وہ افغان فوجی جنہیں برطانیہ نے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا

ایک بڑی مشترکہ تحقیقات میں چونکا دینے والے شواہد سامنے آئے ہیں کہ وہ افغان فوجی جن کو برطانیہ نے تربیت، تنخواہ دی اور وہ برطانوی افواج کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر لڑے، انہیں اب برطانیہ منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

افغانستان کے صوبہ لوگر میں واقع اپنے اڈے پر 333 کے نشان کے ساتھ افغان سپیشل فورسز کا ایک سپاہی (دی انڈپینڈنٹ)

یہ صبح نو بجے کے قریب تھا جب احمد کو ایک خشک نہر میں تشدد زدہ اور خون آلود پایا گیا۔ طالبان حملہ آوروں نے اس افغان سابق سارجنٹ کے سر پر اپنی بندوق کے بٹوں کو اتنا مارا کہ اس کی پہچان مشکل سے ممکن تھی۔ بعد میں اسے وہ مرنے کے لیے چھوڑ گئے۔ برطانوی سپیشل فورسز کے ساتھ اس افغان کی 13 سال کی ملازمت نے اسے ایک اہم ہدف بنا دیا تھا۔

اسے صرف اتنا یاد ہے کہ اسے 20 رائفلیں انہیں دینے کا حکم دیا گیا تھا جو اس کے پاس نہیں تھیں - اور پھر وحشیانہ حملہ شروع ہوگیا۔ ’ان میں سے ایک نے کہا: 'اس کے پاس ہمیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے اور اسے مار دینا چاہیے۔ انہوں نے مجھے بہت بری طرح مارا۔ میرے چار دانت اور میری ناک ٹوٹ گئی۔ مجھے کئی سرجریوں سے گزرنا پڑا۔‘

احمد، جن کا نام ان کی حفاظت کی خاطر تبدیل کر دیا گیا ہے، ان سینکڑوں افغانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایلیٹ سپیشل فورسز کے دو غیرمعروف یونٹوں میں خدمات انجام دیں جنہیں 'ٹرپلز' کہا جاتا تھا — جنہیں برطانیہ نے قائم کیا، تربیت دی اور مالی امداد فراہم کی — اور اس کے باوجود اسے حفاظت  کی خاطر برطانیہ منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ احمد سمیت زیادہ تر جن سے ہم نے بات کی ہے کو وزارت دفاع (ایم او ڈی) نے بتایا ہے کہ وہ اہل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے برطانویوں کی قربت یا شراکت داری میں کام نہیں کیا۔

انہیں اس کی بجائے طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو انہیں معلومات اور ہتھیاروں کے لیے تلاش کر رہے ہیں اور ان کی خدمات کے بدلے انہیں قتل کر کے انتقام لے سکیں۔

تحقیقاتی نیوز روم لائٹ ہاؤس رپورٹس اور سکائی نیوز کے تعاون سے دی انڈپینڈنٹ کی چھ ماہ کی طویل تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اگست 2021 سے اب تک اس طرح کے درجنوں سابق کمانڈوز کو طالبان نے مارا پیٹا، تشدد کا نشانہ بنایا یا ہلاک کر دیا۔ ہم نے ایسے 24 واقعات کی تصدیق کی ہے، جن میں سے ایک شخص وہ بھی شامل ہے جس کے سر میں گولی مار کر اسے قتل کیا گیا جب وہ گھر کے لیے سامان خرید رہا تھا اور ایک دوسرا شخص جسے اس قدر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ اگر اسے قتل کر دیا جاتا تو یہ اس پر بڑا رحم ہوتا۔

دیگر افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کام تلاش کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں طالبان سے بچنے کے لیے ہر ماہ اپنی جگہ تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ ایک سابق فوجی نے اپنی نئی زندگی کے بارے میں بتایا جہاں وہ اپنے خاندان کے لیے کھانا خریدنے کے لیے ضائع شدہ دھات کے ٹکڑے تلاش کرتا ہے۔ زیادہ تر اپنے بیوی بچوں سے الگ رہ رہے ہیں تاہم کبھی کبھار تاریکی میں ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔

دو ٹرپلز یونٹوں کے سو سے زائد افغان سابق اراکین سے بات کر کے — جنہیں باضابطہ طور پر کمانڈو فورس 333 (CF333) اور افغان ٹیریٹوریل فورس 444 (ATF444) کہا جاتا ہے — اور ان کے ساتھ خدمات انجام دینے والے متعدد سابق برطانوی فوجیوں سے بات کرنے اور اہم فوجی دستاویزات کا تجزیہ کر کے ہم یہ بھی ظاہر کر سکتے ہیں کہ ایم او ڈی کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ٹرپلز کے ارکان نے برطانیہ کے ساتھ کام نہیں کیا۔ درحقیقت، انہوں نے اتنی قربت میں خدمات انجام دیں کہ ان اراکین کو برطانیہ کی حکومت سے براہ راست تنخواہ ملتی تھی۔ ان میں سے کئی کو کابل کے سقوط سے چند روز پہلے تک برطانوی رقم ادا کی جاتی رہی تھی۔

2012 کا ایک سرٹیفکیٹ جو ٹرپلز مکینک کو دیا گیا تھا جس میں اسے ’برطانوی اور افغان افواج کا قابل قدر، قابل اعتماد اور محنتی ملازم‘ کہا گیا تھا۔ وزارت دفاع نے جون میں ان کی مدد کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ 333 کے ارکان نے شناختی کارڈ بھی فراہم کیے ہیں جن پر صرف برطانوی پرچم ہے اور واضح طور پر لکھا ہے کہ ’اس پاس کا علم بردار... برطانوی مسلح افواج کے ساتھ شراکت دار ہے۔‘

میجر جنرل چارلی ہربرٹ نے، جنہوں نے ٹرپلز کے ساتھ کام کیا اور 2017-18 کے درمیان افغانستان میں نیٹو کے ایک سینیئر مشیر تھے، کہا: ’میں کسی اور افغان سکیورٹی فورسز کے بارے میں نہیں جانتا جو 333 اور 444 سے زیادہ برطانیہ کے قریب رہے اور جنہوں نے زیادہ وفاداری یا بہادری سے ہمارے فوجی مقاصد کی حمایت کی۔ ان میں سے کسی کا بھی انخلا کے دو سال بعد بھی افغانستان میں رہنا قابل نفرت ہے۔‘

ان افغانوں کی مدد کرنے میں ایم او ڈی کی ناکامی، جن کے بارے میں دستاویزی ثبوت ہیں کہ جنہوں نے یو کے سپیشل فورسز (یو کے ایس ایف) کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر خدمات انجام دی ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ محکمے کی اپنی افغان نقل مکانی اور امدادی پالیسی (اے آر پی) کی خلاف ورزی ہے۔ اس سکیم کے تحت ان افغانوں کو جنہوں نے برٹش فورسز کے ساتھ کام کیا یہاں منتقل کرنا مقصد تھا۔ یہ ستمبر 2021 میں اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن کے اس وعدے کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہا کہ برطانیہ افغانستان میں پیچھے رہ جانے والے ٹرپلز کے ارکان کو ’محفوظ راستہ دینے‘ کو یقینی بنانے کے لیے ’ہم جو کچھ کر سکتے ہیں‘ کریں گے۔

دی انڈپینڈنٹ مشترکہ طور پر انکشاف کر سکتا ہے کہ ان میں سے بہت سے افغانوں کی مدد نہ کرنے کے معاملے کو فی الحال برطانوی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔

افغان سپیشل فورسز کے متعدد اہلکار انخلا کے بعد یا یورپ کا سفر کرکے چھوٹی کشتیوں پر چینل عبور کرنے کے بعد اب برطانیہ میں ہیں۔ کچھ ایران اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک میں ہیں لیکن اکثریت افغانستان میں ہیں۔

ایم او ڈی کی طرف سے باضابطہ طور پر مدد مسترد ہونے کے بعد احمد اب بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سال 11 جولائی کو احمد کو بھیجی گئی ای میل میں کہا گیا ہے کہ وہ اہل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ’برطانیہ کے سرکاری محکمے کے ساتھ شراکت داری یا اس کی قریبی حمایت میں افغانستان میں کام نہیں کیا۔‘

احمد اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’برطانوی ہماری فوجی کارروائیوں کی قیادت کر رہے تھے، ہمارے ساتھ انہی فوجی کیمپوں میں رہ رہے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم دوست ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ہماری یونٹ میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم نے سوچا کہ معاون عملے کی بھی مدد کی جائے گی لیکن انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا۔‘

333 میں ایک سارجنٹ کے طور پر احمد نے صوبہ لوگر میں اپنے برطانوی سپیشل فورسز کے ساتھیوں کے ساتھ کھایا پیا۔ وہ برطانویوں کے ساتھ طالبان کے ٹھکانوں پر چھاپہ مار مشترکہ مشنوں میں متعدد بار زخمی ہوئے تاہم وہ آخری وقت تک وفادار رہے۔ وہ 333 کے اس سکواڈرن کا حصہ تھے جسے اگست 2021 میں نیٹو کے انخلا میں مدد کے لیے کابل ایئرپورٹ پر تعینات کیا گیا تھا۔

یہ سابق فوجی اب روپوش ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ اگلی بار جب طالبان نے اگر اسے پکڑ لیا تو وہ زندہ بچ نہیں سکے گا۔ حملے کے بعد کلینک میں لی گئی تصاویر میں احمد کی ناک پر ایک بڑا خون آلود زخم اور سامنے کے دانت غائب ہیں۔ مار پیٹ کے اگلے دن اس نے اپنے سابق کمانڈر کو بھیجی گئی ایک ویڈیو میں، جس میں اس کا پٹا ہوا چہرہ پٹیوں سے ڈھکا ہوا ہے، وہ درد بھری آواز میں اس پر گزرنے والے واقعے کے بارے میں بتاتا ہے۔

تشدد اور موت کی لہر

سی ایف 333 کے احمد کے ساتھی ریاض احمد زئی کو جو انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر سکیورٹی فراہم کر رہے تھے اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ابتدائی طور پر ایسا لگتا تھا کہ 24 سالہ ریاض ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے اپنے ہتھیار طالبان کے حوالے کر دیے اور انہوں نے اسے ایک رسید دی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ اس کے باوجود اس نے محتاط رہنے کی کوشش کی اور شاذ و نادر ہی گھر سے نکلا۔ لیکن اپریل 2023 میں اپنے خاندان کی عید کی تقریبات کے لیے خریداری کے لیے ایک سفر کے دوران انہیں جلال آباد میں ان کے گھر کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اس کے والد نے کہا: ’دو (حملہ آور) موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ انہوں نے عام معافی اور اس وعدے کے باوجود کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، اس کے سر میں گولی مار دی۔ وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ میرا چھوٹا بیٹا اسے ہسپتال لے گیا لیکن ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی مر چکا ہے۔‘

اس کی موت کے بعد کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ریاض کا بےجان جسم ہسپتال کے خون آلود بستر پر پڑا ہے جس کے سر پر شدید زخم ہیں۔ اس کے والد نے مزید کہا: ’ریاض برطانوی افواج کے ساتھ ماضی میں ​​کام کی وجہ سے مارا گیا۔ برطانوی افواج پر بھروسے نے اس سے اس کی جان لے لی۔‘

طالبان تیزی سے سی ایف 333 کے نشانہ باز قہرمان تک پہنچ گئے۔ اس نے افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوجی آپریشن پٹنگ کے دوران برطانیہ جانے والی پرواز میں سوار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ جگہ نہیں ہے۔ 29 سالہ، جس کا نام افغانستان میں اس کے خاندان کی حفاظت کی غرض سے تبدیل کر دیا گیا ہے، کابل میں اپنی بہن کے گھر رہنے کے لیے چلا گیا تاکہ وہاں وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ اس نے آگے کرنا کیا ہے۔

تین ہفتے بعد، اسے مکان کے باہر ایک موٹر سائیکل پر سوار مسلح شخص نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

قہرمان کا بھائی شاہین نے CF333 میں بھی خدمات انجام دی تھیں، اگست 2021 میں برطانیہ کے لیے ایک پرواز پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ برطانیہ میں اپنے نئے گھر سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا: ’جب قہرمان کو مارا گیا تو میرا بھتیجا وہاں موجود تھا لیکن وہ کھچ نہیں کر سکا۔ وہ اسے ہسپتال لے گیا لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ مر چکا ہے۔ اسے 15 یا 16 گولیاں ماری گئی تھیں۔‘

ایک اور کیس میں سابق CF333 سنائپر ولید کو، جس کا نام اس کے خاندان کی حفاظت کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے، مغرب کے انخلا کے دو ماہ بعد طالبان کے ذریعے رات گئے ان کے گھر پر چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ایک رشتہ دار کے مطابق، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’چھریوں سے مارے جانے‘ سے پہلے اسے ایک چوکی پر لے جایا گیا۔

رشتہ دار نے بتایا کہ خاندان نے اگلی صبح ولید کو ڈھونڈ نکالا اور آخر کار طالبان سے گاؤں کے بزرگوں کے مذاکرات کے بعد اس کی لاش لینے پر رضامند ہوئے۔ انہوں نے کہا: ’یہ کوئی بڑی جنازہ کی تقریب نہیں تھی۔ ہم نے خفیہ طور پر محدود لوگوں کے ساتھ اس کے لیے دعا کی اور رات کو چپکے سے دفن کر دیا۔

ایک بار جب مغربی افواج وہاں سے چلی گئیں تو دو بھائیوں خیر اور محمد نے، جو کہ اسی یونٹ میں سپاہی تھے، فیصلہ کیا کہ ان کا بہترین آپشن ایران فرار ہونا ہے۔ لیکن وہ وہاں کبھی نہیں پہنچ سکے۔ جب وہ کار سے ایرانی سرحد پر جا رہے تھے تو دونوں بھائیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کی عمریں صرف 24 اور 19 سال تھیں۔

ناصر،CF333 میں ایک سابق سارجنٹ جس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس سال اگست میں طالبان کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے سابق کمانڈر نے، جو اب برطانیہ میں ہیں، کہا کہ اس نے اپنی موت سے تین دن پہلے اس سے بات کی تھی جس میں ناصر نے اسے بتایا کہ اس نے دو ہفتے طالبان کی حراست میں گزارے ہیں اور خدشہ ہے کہ اسے مار دیا جائے گا۔

کمانڈر نے کہا: ’میں نے اس سے رہائی کے بعد ایک گھنٹے تک بات کی اور اس نے مجھے بتایا: باس، طالبان مجھے مار ڈالیں گے۔‘ میں نے اسے کہا کہ میں اسے پیسے بھیج دوں گا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔‘

تصاویر میں ناصر کی لاش کو ایک تابوت میں دکھایا گیا ہے جس کا سر سفید کپڑے میں بندھا ہوا ہے جو خون آلود زخم کو ڈھانپ رہا ہے۔

مرنے سے پہلے اپنے ایک دوست کو بھیجے گئے صوتی نوٹ میں ناصر نے کہا کہ اگر طالبان اس کا پتہ لگا رہے ہوں تو وہ ان افغانوں کے ایک فیس بک گروپ میں شامل ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں جنہوں نے برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا تھا۔

ٹرپلز یونٹس کے دیگر کئی افراد موت سے توبچ گئے لیکن تشدد سے ان کی زندگی تبدیل ہوگئی ہے۔ ایک سابق سنائپر گل کو، جس نے 19 سال تک 333 میں خدمات انجام دیں، طالبان نے اس سال جولائی میں گرفتار کیا اور تین دن تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے کزن نے بتایا کہ اسے بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور ٹھنڈے پانی میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا جس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر زخمی کر دیا۔

گل کی درخواست، جن کا نام ان کی حفاظت کی خاطر تبدیل کیا گیا ہے، اس سال جون میں وزارت دفاع نے مسترد کر دی تھی۔

اس کے بھائی نے کہا: ’میری خواہش ہے کہ میرا بھائی تشدد میں مر جاتا، بجائے اس کے کہ وہ اپنی حفاظت اور ذہنی مسائل سے لڑتا۔ اسے بہت مارا پیٹا گیا، اسے بتایا گیا کہ اس نے برطانوی افواج کی مدد کی اور اب طالبان اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘

میرویس، جنہوں نے کابل کے سقوط تک 14 سال تک ATF444 میں خدمات سرانجام دیں، طالبان کے ہاتھوں پکڑے گئے جب انہوں نے 2022 میں عید کے موقع پر اپنے خاندان سے ملنے کا خطرہ مول لیا۔

اس سپاہی نے، جس کا نام اس کی حفاظت کے لیے تبدیل کیا گیا ہے، کہا: ’وہ سیدھے میرے گھر آئے۔ انہوں نے میرے خاندان، بچوں، سب کو مارا۔ انہوں نے میرا چہرہ ڈھانپ لیا اور وہ مجھے کسی انجان جگہ پر لے گئے۔ میرے خاندان کو معلوم نہیں تھا کہ میں تقریباً دو ماہ سے کہاں تھا۔‘ اس نے بھی بجلی کے جھٹکوں اور پانی کے پائپوں سے تشدد کا ذکر کیا۔ ایک دوسرے سابق 444 سپاہی نے جسے طالبان نے اسی وقت حراست میں لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا، میرویس کے بیان کی تصدیق کی۔

444 میں ایک سابق گروپ کمانڈر رحیم نے، جسے ایم او ڈی کی مدد کے لیے مسترد کر دیا گیا تھا، کہا کہ وہ 2023 میں چار ماہ تک طالبان کی حراست میں رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے خاندان کو اس کی رہائی کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کرنے پڑے۔

رحیم نے، جس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، بتایا: ’جب انہوں نے مجھے پہلی بار گرفتار کیا تو مجھے ایک کنٹینر میں ڈال دیا جس میں کھڑکی یا اے سی نہیں تھا۔ کنٹینر دھوپ میں رکھا تھا اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ روزانہ کئی بار موٹی بجلی کی تاروں کے ساتھ مجھے مارنے کے لیے آتے۔ جب وہ مارتے مارتے تھک جاتے تو مجھے بجلی کے جھٹکے دیتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ آخرکار اسے کابل کی پول چرخی جیل لے جایا گیا۔ ایک مرتبہ ’انہوں نے میرے منہ میں پانی کا پائپ ڈالا اور پھر پانی چھوڑ دیا تاکہ میں سانس نہ لے سکوں۔ وہ سرنج میں پانی ڈالتے اور پھر میری ناک میں پانی پمپ کرتے، یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ وہ مجھے یہ ماننے پر مجبور کر رہے تھے کہ میں نے برطانوی افواج کے ساتھ تعاون کیا، ان کے گھروں پر حملہ کیا اور بمباری کی۔

’وہ مجھے 444 یونٹ کے دیگر ممبران کے نام اور رابطے فراہم کرنے پر بھی مجبور کر رہے تھے۔‘

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی 20 ستمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پتا چلا کہ اعتراف جرم یا دیگر معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں طالبان قیدیوں کی جسمانی مار پیٹ، بجلی کے جھٹکوں، دم گھٹنے، تناؤ کے ذریعے شدید درد اور تکلیف کا نشانہ بنانے، پانی زبردستی جسم میں داخل کرنے، نیز آنکھوں پر پٹیاں باندھنے اور دھمکیاںدیتے تھے۔ یہ کہانیاں بہت سے دیگر افراد کے قصوں سے مماثلت رکھتے ہیں جو ہم نے ٹرپلز کے سابق اراکین سے سنا ہے۔

کس طرح برطانوی خصوصی افواج افغانوں کے شانہ بشانہ لڑیں

2002 میں برطانیہ افغانستان میں انسداد منشیات سے نمٹنے کے لیے جی ایٹ کا اہم ملک بن گیا۔ کولمبیائی باشندوں کو منشیات کے کاروبار سے نمٹنے میں مدد کرنے والے خصوصی دستوں کے تجربے پر روشنی ڈالتے ہوئے، اسی سال برطانیہ نے افغان جنگجوؤں کا ایک ایلیٹ یونٹ سی ایف 333 بنانے کا فیصلہ کیا جو برطانوی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑے گا۔

اگرچہ تقریباً 400 ارکان پر مشتمل یہ یونٹ ابتدائی طور پر انسداد منشیات فورس تھی، جسے طالبان کی منشیات کی پیداوار کے نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی کی مالی معاونت کے خاتمے میں برطانیہ کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے انسداد دہشت گردی اور بغاوت کی جدید ترین صلاحیتیں حاصل کر لیں۔ انہوں نے طالبان اور القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں کو کا سراغ لگانے اور پکڑنے میں برطانویوں کی مدد کی گئی۔

چند سال بعد اس کام کو وسعت دی گئی اور انگریزوں نے افغان ٹیریٹوریل فورس (ATF444) تشکیل دی۔ دونوں اکائیاں ’ٹرپلز‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔

2000 کی دہائی میں افغانستان میں ٹرپلز کے ساتھ کام کرنے والے ایک برطانوی سابق فوجی مشیر نے کہا: ’وہ برطانیہ کی حکومت کے لیے کام کرنے والی قومی قوت تھے۔ برطانیہ کے سٹریٹجک مفادات سے اس سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے تھوڑا سا ترجمہ کیا، تھوڑا سا پیسہ کمایا اور چلے گئے۔ انہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں، ہمارے ساتھ ہمارے لیے لڑ رہے تھے۔‘

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے ایک سابق کپتان جس نے افغانستان میں کئی سالوں تک ٹرپلز کے ساتھ خدمات انجام دیں، اسے ایک ’مکمل علامتی شراکت‘ قرار دیا۔

’ہم ایک یونٹ تھے۔ ہم نے اکٹھے کھایا، اکٹھے لڑے، اکٹھے مرے۔ انہیں خصوصی حیثیت نہیں دی جاتی ہے، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ افراد کی بہت بڑی تعداد نہیں ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں حقیقت میں یہ اشتعال انگیز ہے۔ آپ اس سے زیادہ انگریزوں کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتے۔‘

سابق فوجیوں نے کہا کہ ٹرپلز کے کچھ ارکان کی تصاویر جو لڑائی میں مارے گئے برطانیہ میں یو کے ایس ایف کے دفاتر کی دیوار پر سجائی گئی تھیں - تاہم اسے یقین نہیں تھا کہ آیا وہ اب بھی وہاں موجود ہیں یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے ان سے کہا کہ وہ ایک پرامید اور ممکنات والے مستقبل پر یقین رکھیں۔ ہم نے ان سے بڑے بڑے وعدے کئے اور ہر طرح سے پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔‘

دی انڈپینڈنٹ مشترکہ طور پر انکشاف کر سکتا ہے کہ دونوں یونٹوں کے ارکان کو برطانوی حکومت سے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، جو نقد ادا کی جاتی تھی۔ ان کے قائم ہونے کے چند سال بعد، یہ یونٹ وزارت داخلہ کے تحت افغان حکومت کے پاس منتقل ہو گئے۔ وہ ٹرپلز افغان نیشنل پولیس کی ایک شاخ بن گئے۔ اس کے بعد ان فوجیوں کو افغان حکومت کی سرکاری تنخواہ ملنا شروع ہو گئی جو کہ ان کی برطانوی تنخواہ کے ساتھ ساتھ بینک کھاتوں میں بھی ادا کی جاتی تھی۔

ایک برطانوی سابق مشیر نے تصدیق کی کہ CF333 کے ارکان کو ماہانہ وظیفہ ملتا تھج جس میں کمانڈروں کو تقریباً ہزار ڈالر (824 برطانوی پاونڈز) ماہانہ ملتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اضافی رقم برطانیہ سے ’ان کی وفاداری کی ادائیگی‘ کے طور پر ہوتی تھی۔

جیسا کہ برطانیہ نے افغان افواج کو مزید خود مختار بنانے کی کوشش کی، تینوں کی ماہانہ تنخواہیں مشن کے ذریعے رینک اور اضافی ادائیگیوں کی بنیاد پر نقد ’ٹاپ اپ‘ بن گئیں۔ برطانویوں نے اگست 2021 میں کابل کے سقوط تک 333 افراد کی رہنمائی، تربیت اور ادائیگی کی جبکہ 444 یونٹ کو 2014 میں پولش افواج کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس ’ٹاپ اپ‘ پے ماڈل کی تصدیق 2018 کے آرمی ٹریننگ مینول میں کی گئی ہے جسے آن لائن شائع کیا گیا ہے۔ مینول میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ میں تعینات کیے گئے ہر دن کے لیے ایک ’آپریشنل بونس‘ بھی ادا کیا گیا تھا ’جس کے نتیجے میں ہائی ٹیمپو آپریشنز میں حصہ لینے کے لیے جوش و خروش بڑھ گیا۔‘

انتظامی سیکشن کے ایک سابق سربراہ نے وضاحت کی کہ ٹرپلز کو تنخواہ یا مشن کی ادائیگی کے ساتھ کاغذ کی ایک شیٹ دی جاتی تھی جس پر وہ دستخط کرتے، نقد رقم وصول کرتے اور پھر کاغذ واپس کر دیتے۔ اس میں انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس تنخواہیں وصول کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رہ جاتا تھا۔

متعدد سابق ٹرپلز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ انہیں اپنی اجرت اسی طرح ملتی تھی۔

ایک دستاویز جو بظاہر ان ’پے سلپس‘ میں سے ایک معلوم ہوتی ہے، جو اس تفتیش کے دوران دیکھی گئی ہے۔ یہ انگریزی میں لکھی گئی ہے، تنخواہ کی رقم $870 بتائی گئی ہے اور اس پر ٹرپل ممبر کے علاوہ 'برطانیہ کے نمائندے' کے دستخط ہیں۔

کابل میں سابق دفاعی اتاشی کرنل سائمن ڈیگنس نے کہا کہ ٹرپلز وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بڑھتے گئے۔ اس میں برطانیہ کی براہ راست قیادت اور رہنمائی شامل تھی۔

انہوں نے مزید کہا: ’برطانوی تنخواہ کی سلپس کا مسئلہ بنیادی معلوم ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک خوبصورت بنیادی بیان ہے کہ ہم انہیں ادائیگی کر رہے تھے۔ اس میں کوئی متنازع بات نہیں ہے۔‘

امریکی فوج کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ تجزیہ کاروں کے 2013 کے ٹرپلز یونٹوں کے دورے کی تفصیل بتاتی ہے جس میں یہ نوٹ کیا گیا کہ فوجیوں کو ان کی باقاعدہ سے ملنے والی برطانوی تنخواہ افغان تنخواہوں سے کہیں زیادہ تھی۔ رپورٹ میں اس بات پر غور کیا گیا کہ کیا افغان سپیشل فورسز اپنے برطانوی ہم منصبوں کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

ایک برطانوی افسر نے تجزیہ کاروں کو یہ بتایا کہ برطانوی فوجی افغانوں کو ’ہدایات‘ دے رہے ہیں ان کی تربیت نہیں کر رہے ہیں...انہیں خود مختاری نہیں دے رہے ہیں۔‘

برطانوی فوج کے پاس ایک الگ رہائشی کمپاؤنڈ تھا لیکن وہ افغان بیس کے اندر، افغان ہیڈ کوارٹر، میس ہال اور یونٹ بیرکوں سے ملحق تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانوی افسران اڈے کے افغان حصوں میں آزادانہ طور پر گھومتے تھے اور دونوں فوجی کبھی کبھی ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔

ایک افغان افسر نے بتایا کہ ’انگریزوں نے افغانوں کو یہاں کرسمس ڈنر پر مدعو کیا۔ ہم نے انہیں عید کے لیے مدعو کیا۔‘

ایک سابق 333 کمانڈر نے، جسے اگست 2021 میں برطانیہ سے نکالا گیا تھا، برطانوی سپیشل فورسز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بیان کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا۔ افغانستان کے کھو جانے سے ایک ماہ پہلے تک وہ ہمارے ساتھ رہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے 30 کے قریب سابق عملے کو جو پیچھے رہ گئے تھے طالبان نے گرفتار کر لیا تھا اور CF333 میں ان کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ ’ہم نے 20 سال تک جنگ لڑی، طالبان کے ساتھ بہت مضبوط لڑائی۔ طالبان خاص طور پر 333 کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر وہ کسی ایسے شخص کو پاتے ہیں جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ وہ 333 سے ہے تو وہ اسے مار دیتے ہیں۔‘

میجر جنرل ہربرٹ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ 333 اور 444 کے سابق ارکان کو اس بنیاد پر برطانیہ منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ کی مسلح افواج کے ساتھ شراکت داری یا قریبی تعاون نہیں کیا تھا، یہ ’غیر منصفانہ اور بےبنیاد‘ تھا۔

’یہ جاننا مشکل ہے کہ آیا اس کی وجہ اس مسئلے پر حکومت کی بے حسی یا اس میں ملوث سرکاری محکموں کی نااہلی ہے۔ یہ یونٹس برطانیہ کی افواج کے ساتھ، افغانستان میں برطانیہ کے سٹریٹجک مفادات کی براہ راست حمایت میں کام کرتے تھے اور معمول کے مطابق برطانیہ کے فوجی مشیروں کے ساتھ ہوتے تھے۔‘

میجر جنرل ہربرٹ نے کہا کہ دونوں یونٹوں کے ارکان کو طالبان کی طرف سے ’مسلسل خوف اور نفرت‘ کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، اور یہ کہ یہ ’ناقابل فہم‘ ہے کہ طالبان دونوں میں سے کسی ایک کے سابق ​ارکان کو معاف کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا: ’ان یونٹس کے ایک رکن کو بھی چھوڑنا قومی بے عزتی ہے۔‘

دی انڈپینڈنٹ، لائٹ ہاؤس رپورٹس اور سکائی کو سینکڑوں دستاویزات اور تصاویر موصول ہوئی ہیں جو ٹرپلز نے مدد کے لیے اپنی درخواستوں میں ایم او ڈی کو فراہم کی ہیں۔

444 اور 333 کے تربیتی سرٹیفکیٹ برطانوی اور افغان کمانڈروں کے ذریعے جاری اور دستخط کیے جاتے تھے۔ ان پر برطانوی اور افغان دونوں پرچم اور دونوں کی دفاع کی وزارتوں کے انسگنیاز ہیں۔

444 میں سے ایک ممبر نے 2010 کی رپورٹ شیٹ رکھی تھی جس میں اسے ’اے ٹی ایف کے بہترین آل راؤنڈ انسٹرکٹرز میں سے ایک‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ کارپورل کو 2009 کے موسم گرما میں ہرٹ فورڈ شائر کانسٹیبلری میں سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایک میجر کے ذریعہ پولیس کے دفاعی حربوں، جیسے کہ طاقت کے استعمال اور آتشیں اسلحے کی بھی تربیت دی گئی تھی۔ وہ اب بھی افغانستان میں نقل مکانی کے منتظر ہیں۔

CF333 کا ایک اور رکن ایم او ڈی کے ایک میجر کی طرف سے ایک سفارشی خط بھی فراہم کرنے میں کامیاب ہو گیا، جس میں وائس ایڈمرل ٹم فریزر، اس وقت کے جوائنٹ آپریشنز کے سربراہ اور جنرل پیٹرک سینڈرز کے، جو اب چیف آف جنرل سٹاف ہیں، ساتھ اپنی تصویر بھی فراہم کر سکے۔ ٹرپلز کے رکن کو ایران فرار ہونے پر مجبور کیا گیا اور اگست میں ایم او ڈی نے اسے دوبارہ آباد کرنے کے لیے مسترد کر دیا تھا۔

شیئر کی گئی تصاویر میں لوگر اڈے پر ایک میٹنگ روم کی تصویر شامل ہے جسے افغان اور برطانوی سرپرست مشنز اور آپریشنز پر تبادلہ خیال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مینٹور میس ہال میں دیوار کی ایک تصویر میں ایک جھنڈا دکھایا گیا ہے جس میں یونین جیک کے آدھے حصے اور ایک آدھے افغان جھنڈے کو ایک ساتھ سیا گیا ہے۔

444 سارجنٹ کو 2013 کا تعریفی سرٹیفکیٹ دیا گیا جس میں یو کے ایس ایف کا لوگو، یونین جیک اور رڈیارڈ کپلنگ کی نظم ’گنگا دین‘ کا ایک اقتباس ہے۔ اس میں لکھا ہے: ’میں نے آپ کو بیلٹ کیا ہے اور آپ کو جھنجھوڑ دیا ہے، اس زندہ گاؤڈ کی قسم جس نے آپ کو بنایا، آپ مجھ سے بہتر آدمی ہیں، گنگا دین!‘ 2006 سے یونٹ کے لیے کام کرنے کے باوجود اس سارجنٹ کی دوبارہ آبادکاری کی درخواست ایم او ڈی نے مسترد کر دی تھی۔

روپوشی اور تنگدستی کی زندگی

ٹرپلز ممبران کی اکثریت بھاگ رہی ہے۔ جہاں وہ ہر چند ماہ بعد جگہ تبدیل کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ کوئی مستحکم کام تلاش نہیں کرسکتے ہیں۔

ان کے گھروں میں خاندان موجود ہیں جن کی انہوں نے کفالت کرنی ہے لیکن وہ دو وقت کے کھانے کے لیے رقم کی تلاش میں ہیں۔ ایک سابق 444 سارجنٹ نے کہا: ’میرے بچے بھوک سے مر رہے ہیں کیونکہ میں نے سقوط کابل کے بعد سے کوئی کام نہیں کیا۔ میں اپنے بچوں کے مقابلے میں ایک مختلف صوبے میں ہوں۔ جب میں اپنے بچوں سے ملنے جاتا ہوں تو آدھی رات کو جاتا ہوں اور پھر صبح سویرے بھاگ جاتا ہوں۔

’مجھے سرکاری طور پر کوئی نوکری نہیں مل سکتی اور میرے پاس محض ایک بیگ ہے جو میں لے کر گھوم رہا ہوں۔ میں خالی بوتلیں اور دھات تلاش کر رہا ہوں۔ میں انہیں جمع کرتا ہوں اور اسی طرح میں زندہ ہوں۔‘

ایک اور سابق 444 فوجی نے ان حالات کو فلمایا جس میں اس کا خاندان رہ رہا ہے۔ کیمرے کو ایک خالی کمرے میں گھماتے ہوئے، نو بچوں اور اس کے والد کو فرش پر بیٹھے دکھاتے ہوئے، اس نے کہا: ’یہ سب ہمارے پاس ہے، جس میں ایک پرانا قالین اور چند دیگر چیزیں ہیں۔ یہاں کوئی کھڑکیاں نہیں ہیں، ہم نے گرم یا سرد موسم کو روکنے کے لیے یہاں پلاسٹک ڈال دیا ہے۔ ہم کھڑکیوں کے لیے ادائیگی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘

تیسرے واقعے میں ایک شخص جس نے سی ایف333 میں 15 سال تک خدمات انجام دیں، بیان کیا کہ کس طرح وہ اور ان کا خاندان اپنے آپ کو ان ’مایوس حالات میں بنیادی ضروریات جیسے کہ رزق اور پناہ گاہ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

ایم او ڈی کا مدد سے انکار

اگرچہ آپریشن پٹنگ کے دوران ٹرپلز کے کچھ ارکان کو افغانستان سے نکالا گیا تھا، لیکن بہت سے لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور امید تھی کہ آرپ سکیم ان کی مدد کر سکے گی۔ ایم او ڈی نے ستمبر میں پارلیمانی سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ وہ اعداد و شمار فراہم نہیں کر سکے کہ کتنے 333 برطانیہ میں یا افغانستان میں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرنے والے 333 افراد کی تعداد کا ’درست تخمینہ‘ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔

سرکاری ویب سائٹ کے مطابق آرپ سکیم افغان شہریوں کے لیے ہے جنہوں نے ’افغانستان میں برطانیہ کی حکومت کے لیے یا اس کے ساتھ کھل کر یا کوئی بامعنی کردار میں کام کیا۔‘

چونکہ ٹرپلز (برطانوی ادائیگی کے باوجود) افغان وزارت داخلہ کے تحت افغان نیشنل پولیس کا حصہ تھے، خیال کیا جاتا ہے کہ فیصلہ ساز انہیں ان افغانوں سے علیحدہ کر رہے ہیں، جیسے کہ ترجمان یا مکینکس، جو یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہیں برطانوی ایم او ڈی نے باضابطہ طور پر ملازم رکھا تھا۔ وزیر جیمز ہیپی نے 11 ستمبر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’آرپ واضح طور پر ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جنہوں نے برطانوی فوج کے ساتھ افغان مسلح افواج میں خدمات انجام دیں ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے برطانوی فوج کی ملازمت میں خدمات انجام دیں لیکن بہت کم معاملات میں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم، یہ پوزیشن شائع شدہ آرپ کے معیار کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغان اس کے لیے اہل ہو سکتے ہیں اگر انہوں نے ’برطانیہ کے سرکاری محکمے کے ساتھ شراکت داری میں یا اس کی قریب افغانستان میں کام کیا ہو، جو ’قابل ذکر اور مثبت‘ مدد ہو برطانیہ کے فوجی مقاصد یا قومی سلامتی کے مقاصد کے لیے اور یہ ثابت کر سکیں کہ وہ اب خطرے میں ہیں۔

برطانوی وکلا ان درخواستوں کے مسترد ہونے پر وزارت دفاع کے خلاف عدالت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں یہ دلیل دیتے ہوئے کہ جس عمل کے ذریعے سابق ٹرپلز کو منتقل کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے وہ غیرقانونی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسترد کیے جانے کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے اور سب کو انکار کرنے کی پالیسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایم او ڈی نے کہا ہے کہ انہوں نے کسی بھی گروپ کی طرف سے آرپ درخواستوں پر یکسر فیصلے جاری نہیں کیے ہیں۔

سابق دفاعی اتاشی کرنل ڈیگنز نے وضاحت کی: ’حقیقت یہ ہے کہ وہ تکنیکی طور پر وزارت داخلہ کے ممبر تھے اور برطانویوں کے ذریعہ براہ راست ملازمت پر نہیں رکھے گئے تھے جسے ابتدا میں انہیں آرپ دفعات میں شامل نہ کرنے کی وجہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی واضح دلیل ہے۔‘

دی انڈیپنڈنٹ، لائٹ ہاؤس رپورٹس اور سکائی کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ٹرپلز کے کیسز کو مسترد کرنے سے پہلے ان کا صحیح جائزہ بھی نہیں لیا جا رہا ہے۔ ایک داخلی حکومتی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرپلز کے مبینہ ممبر کی طرف سے کسی بھی آرپ کی درخواست کو یو کے ایس ایف کے ذریعے منظور کیا جانا چاہیے، جو کہ ٹرپلز کے اندر درخواست دہندہ کے کردار کی تصدیق کرے اور اسے منظور کرے۔ تاہم، ایم او ڈی کے اندر کے ذرائع کے مطابقیو کے ایس اف اس عمل میں شامل ہونے سے انکار کر رہا ہے، اس طرح بہت سے معاملات کی منظوری نہیں دے رہا ہے، جس کی وجہ سے یکسر مسترد کی جا رہی ہیں۔

افغانستان میں ٹرپلز کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق کرنل نے کہا: ’مسئلہ یہ ہے کہ یونٹس (یو کے ایس ایف کے اندر) نہیں جانتے کہ یہ لوگ کون ہیں۔ وہ واقعی پرواہ نہیں کرتے، وہ آگے بڑھ چکے ہیں، وہ دوسری چیزوں میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں ملک سے نکالا جائے گا اور اب بھی اس امید کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں کہ برطانیہ اپنی بات پر صادق آئے گا...یہ مناسب نہیں ہے۔‘

سابق سینیئر برطانوی سفارت کار ٹِم ولیسی-وِلسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2021 میں افغانستان کے قبضے سے قبل دفتر خارجہ کو خبردار کیا تھا کہ 333 افراد کے انخلا کے لیے تیاریاں کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان کی تجویز پر توجہ نہیں دی گئی لیکن حکومت کے ساتھ سابق ​​333 ارکان کی اہلیت کے حوالے سے حالیہ بات چیت زیادہ مثبت ثابت ہو رہی ہے۔

اسی طرح سابق کیبنٹ سیکرٹری اور افغانستان میں سفیر مارک سیڈول حکومت سے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئر ایلیسیا کیرنز کے مطابق لارڈ سیڈول نے 333 کو ترک کرنے کے بارے میں سیکرٹری داخلہ کو بارہا لکھا ہے۔

کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کیرنز نے دفتر خارجہ کے وزیر لارڈ احمد سے سوال کیا کہ وزارت دفاع کی سکیم کے تحت اس طرح کے ’بجا طور پر اور یقینی اہل‘ 333 درخواست دہندگان کو برطانیہ کیوں نہیں لایا جا رہا۔

دفتر خارجہ میں افغانستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر اینڈریو میک کوبرے نے جواب دیا: ’میری سمجھ کے مطابق آرپ کے تحت اس کمانڈو فورس کے کچھ ارکان اہل ہیں، لیکن سب نہیں۔‘

شیڈو وزیر دفاع جان ہیلے نے کہا: 'یہ سننا انتہائی تشویش ناک ہے کہ افغان سپیشل فورسز جنہیں برطانیہ نے تربیت دی اور مالی اعانت فراہم کی تھی، انہیں منتقل کرنے سے انکار کیا جا رہا اور خطرے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹس اس بات کی دردناک یاد دہانی کرواتی ہیں کہ افغانوں کے ساتھ حکومت کی ناکامیوں نے نہ صرف پاکستانی ہوٹلوں میں خاندانوں کو پھنسا دیا بلکہ افغانوں کی زندگیوں کو طالبان کی جانب سے سنگین خطرے میں بھی ڈال دیا ہے۔

’ان افغانوں کی مدد برطانیہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے اسے، سب سے زیادہ ان برطانوی افواج نے محسوس کیا ہے جن کے ساتھ انہوں نے خدمات انجام دیں۔ زیادہ بہانے نہیں ہوں گے ۔ وزرا کو چاہیے کہ وہ اپنے ناکام افغان منصوبوں کو درست کریں۔‘

اس تحقیقات پر ردعمل دیتے ہوئے وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا: ’برطانوی حکومت نے افغانستان میں اہل افراد کی مدد کرنے کے لیے ایک پرعزم اور فراخدلانہ وعدہ کیا ہے۔ اب تک ہم نے تقریباً 24 ہزار 600 افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا ہے، ہزاروں افراد ہماری افغان سکیموں کے لیے اہل بھی ہیں۔

’ایم او ڈی نے آرپ سکیم کے لیے درخواست دینے والے گروپ کی سب درخواستوں پر کبھی بھی ایک ہی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ اہلیت کے متعلق تمام فیصلے امیگریشن قوانین کے مطابق اور انفرادی لوگوں کے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر کیس بہ کیس کیے جاتے ہیں۔‘

اگر اصلاحات کی کوشش کامیاب نہ ہوئی تو حکومت کو قانونی کارروائی سے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر قانونی چارہ جوئی کامیاب ہو بھی جائے تو بھی ان لوگوں کے لیے بہت دیر ہو جائے گی جن کی زندگیاں طالبان پہلے ہی چھین چکے ہیں۔

مزید برآں احمد کی طرح جو لوگ چھپے ہوئے ہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہونے سے قبل ان کے پاس بھی وقت کم ہے۔

برطانوی مسلح افواج کے ساتھ اپنی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے، احمد نے کہا: ’یہ افغانوں اور غیر ملکیوں کے درمیان مشہور منظر نامہ ہے۔ ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ ہم دوست بن گئے ہیں، لیکن جب ہمیں ان کی ضرورت پڑتی ہے، تو وہ نہیں آتے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین