مختلف کالجوں اور یونیورسٹی ہاسٹلز کے در و دیوار پہ ایک طرف ’خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘ جیسے مصرعے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا ’تیرے جانے کے بعد بھی میں نے/ تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے‘ جیسے شعروں سے بھرا پڑا ہے۔
یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ سمیت کوئی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں جون ایلیا کی شہرت و مقبولیت کا ڈنکا نہ بج رہا ہو۔ سوشل میڈیا کے دور میں ایسی فالونگ شاید ہی اردو کے کسی دوسرے شاعر کو میسر ہوئی ہو۔
مگر یہ شہرت و مقبولیت جون ایلیا کی شخصیت کا کرشمہ ہے یا ان کی شاعری کا؟ یا دونوں کا سنگھم یہ مینار تعمیر کرتا ہے؟ جون ایلیا کی سالگرہ کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
سوشل میڈیا سے پہلے جون کس حد تک مشہور تھے؟
اختر عثمان معاصر اردو شاعری کا معتبر حوالہ اور معروف نقاد ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جون ایلیا سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے کراچی کے علمی و ادبی حلقوں میں تو مشہور تھے مگر راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں ان کا ذکر کم کم سنائی دیتا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں ’ان کی پہلی کتاب ’شاید‘ کے سبب 1990 کی دہائی میں ان کا ذکر زیادہ ہوا۔ اپنی تازگی اور چونکا دینے والے لب و لہجے کے سبب ادبی حلقوں میں ان کی پذیرائی ہوئی۔‘
معروف محقق عقیل عباس جعفری اس سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جون فنون، نیرنگ خیال، ادب لطیف اور ماہ نو جیسے رسالوں میں چھپ رہے تھے اس لیے اپنی کتاب سے پہلے ہی وہ ایک اچھے شاعر کا تاثر پورے پاکستان میں بنا چکے تھے۔ وہ لاہور اور راولپنڈی کے ادبی قارئین میں ’شاید‘ سے پہلے بھی مشہور ہو چکے تھے۔‘
عہد ساز غزل گو ظفر اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جب ہم نے ’شاید‘ اور 90 کی دہائی سے قبل اور بعد میں جون ایلیا کی مقبولیت کا سوال ان کے سامنے رکھا تو ان کا جواب ہے ہنومان قطعاً نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’پتہ نہیں۔ میں نے تو جون ایلیا کی کوئی کتاب نہیں پڑھی، نہ تب نہ آج، نہ مجھے یہ پتہ کہ کب آئی تھی، نہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس سے پہلے وہ کتنے مشہور تھے، نہ مجھے یہ خبر کہ وہ آج کتنے اور کیوں مشہور ہیں۔‘
جب ہم نے ان سے جون ایلیا کی شاعری پر رائے مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں جیسی شاعری ہو رہی تھی اس حساب سے جون اچھا شاعر تھا۔‘
ابھرتے ہوئے محقق اور شاعر ڈاکٹر عدنان بشیر کا کہنا ہے کہ ’جون کا کلام ادبی رسالوں میں چھپتا رہا لیکن اصل تاثر تو کتاب بناتی ہے۔ ان کی کتاب ’شاید‘ پڑھ کر لوگوں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا کہ یہ میر و غالب کے دور کی بھٹکتی ہوئی روح آج کے زمانے میں کہاں سے آ گئی۔‘
وہ ’شاید‘ سے کچھ شعر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’کیسے ممکن تھا ایسی شاعری لوگوں کو ہلا کر نہ رکھ دے؟
ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
۔۔۔۔۔۔
یہ نہ سوچا تھا زیر سایہ ناف
کہ بچھڑ جائے گی یہ خوشبو بھی
۔۔۔۔۔
حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہچانا ہے
ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے
۔۔۔۔۔
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
سوشل میڈیا پر جون کی مقبولیت اور اس کے اسباب
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ’اگرچہ جون پہلے ہی مشاعروں کے بہت مقبول شاعر تھے لیکن ان کی شہرت میں سوشل میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے اور بعد کی مقبولیت میں بہت فرق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جون کی شخصیت میں سب عناصر موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر کسی کی فالونگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
اگر ہم جون کی شخصیت میں موجود ایسے عناصر ایک نظر دیکھنا چاہیں تو ان کے دوست قمر رضی کا مرقع بہت خوبصورت ہے۔ وہ جون کی شخصیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں، ’ایک زود رنج مگر بیحد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہگیر، اک مرعوب کن شریک بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر جون کی شہرت و مقبولیت کے حوالے سے عدنان بشیر کہتے ہیں ’فی زمانہ شاعری ہو یا فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبے کامیاب فنکار وہی ہے جو اپنی تخلیق کو پروڈکٹ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور جون ایلیا اس میں کامیاب رہے۔‘
وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’جون ایلیا نے اپنے حلیے، شاعری اور مشاعروں میں اپنی پیش کش کا جو انداز اختیار کیا اس میں ہمدردی حاصل کرنے کا پہلو، ایک لطیف طنز یا ظرافت کی آمیزش، استفہام اور اس کا فوری جواب، اپنی بربادی کے ماتم کو جشن بنا دینے کا بے ساختہ انداز اور ایسی بہت سی چیزیں جو انہیں پورا پیکج بناتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کی شاعری یا شخصیت نہیں بلکہ دونوں کا سنگھم انہیں مقبول عام شاعر بناتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’ان کی ردیفوں میں استفہامیہ انداز قاری یا سامع کو فوری متوجہ کرتا ہے اور یہ سوشل میڈیا کا بہت اہم فارمولا ہے۔ پھر اوپر سے صاف زبان جو سیدھا دل میں گھر کر لیتی ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ جون نے شہرت و مقبولیت کے لیے یہ روپ اوڑھ لیا ہو۔ بلکہ یہ ان کا اسلوب زیست تھا جسے سوشل میڈیا نے خود بڑھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس لحاظ سے جون ایک خوش نصیب شاعر تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آج سوشل میڈیا پر مقبولیت کی دوڑ میں جون ایلیا اردو کے دیگر تمام شاعروں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔‘
ایک خوش نصیب شاعر جس کے کتنے ہی ایسے شعر نوجوانوں کی صبح و شام کا حصہ ہیں۔
شرم، وحشت، جھجھک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں
۔۔۔۔۔۔
کتنی دل کش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت باہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
۔۔۔۔۔۔
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز میں گنوانے کا