2023 کے موسم خزاں میں برطانیہ کے مشہور سودبیز نیلام گھر کی نیلامی میں ایک انڈین پینٹنگ نے بولی لگانے کا جنون پیدا کر دیا اور اس خبر نے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔
نیلامی کے خاتمے پر یہ فن پارہ چھ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی اصل قیمت سے 10 گنا زیادہ تھی۔
مصورہ سیتا رام کا 1815 میں چاک اور واٹر کلر کی مدد سے بنایا گیا فن پارہ اتنا ہی شاندار ہے جتنا کہ اس کا شاندار موضوع یعنی دنیا کا سب سے مشہور اسلامی مقبرہ تاج محل۔
تصویر میں نرم سرمئی سفید آسمان اور آم کے سرسبز درختوں کا خوبصورت باغ دکھائی دے رہا ہے۔ سرمئی اور سبز رنگ کی ان تہوں کے درمیان، نرم تیرتے ہوئے بادل کی طرح، تاج محل کھڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’چاندنی میں تاج محل‘ کے عنوان سے یہ تصویر ان 200 سے زیادہ اب تک موجود فن پاروں میں سے ایک ہے جو انڈین مصورہ نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک عہدے دار وارن ہیسٹنگز کے ساتھ سال بھر کے سفر کے دوران تیار کیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی تجارتی کارپوریشن تھی۔
1815 میں وارن ہیسٹنگز رات کے وقت تاج محل دیکھنے گئے اور اسے ناقابل فراموش تجربہ قرار دیا۔ انہوں نے اس یادگار کو ’غیر معمولی طور پر حیرت انگیز‘ قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ تاج محل دیکھ کر انہیں گہرا اطمینان محسوس ہوا۔ اس موقعے پر ان کے دل میں اس فن پارے کی تخلیق کا خیال پیدا ہوا، جس کی اہمیت وقت کے ساتھ کم نہیں ہوئی۔
تاج محل نہ صرف فن کے سب سے اہم موضوعات میں سے ایک بلکہ انڈین نفاست کی بھی علامت بن گیا۔
وارن ہیسٹنگز واحد یورپی نہیں تھے جنہوں نے تاج محل دیکھنے کے بعد کھل کر جذبات کا اظہار کیا۔ صدیوں سے محققین، تاجر اور مصور اس یادگار میں اپنے لیے کشش کا اظہار کر چکے ہیں۔
ایران اور انڈیا کے جدید آرٹ کی ماہر ازابیل امبرٹ کے مطابق اس نے مغرب کے تصور کو تبدیل کر دیا، جو اس ملک کو ’کم تہذیب یافتہ‘ جادو، اسرار اور عجیب مذہب کی سرزمین‘ کے طور پر دیکھتا تھا۔ یہ احساس دوسرے مورخین بھی بیان کر چکے ہیں۔
ثقافتی علامت
انڈیا کے بارے میں یورپی تصور 17 ویں صدی میں اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوا جب شمالی انڈیا کے شہر آگرہ میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی محبت کی یادگار کے طور پر تعمیر کروایا۔ تاج محل کی ابتدائی تعمیر میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا اور اس کی تعمیر 1631 میں شروع ہوئی۔ یہ عمارت 12 سال میں مکمل ہوئی۔ ممتاز محل زچگی کے دوران چل بسی تھیں۔
یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کی ایملی شوولٹن کے مطابق تعریف کے پہلے الفاظ ژاں بیپٹسٹ ٹیورنیئر کی طرف سے آئے، جو مشرقی ثقافتوں سے لگاؤ رکھنے والے فرانسیسی شہری تھے۔
ٹیورنیئر قیمتی قیمتی پتھروں اور ریشم کے خوشحال تاجر تھے۔ انہوں نے 1636 اور 1668 کے درمیان چھ بار انڈیا کا سفر کیا اور ایک سے زیادہ بار تاج محل دیکھا۔ فرانس واپسی پر انہوں نے فرانسیسی بادشاہ لوئی 14 کی ہدایت پر ’ژاں بیپٹسٹ ٹیورنیئر کے چھ سفر‘ کے عنوان سے سفر نامہ شائع کیا۔
اس سفر نامے میں انہوں نے انڈیا میں اپنے قیام کے دوران جانشینی کی لڑائیوں سے لے کر مغل بادشاہوں کے طرزِ زندگی تک کی تمام باتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ انہوں نے تاج محل کے حیرت انگیز فنِ تعمیر اور خوبصورتی کو بھی بیان کیا۔
سفرنامہ شائع ہونے کے بعد اشرافیہ میں مشرق کے بارے میں دلچسپی بڑھی، خاص طور پر انگریزی، جرمن، اطالوی اور ڈچ زبانوں میں اس کے تیزی سے تراجم ہونے لگے۔
ٹیورنیئر کے معاصر فرانسوا برنیئر نے بھی تاج محل دیکھا اور اپنے مشاہدے کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ بیان کیا۔ برنیئر مغل دربار میں ذاتی معالج تھے۔
برنیئر کی کتاب ’ٹریولز اِن دی مغل ایمپائر‘ میں تاج محل کے دورے کا احوال بیان کرنے کے لیے کئی صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اسے دیکھتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا۔ برنیئر نے تاج محل دیکھنے کے حوالے سے سفر میں اپنے ساتھی کے رد عمل کی طرف بھی اشارہ کیا جن کا کہنا تھا کہ ’یورپ میں کچھ بھی اتنا زبردست اور شاندار نہیں۔‘
شیولٹن کا کہنا ہے کہ ’برنیئر نے 1699 میں لکھا کہ وہ تاج محل کے جمالیاتی حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گئے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دنیا کے عجائبات میں شامل ہونے کے لائق ہے۔‘
شاہ جہاں نے تاج محل کو ایک عظیم الشان مقبرے کے طور پر تصور کرنے سمیت اسے فن تعمیر کا ایک انوکھا نمونہ بنانے کا بھی ارادہ کیا۔
ویانا میں انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ ہسٹری میں آرٹ اور آرکیٹیکچرل ہسٹری کی سابق پروفیسر اور تاج محل کے معروف ماہر ایبا کوچ نے تصدیق کی ہے کہ شہنشاہ شاہ جہاں نے اس یادگار کو اپنا عظیم کارنامہ سمجھا۔ انہوں نے 2005 میں اپنی کتاب ’دا تاج محل: فن تعمیر، علامت اور شہری اہمیت‘ میں لکھا کہ ’تاج محل آنے والی نسلوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا اور ہم، دیکھنے والوں کے بارے میں اس کے تصور کا حصہ ہیں۔‘
ایسٹ انڈیا کمپنی کے فنکار
17 ویں صدی کے آخر میں ’کمپنی پینٹنگز‘ نامی ہائبرڈ فنکارانہ انداز کا عروج دیکھا گیا۔ یہ تصاویر خاص طور پر انڈین نژاد فن کاروں نے بنائیں۔ ان فن کاروں تب سے ’کمپنی پینٹرز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاریخ دان ولیم ڈیلرمپل اپنی کتاب ’فارگوٹن ماسٹرز: انڈین پینٹنگ فار دی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’آرٹسٹوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی (ای آئی سی) کے افسروں اور ان کی بیویوں کے ایک ہی متنوع طبقے نے ذمہ داری دی جن میں کمپنی کے طب اور نباتات کے ماہرین سے لے کر فوجیوں، سرکاری ملازمین اور سفارت کاروں، مشنریوں، ججوں اور امتیازی سلوک کرنے والی خواتین مصنفین کے ساتھ ساتھ ’تفریح اور تعلیم کے لیے انڈیا سے گزرنے والے برطانوی مسافر‘ شامل تھے۔ زرخیز ثقافت، تاریخ، فن تعمیر، معاشرے اور حیاتیاتی تنوع میں علمی دلچسپی اور جوش و خروش ان سب میں مشترک تھا۔‘
جن لوگوں کی انڈیا میں دلچسپی تھی، ان کے لیے تاج محل ان کے تجسس اور جوش و خروش کے داخلی راستے کے طور پر کام کرتا تھا۔ یہ ان عمارتوں میں سے ایک تھا جس کی سب سے زیادہ تصاویر بنائی گئیں۔
آرٹ کے مورخ امبرٹ ڈیلرمپل سے کہتے ہیں: ’آرٹ میں آرٹسٹ کی پسند سے زیادہ سرپرست کے ذوق اور تجسس کی عکاسی کی گئی اور جب انڈیا کا سفر کرنے والے مغربی فنکاروں کی بات آئی، تو انہوں نے تاج محل کی تصاویر بنائیں کیوں کہ یہ مغلیہ دور کے ہندوستان کی سب سے شاندار یادگاروں میں سے ایک اور مصوری کے لائق تھا۔‘
کمپنی پینٹنگز کا پہلا دور 1800 کی دہائی کے اوائل میں برطانوی انتظامیہ کی قیادت میں عمارتوں کو محفوظ بنانے کے منصوبے کے حصے کے طور پر سامنے آیا۔ اس منصوبے میں آگرہ کے شیخ غلام علی اور شیخ لطیف جیسے ڈرافٹس مینوں کو شامل کیا گیا تاکہ مغل دور کی یادگاروں کی صحیح تصویریں تیار کی جا سکیں، جن میں تاج محل اور سکندرا میں شہنشاہ اکبر کا مقبرہ بھی شامل ہے۔ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ خیال یہ تھا کہ محتاط طریقے سے تیار کردہ جیومیٹرک پینسل آرٹ ورک کو عمارتوں کو محفوظ بنانے کے لیے ساختی منصوبے کے طور استعمال کیا جائے۔
ولیم ڈیلرمپل کے بقول: ’مغل دربار کے ان مصوروں نے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے اور پھر گزرنے والے مسافروں کے لیے فن پارے بنائے۔‘
’مغل دربار کے ان فنکاروں نے شیخ لطیف کی طرح ڈرافٹس مین یا ماہر تعمیر یا پتھر تراشنے والے کی حیثیت سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے اور پھر گزرنے والے مسافروں کے لیے فن پارے تیار کیے۔
’فن پاروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ورکشاپ بنائی۔ شاید خاندانی ورکشاپ جہاں 1820 اور 1830 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر یہ فن پارے تخلیق کیے۔‘
تقریباً اسی دور کے بعض اولین مصوروں میں شامل پیشہ ور برطانوی لینڈ سکیپ پینٹرز ولیم ہوجز اور چچا بھتیجے کی جوڑی تھامس اور ولیم ڈینیئل انڈیا پہنچے لیکن ان کے خیالات مختلف تھے۔
ہوجز تاج محل پر کوئی اضافی توجہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ نتیجتاً انہوں نے آگرہ کو کھنڈرات کے شہر کے طور پر پیش کیا۔ ہوجز پر کام کرنے والے جائلز ٹلوٹسن کہتے ہیں کہ ’اگرچہ وہ تاج محل کی بے حد تعریف کرتے تھے لیکن انہوں نے اس سیریز میں تاج محل کے علیحدہ منظر کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔
ہوجز کی ظاہری لاتعلقی کے برعکس، ڈینیئلز نے مغل یادگاروں کی بڑے جوش و خروش کے ساتھ مصوری کی۔ انہیں واٹر کلر کے ساتھ کام کرنے والے نوآبادیاتی دور کا سب سے کامیاب برطانوی مصور سمجھا جاتا ہے۔
1786 اور 1793 کے درمیان، ڈینیئلز نے مناظر کو ریکارڈ کرنے کے لیے اپنے وفد، کیمرے اور آلات کے ساتھ ملک بھر میں متعدد دورے کیے۔ اپنے شمالی ہندوستان کے دوروں کے دوران، یہ لوگ ممکنہ طور پر دہلی کے بہترین کمپنی پینٹرز کے ساتھ رابطے میں رہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے منسلک یوتھیکا شرما، جو جنوبی ایشیا کے ابتدائی جدید اور نوآبادیاتی دور کی بصری ثقافت میں مہارت رکھتی ہیں، لکھتی ہیں کہ ’مقبرے میں لگے سنگ مرمر کے رنگوں اور شیڈز کی تفصیلات کے بارے میں وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ ڈینیئلز باقاعدگی سے مقامی ڈرافٹس مینوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، جنہوں نے ممکنہ طور پر ابتدائی خاکے، نقول اور نقش نگار تیار کیے جو یادگاروں کے تیار شدہ خاکوں اور پینٹنگز کو بہتر بنانے کے لیے بصری ریکارڈ کے طور پر کام کرتے تھے۔‘
ایک بار جب ڈینیئلز برطانیہ واپس پہنچے تو انڈیا میں تیار کردہ ان کے فن پارے (144 پرنٹ اور چھ بےرنگ آرٹ ورک) بہت مقبول ہوئے۔ 1795 سے 1808 کے دوران چھپنے والے اس مجموعے میں تاج محل کے خوبصورت نمونے شامل تھے۔ یہ کام برطانوی نوآبادیاتی فن کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اس سے ممکنہ طور پر اس وقت کے برطانیہ کے عام شہری کی انڈیا کے بارے میں لاعلمی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا تھا۔
درحقیقت کمپنی کے مصوروں کی تاج محل، قلعہ آگرہ، مقبرہ عماد الدولہ اور دہلی کے لال قلعے کی تعمیراتی مصوری ملک کے تصورات پر اثر انداز ہوئی۔ یہ تبدیلی انیسویں صدی میں انڈین آرٹ کی بڑھتی ہوئی طلب میں نمایاں طور پر واضح تھی۔ انڈیا میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی یورپی یا ایسٹ انڈیا کمپنی کا عہدے دار انڈیا میں اپنے قیام کی یادوں کو خوبصورت تصویری البم کی شکل میں واپس لے جانا چاہتا تھا۔
شرما لکھتی ہیں کہ 19 ویں صدی میں قابل قدر آرٹ کے دو البم بنائے گئے۔ ایک کا نام دہلی بک تھا، جسے برطانوی سرکاری ملازم تھامس مٹکاف نے بنوایا اور دوسرا ولیم فریزر کی طرف سے تیار کروایا کیا گیا فریزر البم تھا۔ ماہر فن کاروں نے دہلی کی تاریخی یادگاروں میں یورپی شہریوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر ان البمز کی نقول تیار کیں۔
’تاج محل روشنی میں‘ اپنی تخلیق کے بعد دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے فن کے دلدادہ لوگوں کے کشش کا سامان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح آرٹ اور تاج محل دونوں دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
یہ تحریر پہلے ’سعودی آرامکو ورلڈ‘ میں شائع ہوئی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔