’دم مست قلندر مست مست‘ کے خالق کی دکھی زندگی

یہ گیت تو آپ نے یقیناً نصرت فتح علی خان کی آواز میں سنا ہو گا مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسے لکھا کس نے تھا؟

بری نظامی کے نام سے کم لوگ واقف ہوں گے مگر ان کے گیت ہر کسی نے سن رکھے ہوں گے (تصویر بشکریہ وینٹیج پاکستان فیس بک پیج)

بظاہر یہ قصہ ایک ایسے شاعر کا ہے جس نے شاندار نغمے لکھے اور یہ قصہ اس کی برسی کے موقعے پر بیان کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جس نے اپنے گیتوں میں بھی جگر کا خون شامل کیا اور تاریخ میں اپنا منفرد مقام بنایا۔

تاریخ کو اپنا گرویدہ بنانے والے اس نغمہ نگار شاعر کو دنیا بری نظامی کے نام سے یاد کرتی ہے، مگر اس شخص کو نہیں جانتی جس کا نام بری نظامی سے پہلے شیخ صغیر چشتی تھا۔

آج تاریخ کے اوراق کے لیے لکھی داستان میں ہم بری نظامی کے فن اور شخصیت کے ان گوشوں کو تحریر کریں گے جن سے شائقین موسیقی اور بری نظامی کے پرستار کم واقف ہوں گے۔

شیخ صغیر کے دادا شیخ ماہی کا تعلق کبیروالہ کے چک نمبر پانچ سے تھا، جہاں انگریز سرکار نے ان کو زرعی زمین الاٹ کی تھی۔

کبیر والہ میں آج بھی اس بستی کو ’ماہی دی کسی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بری نظامی کے والد غلام محمد کا جنم بھی اسی بستی میں ہوا۔

مضمون نگار اظہار احمد گلزار کے مطابق ’وہاں ان کا خاندان کاشت کاری اور کپاس کے کاروبار سے وابستہ تھے۔

’شیخ غلام محمد نے اپنے والد سے علیحدہ ہو کر معروف اخبار ’ڈیلی بزنس رپورٹ‘ فیصل آباد کے مالک چوہدری شاہ محمد عزیز سے کاروبار میں سانجھ کر لی۔

خاندان ٹوبہ ٹھیک سنگھ آیا تو محلہ اسلام نگر میں مقیم ہو گیا، جہاں 26 دسمبر، 1946 کی رات شیخ غلام محمد کے گھر بری نظامی نے آنکھ کھولی۔ بچے کا نام ننھیال کی خواہش پر شیخ صغیر چشتی رکھا گیا۔

دو سال عمر ہوئی تو خاندان کاروبار کے سلسلے میں گوجرہ منتقل ہو گیا، پانچ سال کی عمر میں بری نظامی کو گوجرہ کے ایم بی پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا۔

پرائمری سکول کے بعد انہیں مڈل اور ہائی تعلیم کے لیے گوجرہ کے ایم بی ہائی سکول بھیجا گیا، جہاں سے 1963 میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

اسی دوران خاندان کے معاشی حالات قدرے خراب ہوئے تو دادا نے انہیں کاروبار میں لگایا مگر انہیں معلوم ہو گیا کہ بری نظامی کام میں دل چسپی نہیں لے رہا۔

خاندان والوں نے کاروبار کو وسعت دی اور چیچی وطنی میں کارخانہ لگا دیا۔

کچھ عرصہ تو بری نظامی کا جی کاروبار میں لگا رہا اور خاندان والے بھی خوش ہو گئے کہ چلیں نوجوان نے کاروبار سنبھال لیا مگر جلد ہی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

انہیں معلوم ہوا کہ بری نظامی کا من کام میں نہیں لگ رہا اور وہ کام پہ توجہ نہیں دے رہا۔

گھر والوں نے محسوس کیا کہ وہ کسی ایسی دنیا کا مسافر ہو چکا ہے جہاں جانے والوں کے ماتھے پر خاموشی، اداسی اور مایوسی لکھی ہوئی واضح پڑھی جاتی ہے۔

کھوج لگائی گئی تو پتہ چلا بری نظامی کسی حسینہ کی زلف کے اسیر ہو چکے ہیں اور وہ حسینہ بھی کسی پولیس آفیسر کی بیٹی ہے۔

سیانے کہتے ہیں عشق اور مشک چھپتا نہیں، سو بری نظامی کا یہ عشق بھی چھپ نہ سکا اور بری نظامی کے گھر والوں کی طرح اس حسینہ کے والد کو بھی علم ہو گیا۔

اس خاتون کے والد نے اپنی بیٹی کو گاؤں بھیج دیا اور بری نظامی کو سبق سکھانے کے درپے ہو گیا۔

بری نظامی کے والدین نے چیچہ وطنی سے کاروبار گھاٹے کی نظر کیا اور بچا کھچا سامان اور بری نظامی کو لے کر گوجرہ آ گئے۔

خاندان مزید معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا اور انہوں نے مزید کاروبار کے لیے بری نظامی سے معذرت کر لی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاندان نے ایک بار پھر معاشی خوش حالی کے لیے ہجرت کی اور فیصل آباد منتقل ہو گئے۔

یہاں پر بری نظامی کو ایک نئی زندگی کی ابتدا کرنی تھی، فیصل آباد کا نیا سماج تھا، نئے چہرے تھے، نئے تعلقات تھے ایسے میں کسی کی مدد بھی کہاں میسر آ سکتی تھی۔

حالت ہجر اور غم روزگار دونوں نے بری نظامی کو نڈھال کر رکھا تھا۔ ایک سائیکل خریدی اور اس پر کپڑے کی گانٹھ باندھی اور دیہاتی علاقوں میں کپڑے کی پھیری لگانا شروع کر دی۔

دن بھر کی تھکان بھی شام کو بری نظامی کے لیے محبوب کی یادوں سے چھٹکارے کا سبب نہ بنتی۔

ایک دن کسی گاؤں میں دروازے پر کپڑا فروخت کرنے کی صدا لگائی تو دروازے کی اوٹ سے اسی پری چہرہ نے اپنے محبوب کو پہچان لیا اور دروازے کے پٹ کھول کر دیوانہ وار اپنے محبوب کی زیارت کرنے لگا۔

ہجر کی آگ نے دونوں کو جھلسا رکھا تھا، آمنا سامنا ہوا مگر ایک بار پھر زمانے کی دیوار درمیان میں حائل رہی۔ بری نظامی کا اب زیادہ وقت اسی گاؤں میں گزرنے لگا۔

دوبارہ کی ادھوری ملاقاتوں نے گھر والوں کو متوجہ کر دیا اور یوں اس حسینہ نے والدین کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے خود کشی کر لی۔

یہ حادثہ اس حساس انسان کے طوفان برپا کر گیا اور دن بہ دن بری نظامی کی صحت خراب ہونے لگی۔

یوں ایک دن بری نظامی نے بھی اپنے محبوب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی کو ختم کرنے کے لیے عملاً قدم اٹھا لیا۔

لیکن قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ وہ اس حادثے میں ایک ایسا کام کرنا چاہتی تھی جس سے بری نظامی ایک نیا روپ اختیار کرنے جا رہے تھے۔

کچھ دن ہسپتال رہے طبعیت بہتر ہوئی تو اپنا نام بدل کر محبوبہ کے نام کے حروف پر ’شیخ صغیر بری‘ رکھ لیا۔

ایک دن طبیعت کی کیفیت ایسی تھی کہ کچھ اشعار سرزد ہو گئے۔ دوستوں نے سن کر پسند کیے اور کہا کہ آپ شاعری کر سکتے ہیں، لہٰذا شعر لکھنا جاری رکھیں۔

شیخ صغیر بری روحانی سلسلے پر یقین رکھتے تھے۔ اپنے مرشد سید امانت علی شاہ نظامی آف مغل پورہ سے عقیدت ہر نظامی بھی اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔ یوں شیخ صغیر بری سے وہ بری نظامی ہو گئے۔

یہ غالباً 1965 کی بات ہے فیصل آباد میں ایک محفل مشاعرہ ہوا جس کی صدارت نامور پنجابی شاعر پیر فضل گجراتی کر رہے تھے۔ 18 سالہ نوجوان بری نظامی بھی اس مشاعرے میں اپنی پہلی پنجابی غزل لے کر حاضر ہوا۔

غزل پڑھتے ہی مشاعرے پر سکتہ طاری ہو گیا کہ ایسی جان دار اور شان دار غزل اس نوجوان نے لکھی کہ ساری محفل انگشت بدنداں رہ گئی۔ صاحب صدر نے بری نظامی کو اس قدر سراہا کہ وہ پیر فضل گجراتی کے شاگرد ہو گئے۔

حالت ہجر، سماجی حالات اور خاندانی مزدور پس منظر نے بری نظامی کو ایک انقلابی اور مزدور شاعر بنا دیا۔

اوپر سے ملکی سیاسی منظرنامے پر ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیر شخصیت ابھر رہی تھی جس کے سیاسی نظریے ’روٹی کپڑا اور مکان‘ نے عام آدمی کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا.

سو بری نظامی جیسا انقلابی شاعر بھی بھٹو کے سحر میں مبتلا ہو کر پیپلز پارٹی فیصل آباد کا ہو گیا اور ضلعی کمیٹی کے متحرک رکن کے طور پراپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کر دیا۔

بری نظامی جلسوں جلوسوں میں جاتے اور اپنی انقلابی شاعری کی بدولت ان کے ماحول کر گرماتے۔

پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پیپلز پارٹی کے جلسے اور بری نظامی کی شاعری لازم و ملزوم بن گئے۔

وہ جس جلسے میں جاتے لوگ جوق در جوق ان کی نظمیں سننے کے لیے جلسوں میں آتے، بری نظامی کی شہرت، عوامی پذیرائی پیپلز پارٹی کی قیادت کو چبھنے لگی اور پارٹی میں موجود منظور نظر مافیا نے بری نظامی کے خلاف ماحول بنانا شروع کر دیا۔

بےلوث اور درد دل رکھنے والے اس شاعر نے بالآخر ناراضی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے کنارہ کشی کر لی، اور اپنا انقلابی شاعری کا سفر جاری رکھا۔

انہوں نے پیپلز پارٹی کے اندرونی حالات دیکھ کر بھٹو صاحب کے خلاف نظم لکھی اور اسے عوامی مقامات پر پڑھنا شروع کر دیا۔

قیادت کے کان بھرنے والے مافیا نے قیادت کو بھڑکایا تو بری نظامی پر سات مقدمات درج کیے گئے اور انہیں جیل کی قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

ضیا الحق کا دور آیا تو انہوں نے ضیائی آمریت نما جمہوریت کو بھی مسترد کر دیا اور آمریت کے خلاف اپنے قلم اور شاعری کو لے کر میدان میں برسر پیکار رہے۔ ضیا الحق کے دور میں بھی ان پر 11 مقدمات درج ہوئے۔

ان کے اندر کے سچے لکھاری نے اپنی جرات رندانہ کو قائم رکھا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں حق کی آواز بلند کی۔ اس دور میں بھی ان پر چھ مقدمات درج کروائے گئے۔

دو درجن سے زیادہ مقدمات بھی ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ پیدا کر سکے۔ ان کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات اور مقامی سطح پر مخالف سیاسی قوتوں سے نبرد آزما رہنے والے اس مرد آہن نے ٹریڈ یونین میں شمولیت اختیار کی اور فعال کردار ادا کیا۔

بعد ازاں انہوں نے فیصل آباد میں چھابڑی یونین قائم کی اور اس کے صدر کے طور پر مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔

1990 میں چوہدری شیر علی اور صوبائی وزیر قیوم اعوان کی دعوت پر ن لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

بری نظامی نے صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھا اور ہفت روزہ بری نظامی کا ڈیکلیریشن منظور کرایا مگر مالی آسودگی نہ ہونے کے سبب اخبار شائع نہ کر سکے۔

بری نظامی کی زندگی ایک اور موڑ سے گزرنا چاہتی تھی، سو ایک دن آمین پورہ بازار میں رحمت گرامو فون ہاؤس کے مالک چوہدری رحمت سے ملاقات ہو گئی۔

چوہدری رحمت امرتسر سے ہجرت کرکے فیصل آباد میں جا آباد ہوئے تھے اور ان دنوں آڈیو کیسٹوں کا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔

رحمت گرامو فون ہاؤس نے پنجاب بھر کے دو میوزک اور گلوکاروں کو ریکارڈ کرنے کا کام شروع کیا ہوا تھا۔ نئے گلوکاروں کے کیسٹ ریکارڈ کیے جاتے اور ان کی پروڈکشن کی جاتی تھی۔

انہوں نے بری نظامی کو قائل کر لیا کہ وہ اپنے اور بچوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اس انقلاب اور انقلابی شاعری سے باہر نکلیں اور مزاحمت کو چھوڑ کر گیت نگاری اور قوالی لکھا کریں۔ انہوں نے کہا، ’آپ بس لکھا کریں، ہم گلوکاروں سے گوا دیا کریں گے۔‘

انہی دنوں امرتسر کے معروف موسیقار گھرانے کے چشم و چراغ صابرعلی خاں بھی رحمت گرامو فون ہاؤس پر لاہور سے کبھی کبھار آیا کرتے تھے۔

سو بری نظامی کی ان سے ملاقات ہو گئی اور بری نظامی نے انہیں اپنا کلام دھنیں ترتیب دینے کے لیے دے دیا۔

صابرعلی خان نے ناچیز کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ایک دن میں لاہور سے فیصل آباد گیا تو بری نظامی اور میرے اعزاز میں مقامی ہوٹل میں ایک نشست رکھی ہوئی تھی۔ میں نے وہاں بری نظامی کا کچھ کلام پیش کیا۔

تقریب ختم ہوئی تو چوہدری رحمت میرے پاس ایک سرائیکی نوجوان کے ساتھ آئے اور کہا کہ ہم اس نوجوان کے کیسٹ ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں، آپ ان کے لیے نیا کلام اور دھنیں ترتیب دیں۔

میں نے انہیں بری نظامی کے لکھے ہوئے پانچ گیت ایک ہی رات میں ریکارڈ کرا دیے۔ وہ گیت یہ تھے:

نی اونٹھاں والے ٹرجانڑ گے

عیسیٰ خیل دور تے نئیں

راتاں دیاں نیندراں گوائیاں

وے بول سانول۔

تساکوں مانڑ وطناں دا

ان پانچ گیتوں نے اس نوجوان کو اور بری نظامی کو وہ شہرت بخشی کہ دونوں کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اس کیسٹ نے اس نوجوان کو عطااللہ عیسیٰ خیلوی بنا دیا۔

اس کے بعد پھر بری نظامی نے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ پھر جو بھی لکھا وہ مقبول ہو گیا۔

’دم مست قلندر مست مست‘ نے ان کی شہرت کو مزید چار چاند لگا دیے۔ درجنوں ایسے گلوکار میدان میں اترے جنہوں نے بری نظامی کا کلام گایا اور شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئے۔

ان کے لکھے ہوئے گیت گانے والے گلوکار تو کروڑوں کما گئے مگر اس شاعر بے مثال کے حالات نہ بدل سکے۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہے اور مزدوری کرتے رہے۔

آخری عمر میں بری نظامی کو آنکھوں کا انفیکشن ہوا۔ بروقت علاج نہ کر سکے۔ مرض بڑھتے گئے۔ کمر کی تکلیف ہوئی اور ساتھ ٹی بی نے کسر پوری کر دی۔

متعدد بیماریوں نے انہیں مفلوج کر دیا اور ان کا نچلا دھڑ کام کرنا چھوڑ گیا۔ باوجود بیماری کے بھی انہوں نے تخلیقات جاری رکھیں۔

نغمہ نگاری اور غم روزگار نے اس قدر الجھائے رکھا کہ وہ اپنی زندگی میں اپنا کوئی بھی مجموعہ کلام شائع نہ کر سکے۔

ان کی وفات کے بعد فیصل آباد کے شاعر و صحافی دوست جمیل سراج نے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا پنجابی شعری مجموعہ کلام ’قدراں‘ کے نام سے شائع کرایا لیکن وہ بھی اب نایاب ہے۔

بری نظامی کا زیادہ تر کلام عطااللہ عیسیٰ خیلوی اور نصرت فتح علی خان نے گایا ہے۔

نصرت کے لیے گئے نغمے:

دم مست قلندر مست مست

گل کر کوئی پین پلاون دی

کملی والے محمد توں صدقے

گنڑ گنڑ تارے لنگھدیاں راتاں

میخانے ان بھول گیاواں

وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں

دل مرجانڑے نوں کی ہویا سجنا

فیصل آباد میں کے بڈہ قبرستان میں آسودہ خاک اس درویش شاعر کے اعزاز میں اقبال سٹیڈیم کے چوک کوبری نظامی سے منسوب کرتے ہوئے بری نظامی چوک پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے نام پر بری نظامی سوسائٹی بھی قائم کی گئی ہے۔

اس درویش شخص کی خوبی تھی کہ پنجابی کے شاعر ہوتے ہوئے بھی عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے کہا کرتے تھے کہ میرے کلام کو جس قدر سرائیکی میں تبدیل کر کے گا سکتے ہیں میرے لیے خوشی کی بات ہو گی۔

نصرت فتح علی اور عطا اللہ کی گائیکی ان کی شاعری کی مرہون منت رہی اور شہرت کی وجہ بھی بری نظامی کی شاعری تھی۔

بری نظامی کی زندگی کا سورج تمام نشیب فراز میں ثابت قدم رہتے ہوئے 14 مئی کو دور افق میں ڈوب گیا۔

بری نظامی کہنڑ سیانڑے عشق دا روگ اویڑا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن