طالبان حکومت کے چیف آف سٹاف فصیح الدین فطر نے دعویٰ کیا کہ طالبان کی فوج کے پاس اس وقت ڈیڑھ لاکھ اہلکار موجود ہیں اور اگلے سال یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 70 ہزار ہو جائے گی۔
انہوں نے اس فوج کے اخراجات کے ذرائع کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس فوج کا مقصد پورے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
طالبان نے گذشتہ ڈیڑھ سال کے اپنے دور اقتدار میں اپنے فوج کی تنظیم نو اور مضبوط کرنے پر کافی توجہ مرکوز کی ہے۔
طالبان نے 2022 کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔
افغان وزارت دفاع کے انسپکٹر جنرل مفتی لطیف اللہ حکیمی نے، جو فوج کا معیار بہتر بنانے کے انچارج ہیں، اگست 2022 میں بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج کے تمام سپاہی طالبان نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق افغان حکومت کے دور میں افغان فوجیوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ مگر افغانستان ہمیشہ ہی فورسز میں بھرتیوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ماضی میں افغان فوج اور پولیس میں بے پناہ جانی نقصان، ہتھیار ڈال دینا اور کرپشن عام تھی۔ کئی بدعنوان کمانڈر ایسے سپاہیوں کی تنخواہیں بھی وصول کر رہے تھی جو درحقیقت کبھی فورسز میں بھرتی ہی نہیں کیے گئے۔
امریکی کانگریس کے لیے ایک رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان نے ’کرپشن کے تباہ کن اثرات اور فوج کی حقیقی افرادی قوت کے متعلق ڈیٹا پر سنگین خدشات‘ کا اظہار کیا تھا۔
چند روز قبل افغان طالبان کے میڈیا نے خبر دی تھی کہ افغان وزارت دفاع کے انجینیئرز نے روسی ساختہ طیارے اے این 32 بی کی مرمت کے بعد کامیاب پرواز کی ہے۔
فضائیہ کے کور کمانڈر عبدالمنان محمدی کا کہنا تھا طیارے کی مرمت افغان انجینئرز نے کی ہے۔ ’ان طیاروں کے لیے درکار پرزے خود فضائیہ کے ڈپوؤں میں موجود ہیں۔ تاحال ہمیں کسی بیرون ملک سے پرزے منگوانے کی ضرورت نہیں پڑی۔‘
ادھر قندھار میں بھی افغان طالبان کا کہنا تھا کہ 205 البدر کور میں 300 تباہ شدہ ناقابل استعمال فوجی گاڑیوں کی مرمت مکمل کر لی گئی ہے۔ مرمت شدہ گاڑیوں میں 150 بین الاقوامی کاماز ٹرک، 125 ہموی ٹینک، دو بڑے آرمی ٹینک، چار سپلائی ٹیلرز، 10 بڑی اور چھوٹی کاریں اور 15 ہموی ایمبولینسیں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ وزارت دفاع کی انجینئرنگ اور تکنیکی ٹیموں کی کوششوں سے سینکڑوں دیگر گاڑیوں پر بھی کام کر رہی ہیں تاکہ انہیں بھی قابل استعمال بنا کر فوج کے حوالے کیا جاسکے۔