عمران ریاض چار سے پانچ ماہ تک پروگرام یا وی لاگ نہیں کر سکیں گے: وکیل

عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ان کی حالت سے یہی لگتا ہے کہ وہ چار سے پانچ ماہ تک ٹی وی پروگرام یا وی لاگ نہیں کر سکیں گے۔ جب وہ مکمل صحت یاب ہوں گے تو پھر وہ خود یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کو پیر کو سیالکوٹ پولیس نے تقریباً چار ماہ سے زائد عرصے کے بعد گھر پہنچا دیا، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ان کی بازیابی کا مقدمہ بھی منگل کو نمٹا دیا گیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نے پولیس کی جانب سے محفوظ بازیابی کے بیان پر ریمارکس دیے کہ ’اللہ کا شکر ہے، عمران ریاض خیر خیریت سے واپس گھر پہنچ گئے۔‘

تاہم یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ انہیں کس نے اغوا کیا؟ اس عرصے میں وہ کہاں تھے اور کیسے بازیاب ہوئے؟

ان سوالوں کے جواب عدالت میں بھی سامنے نہیں آئے اور عمران ریاض خود بھی کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تاہم ان کے وکیل میاں علی اشفاق کے مطابق وہ اس بارے میں اپنے موکل سے معلومات حاصل کر رہے ہیں اور کافی ایسے حقائق معلوم ہوئے ہیں جن کو منظر عام پر لانا لازمی ہے، لہذا کچھ دن بعد مکمل تفصیلات حاصل کر کے وہ سارا معاملہ سامنے لائیں گے۔

عمران ریاض سے دو بار ملاقات کرنے والے ان کے ہم خیال صحافی شاکر حسین نے بتایا کہ ’چند قریبی صحافی دوستوں سے گفتگو میں عمران ریاض نے بتایا کہ ’سیالکوٹ سے اغوا کیے جانے کے بعد 11 دن تک لاہوراور اس کے بعد ایک نامعلوم مقام پر رکھا گیا اور دو ماہ تک انہوں نے سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھی۔ جب وہ لاہور میں کسی جگہ بند تھے تو ان کے ساتھ والے کمرے میں اوریا مقبول جان کو بھی لایا گیا تھا انہوں نے آوازیں سنیں۔‘

تاہم اس بات کی صوبائی حکومت یا پولیس سے تصدیق نہیں ہوسکی کہ آواز اوریا مقبول جان کی ہی تھی یا نہیں۔

سیالکوٹ پولیس کے ترجمان کے مطابق: ’فی الحال عمران ریاض کو بازیاب کروایا گیا ہے۔ انہیں اتوار کی رات ان کی فیملی سے رابطہ کر کے سیالکوٹ پولیس خود گھر چھوڑ کر آئی۔ اس سے کچھ بھی زیادہ پولیس بتانے سے گریز کر رہی ہے۔‘

عمران ریاض کیسے بازیاب ہوئے؟

ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’عمران ریاض کی چار ماہ بعد بازیابی پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرا مرحلہ ان کی صحت بحال کرنا ہے اور اس کے بعد انہیں اغوا کرنے والوں سے متعلق معلومات جمع کر کے منظر عام پر لانا ہے، کیونکہ انہیں (عمران کو) بولنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’(عمران ریاض) ذہنی طور پر ٹھیک ہیں لیکن (ان کا) وزن 22 کلو گرام تک کم ہوا ہے، جس سے کافی کمزوری ہوئی ہے۔ ان کی صحت کی بحالی کے لیے عدالت کے ذریعے ماہر ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ بنوا کر تفصیلی طبی معائنہ کروانا چاہتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کی قوت گویائی میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔‘

علی اشفاق کے مطابق: ’پولیس نے عدالت میں صرف یہ بتایا ہے کہ عمران ریاض کو عدالت کے حکم پر بازیاب کروا کے واپس گھر پہنچا دیا گیا ہے، لیکن یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ عمران کو کس نے اغوا کیا اور اتنا عرصہ تک کہاں رکھا گیا؟ کس مقصد کے لیے اغوا کیا گیا تھا؟ تاہم کافی کچھ عمران نے مجھے بتایا ہے جو کافی حیران کن ہے اور کچھ دن آرام کے بعد ان سے مکمل معلومات تفصیل کے ساتھ جمع کر کے سامنے لاؤں گا۔ ابھی جو کچھ بھی میڈیا نے پوچھنا ہے مجھ سے پوچھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیالکوٹ پولیس کے ترجمان خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عمران ریاض کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے دبئی جاتے ہوئے ایف آئی اے نے حراست میں لیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری تین ایم پی او کے احکامات پر انہیں جیل میں نظر بند کیا گیا، لیکن پھر عدالتی احکامات پر انہیں جیل سے رہا کیا گیا تو وہ ایک گاڑی میں سوار ہوکر چلے گئے تھے۔ گاڑی میں سوار ہوکر جانے کی ویڈیو عدالت میں بھی پیش کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ان کے والد نے ان کے لاپتہ ہونے پر بازیابی کی درخواست دی تھی۔‘

خرم شہزاد کے مطابق: ’لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر سیالکوٹ پولیس نے دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ان کا سراغ لگا لیا۔ پولیس کارروائی جاری رہی تاکہ انہیں محفوظ بازیاب کروایا جائے اور بالآخر اتوار کی رات انہیں بازیاب کروا کے لاہور میں ان کے گھر چھوڑ دیا گیا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کس شہر یا جگہ سے پولیس نے عمران ریاض کو بازیاب کروایا؟ اغوا کار کون تھے؟ اور آیا اس سلسلے میں کوئی گرفتاری بھی ہوئی؟

ترجمان نے جواب دیا: ’اس بارے میں معلومات فراہم کرنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ تفتیش ابھی جاری ہے۔ جیسے ہی کارروائی مکمل ہوگی تو تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی، فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘

عمران ریاض بازیابی کے بعد ویسے تو خبروں یا تفصیلات جاننے کے لیے صحافیوں سے ملاقات یا فون پر رابطہ  نہیں کر رہے اور ان کی رہائش گاہ پر پولیس کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوریج کی بھی اجازت نہیں تاہم ان کے قریبی اور ہم خیال چند صحافیوں کی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔

ان سے ملاقات کرنے والے صحافی شاکر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عمران ریاض سے دوبار ملاقات ہوئی ہے، انہیں دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہی وہ عمران ہے جو جوشیلے اور خوش مزاج تھے کیونکہ اب وہ زیادہ بول نہیں پا رہے، اٹک اٹک کر بات کرتے ہیں۔ کافی کمزور ہوچکے ہیں۔

’عمران نے ہمیں بتایا کہ انہیں سیالکوٹ سے لاہور لایا گیا اور نامعلوم مقام پر 11 دن رکھا۔ اس دوران تشدد بھی کیا گیا۔ انہی دنوں اینکر اوریا مقبول جان کو بھی وہاں لایا گیا، ساتھ والے کمرے سے ان کی آوازیں سن کر پہچانا کہ اوریا صاحب بھی پکڑے گئے۔‘

شاکر کے بقول: ’عمران نے گپ شپ کے دوران انہیں بتایا کہ دو ماہ تک انہیں کمرے میں بند رکھا گیا، جہاں کوئی بات کرنے والا بھی نہیں تھا اور انہوں نے سورج کی روشنی تک نہیں دیکھی۔ انہیں جب واپس لایا جارہا تھا تب بھی ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی، انہیں نہیں معلوم کہ کیسے اور کہاں سے انہیں واپس لایا گیا۔ ہم نے ان سے سوالات نہیں کیے کیونکہ وہ مشکل سے بات کر رہے تھے۔ ان کی باتیں سنتے ہوئے جب میری آنکھوں میں آنسو آئے تو انہوں نے گلے لگا کر کہا کہ برا وقت تھا، جو گزر گیا۔ اب پریشان نہ ہو، میں تمھارے درمیان ہوں۔‘

کیا عمران دوبارہ پروگرام یا وی لاگ کر پائیں گے؟

میاں علی اشفاق نے اس بارے میں کہا کہ ’ابھی ان کی حالت ایسی ہے کہ صحیح طرح بات کرنا بھی دشوار ہے۔ جب تک ان کا مکمل طبی معائنہ نہیں ہوتا اور یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ان کی صحت مکمل ٹھیک ہے، ذہنی اور قوت گویا کا معاملہ کب تک ٹھیک ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ ان کی حالت سے یہی لگتا ہے کہ وہ چار سے پانچ ماہ تک ٹی وی پروگرام یا وی لاگ نہیں کر سکیں گے۔ جب وہ مکمل صحت یاب ہوں گے تو پھر وہ خود یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘

عمران ریاض کی ابھی تک تصویر بنانا بھی مشکل ہے۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کوئی پوسٹ نہیں ہوئی حتیٰ کہ ان کی واپسی سے متعلق ان کے ذاتی فیس بک یا ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے بھی کوئی معلومات شیئر نہیں ہوئیں۔

شاکر کے بقول: ’ان کی بازیابی کا سنتے ہی کئی یوٹیوبرز اور چینلز کے نمائندے ان کی رہائش گاہ پہنچے لیکن انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، نہ ہی ان کی کوئی ویڈیو بنانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ملاقات کرنے والوں کے موبائل بھی باہر رکھوا لیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں لگتا نہیں کہ وہ فوری طور پر پروگرام یا وی لاگ کر پائیں گے، ویسے بھی ان کی صحت ایسی نہیں کہ وہ آئندہ چند ماہ تک پہلے کی طرح بول سکیں یا ویڈیو کر سکیں۔‘

عمران ریاض یوٹیوب اور ٹی وی پروگراموں میں پاکستان تحریک انصاف کے نظریے کے حامی رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی انہیں اسلام آباد انٹر چینچ سے پولیس نے گرفتار کیا تھا، مختلف شہروں میں ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے تھے لیکن انہیں عدالتوں سے ضمانتیں مل گئیں۔ اس کے باوجود انہوں نے تحریک انصاف کی حمایت جاری رکھی۔

ان دنوں پی ٹی آئی کے حامی شیخ رشید احمد اور عثمان ڈار بھی لاپتہ ہیں اور انہیں بھی اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان