوم پرست طبقے سمجھتے ہیں کہ ترکی کے مسائل کی جڑ یہی پناہ گزین ہیں۔ شاید انہی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے قلیچ دار اوغلو نے کہا تھا کہ وہ ان کو ملک بدر کر دیں گے، البتہ اردوغان اس کے حق میں نہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ شمالی شام میں لاکھ مکان تعمیر کریں گے تاکہ یہ تارکینِ وطن اپنی مرضی سے اپنے ملک لوٹ سکیں۔
ترکی کے قوانین کے مطابق یہ اردوغان کی آخری باری ہے، بشرطیکہ انہوں نے قانون نہیں بدلا۔ اس دوران وہ چاہیں گے کہ مستقبل کے لیے اپنا مضبوط تاثر اور تادیر قائم رہنے والا سیاسی ترکہ چھوڑ کر جائیں۔