73 سالہ عبدالعزیز گُرجی، جو لکڑی تراشی کی قدیم فن میں چھ دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں، بیکار اور ناکارہ لکڑی کے ٹکڑوں کو اپنی مہارت سے خوبصورت اور لازوال فن پاروں میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ فن اب خطے میں چند ہی لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے۔
سری نگر کے پرانے شہر کے علاقے فتح کدل میں مدھم روشنی والی ورکشاپ میں عبدالعزیز ایک عام اور بےرونق لکڑی کے تختے کو نہایت نفاست کے ساتھ شاہکار میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔
وہ گذشتہ 60 برس سے بےکار لکڑی کے ٹکڑوں کو نفیس اور دیدہ زیب فن پاروں میں تبدیل کر رہے ہیں، ایک قدیم ہنر جس نے انہیں عزت اور شہرت بخشی۔
دیگر فنکاروں کے برعکس عبدالعزیز اپنے کام کے لیے کوئی خاکہ یا ڈیزائن تیار نہیں کرتے، بلکہ صرف اپنی تخیلاتی قوت پر انحصار کرتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے وہ کہتے ہیں کہ ’جس طرح ایک شاعر اپنے تخیل سے اشعار تخلیق کرتا ہے، میں اسی طرح اپنی تخیل کی مدد سے لکڑی تراشتا ہوں، یہ چلتی پھرتی شاعری ہے۔‘
عبدالعزیز کے ماہر ہاتھوں سے تراشے گئے ہر فن پارے میں ان کے ہنر کا اعلیٰ مظاہرہ نظر آتا ہے۔ گُرجی بےکار لکڑی سے مورتیاں، مجسمے اور دیگر سجاوٹی اشیا بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’میں کسی چیز کو ایک بار دیکھ لوں تو میں اسے اپنی مہارت اور اوزاروں کی مدد سے تراش سکتا ہوں۔‘
قدیم ہنر کا زوال
جدید دور میں اس قدیم کشمیری فن کے مستقبل پر خدشات کے بادل منڈلا رہے ہیں، کیونکہ اب بہت کم لوگ اسے اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ہاتھ سے بنائی گئی چیزوں کے برعکس مشینوں سے تیار کردہ مصنوعات نے مارکیٹ پر قبضہ جما لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نئی نسل اس فن میں دلچسپی نہیں رکھتی، اسے سیکھنے میں پوری زندگی لگ جاتی ہے اور آج کے نوجوان اتنا وقت دینا نہیں چاہتے۔‘
حکومت کی جانب سے ملنے والے سرکاری اعزازات، جن میں 2017 اور 2018 میں محکمہ ہینڈی کرافٹس اینڈ ہینڈی لوم، کشمیر کی جانب سے دیے گئے ریاستی ایوارڈز شامل ہیں کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی معاونت ناکافی ہے۔
انہوں نے شکایت کے انداز میں کہا کہ ’مجھے حکومت کی جانب سے ماہانہ صرف 8000 روپے مل رہے ہیں۔‘
بدلتے خریدار اور مارکیٹ کے تقاضے
روایتی کشمیری دستکاری کی مانگ میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ سستی مشینی مصنوعات کی بھرمار ہے۔
عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’اب صرف چند ہی کاریگر رہ گئے ہیں، مارکیٹ میں روایتی ہنر کی طلب کم ہو گئی ہے اور لوگ سستی مشینی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
خریداروں کے بدلتے رجحان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’غیرملکی سیاح میرے بڑے سائز کے فن پاروں کو پسند کرتے ہیں، جب کہ انڈٰن سیاح زیادہ تر مورتیاں خریدتے ہیں، لیکن کشمیری کم دلچسپی لیتے ہیں، کیونکہ مذہبی عقائد کی وجہ سے وہ اسے گناہ سمجھتے ہیں۔‘
فن سے محبت، نہ کہ روزگار
عبدالعزیز اب اس ہنر پر معاشی طور پر انحصار نہیں کرتے، لیکن اپنی مصروفیت کے لیے یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اب میں صرف بوریت سے بچنے کے لیے یہ کام کرتا ہوں۔‘