دن: سات اکتوبر 1576۔ مقام: درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی، اجمیر۔
شاہی دربار مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔ فضا عقیدت و روحانیت سے معمور نظر آتی ہے۔ ہیروں، جواہرات اور طلائی زیورات سے مرصع سارا دربار شان و شوکت کی عملی تصویر ہے لیکن پہلو میں تلوار ٹکائے، زرق برق لباسوں میں ملبوس وزرائے سلطنت کے چہروں پر آج جاہ و حشم کی بجائے تقدیس کے تاثرات نمایاں ہیں۔
پہرے پر معمور سپاہیوں کی آنکھیں بھی پرنم اور دل محبت و عقیدت کے جذبات سے لبریز ہیں۔ ان کی آنکھیں آج وہ منظر دیکھ رہی ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
شہنشاہ آج شاہی خلعت، زیورات اور کلاہِ فاخرہ کی بجائے سفید احرام پہن کر دربار میں تشریف لائے ہیں۔ آج ان کے پاؤں میں سونے کی تاروں سے منقش کوئی جوتا نہیں بلکہ وہ برہنہ پا اور برہنہ سر دربار میں امرا سے مخاطب ہیں۔ سر کے بال بھی ایک طرف سے مونڈے جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر دربار میں کھڑا شخص کوئی بادشاہ نہیں بلکہ ایک زائر دکھائی دیتا ہے جو ارضِ مقدس کے سفر پر روانہ ہونے والا ہو اور اس سلسلے میں پوری تیاری کر چکا ہو۔
تاہم شہنشاہ کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ جیسے ہی بادشاہ حج پر روانہ ہونے والے قافلے کے ساتھ کچھ قدم شہر کے باہر تک چلتے ہیں، ہر طرف سے سپاہیوں کا ایک غلغلہ بلند ہوتا ہے۔ بادشاہ کے جذبے کو دیکھتے ہوئے عوام کے جذبات بھی امڈے پڑ رہے ہیں۔ نیک دل بادشاہ بھی رعایا کے خلوص سے متاثر نظر آتے ہیں اور چند قدم مزید برہنہ پا چلنے کے بعد وہ قافلے کو رخصت کرتے ہوئے طواف بیت اللہ کی حسرت دل میں لیے واپس آ جاتے ہیں۔
یہ بیان ہے ’منتخب التواریخ‘ کے مصنف مؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی کا اور جس بادشاہ کی ناآسودہ خواہشات کا حال انہوں نے رقم کیا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ مبینہ دین الہیٰ کے بانی اور مغل اعظم کہلانے والے جلال الدین محمد اکبر ہیں، جو اپنے زمانے میں دنیا کی امیر ترین سلطنتوں میں سے ایک کے والی تھے۔
تاہم 1576 میں جب بادشاہ کے دل میں طواف کعبہ کی خواہش نے انگڑائی لی تو یہی سلطنت ان کے پیروں کی زنجیر بن گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اکبر نامہ‘ کے مصنف اور ’دربار اکبری‘ کے سرکاری وقائع نگار علامہ ابوالفضل اس محرومی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس عالم رنگ و بو میں عظیم شخصیات کی ذمہ داریاں بھی عظیم ہوتی ہیں اور ان کی عبادات کی نوعیت بھی دوسری ہوتی ہے۔ یہ اصول عادل حکمرانوں پر خاص طور پر لاگو ہوتا ہے، پھر ان میں سے بھی وہ زیبِ عالم حکمران جس نے دنیا بھر کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے اور اپنے ذہین منصوبوں اور چمکتی ہوئی تلوار کے ذریعے کتنے ہی عظیم شہزادوں کی بکھری ہوئی ریاستوں کو اکٹھا کر کے امن کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے دنیاوی عبادات کیا معنی رکھتی ہیں؟‘
یوں شہنشاہ اکبر نے امرا کے اصرار پر حج کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ امرا کا اصرار شامل حال نہ بھی ہوتا تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ بادشاہ اتنےعرصے کے لیے ملک سے دور رہنا پسند نہ کرتے اور اگر بفرض محال حج پر روانہ ہو بھی جاتے تو واپسی تک بادشاہ نہ رہتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عہدِ وسطیٰ میں بادشاہوں کو اقتدار قائم رکھنے کے لیے مسلسل حالت جنگ میں رہنا پڑتا تھا۔ بادشاہ کی ذرا سی مصروفیت یا غفلت کسی شہر میں بغاوت کے شعلے بھڑکانے کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی۔
خود شہنشاہ اکبر کو زندگی میں دو درجن کے قریب بڑی جنگوں اور لاتعداد بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ بنگال کی طرف جاتے تو کابل ہاتھ سے نکل جاتا اور جب کابل کا رُخ کرتے تو گجرات میں کوئی اپنا ہی پروردہ امیر طالع آزمائی شروع کر دیتا۔
تاہم حکمرانوں کی جانب سے حج کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ طریقہ وضع کیا گیا تھا کہ ہر سال سرکاری خرچ پر ہندوستان سے لوگوں کو حج کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ یہ سفر عام طور پر دو طرح کے لوگوں کے لیے مختص تھا۔ ایک وہ جو خود حج پر جانے کے خواہش مند تھے اور دوسرے وہ جنہیں زبردستی جہاز پر بٹھا کر عرب کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ ہر دو صورتوں میں سفر خرچ سرکاری سطح پر مہیا کیا جاتا تھا۔
مکہ میں ہندوستانی اشرفیاں
1576 میں بادشاہ اکبر کی جانب سے عوام کو سرکاری خرچ پر حج کی دعوت دی گئی۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک معتمد امیر سلطان خواجہ نقشبندی کی سرکردگی میں ایک قافلہ ترتیب دیا اور شاہی خرچ پر حج ادا کرنے کے لیے صلائے عام دی۔ بقول ابوالفضل: ’یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال دربار کے کسی معتبر امیر کی قیادت میں اس قسم کا حاجیوں کا قافلہ حجاز بھیجا جایا کرے گا تاکہ اس ملک کے ضرورت مند بھی شہنشاہ کی عنایات خسروانہ سے بہرہ ور ہو سکیں۔‘
مؤرخین کے مطابق ہر سال حج کے لیے قافلے روانہ کرنا مغل شہنشاہوں کی جانب سے اہلِ حجاز میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔
یاد رہے کہ ان قافلوں کے ساتھ بادشاہ کی جانب سے بہت سا مال و زر بھی بھیجا جاتا تھا، جو نہ صرف حجاز کے غربا میں تقسیم کیا جاتا تھا بلکہ اس زمانے کے خادمین حرمین شریفین یعنی شریف مکہ بھی اس سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے عروج اور دولت کی ریل پیل کا زمانہ تھا جبکہ حجاز کو سلطنت عثمانیہ کا ایک مفلوک الحال صوبہ سمجھا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی دفعہ شریف مکہ کی جانب سے خود قاصد بھیج کر شہنشاہ اکبر سے مالی مدد کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ضمن میں ابوالفضل کے مطابق 1579 میں اکبر کی پھوپھی گلبدن بیگم، سلیمہ سلطان بیگم اور دیگرشاہی بیگمات خواجہ یحییٰ کے ہمراہ حجاز گئی تھیں۔
1582 میں ان کی واپسی ہوئی تو بادشاہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ خواجہ یحییٰ نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حجازکے شریفوں کی جانب سے ایک عرضداشت پیش کی اور تحائف کی ایک فہرست بھی پیش کی جو انہوں نے اکبر سے بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
چنانچہ جب اگلی دفعہ قافلہ حج روانہ کیا گیا تو اس میں ان تحائف کے ساتھ ساتھ شریفین کے لیے بھاری نذرانے بھی روانہ کیے گئے۔ اس کے علاوہ بادشاہ کی جانب سے مکہ میں ایک خانقاہ کی تعمیر کے لیے بھی رقم بھیجی گئی اور ہندوستان کے علاوہ ماورا النہر اور خراسان تک کے لوگ بادشاہ ہند کی عنایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حج پر جانے لگے۔
مختلف روایات کے مطابق پہلے سال چھ لاکھ روپیہ اور 12 ہزار خلعتیں، اگلے سال پانچ لاکھ روپیہ اور دس ہزار خلعتیں جبکہ تیسری دفعہ چار لاکھ روپیہ اور نو ہزار خلعتیں حجاز کے غربا میں تقسیم کرنے کے لیے روانہ کی گئیں۔
مزید برآں بادشاہ اکبر نے شریف مکہ سے حجاز کے غربا و مساکین کی ایک فہرست بھی طلب کی تا کہ ان کی مستقل بنیادوں پر مدد کی جا سکے۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی کئی سالوں تک جاری رہا، تاآنکہ شہنشاہ اکبر نے خود اپنے مذہب کا اعلان کر دیا۔
تختۂ دار یا حج؟
’ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری تمہاری ملاقات اب مشکل ہے۔۔۔ اس لیے ہمارے خیال میں بہتر یہی ہے کہ تم مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے جاؤ جس کے لیے تم نے ہم سے درخواست بھی کی ہے اور جانے کی اجازت بھی طلب کی ہے اور تم ہمارے پاس آدمی بھیج کر مقاماتِ مقدسہ کو لے جانے والے تحائف حاصل کر لو جو تم نے سرہند اور لاہور میں رکھے ہوئے ہیں۔
’اس کے بعد جب تم اللہ کی ہدایت اور مدد سے یہ سعادت حاصل کرچکو گے اور واپس ملازمت کا سفر اختیار کروگے تو ان حالات کے مطابق ہم تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق شرف باریابی بخش دیں گے اور ہم تمہاری سابقہ خدمات کو بھی ملحوظ رکھیں گے اور تم پر ز یادہ سے زیادہ عنایات کریں گے۔۔۔ہمارے عزت و وقار سے جس طرح تم نے دنیاوی خواہشات کا منتہا حاصل کیا ہے، ہماری ہدایت سے تم آخرت میں بھی عروج حاصل کرو۔‘
یہ الفاظ اس خط کے ہیں جو ابوالفضل کے مطابق اکبر کی جانب سے 1560 کے لگ بھگ اپنے سابقہ وزیر اعظم اور اتالیق بیرم خان خانخاناں کو اس وقت لکھا گیا، جب انہیں کار سرکار سے الگ کیا جا چکا تھا اور وہ بغاوت کے لیے پر تول رہے تھے۔
بیرم خان نے نہ صرف ہمایوں کی ہندوستان واپسی اور حصول سلطنت میں اہم کردار ادا کیا تھا بلکہ بادشاہ اکبر کے ابتدائی دور میں بھی ان کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ انہوں نے خود شہنشاہ کے لیے جیب خرچ مقرر کر رکھا تھا جس میں کمی بیشی کے لیے شہنشاہ کو وضاحتیں پیش کرنا پڑتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے ابتدائی پانچ سالوں کو بیرم خان کے سال کہا جاتا ہے۔
تاہم اب پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اکبر نے شاہی اختیارات اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیے تھے اور بیرم خان کے اقتدار کا شجر مرجھانے لگا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے بغاوت کا فیصلہ کیا تو بادشاہ کی جانب سے ان کی سابقہ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں یہ ’پیشکش‘ کی گئی کہ وہ میدان جنگ میں جان دینے کی بجائے عزت و آبرو کے ساتھ خانہ خدا کی زیارت کو روانہ ہو جائیں اور تب تک واپس نہ آئیں جب تک مکمل ’ہدایت‘ حاصل نہ کر لیں۔
بادشاہ کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں بیرم خان کو بین السطور یہ پیغام دیا گیا کہ وہ دنیاوی خواہشات کی انتہا حاصل کر چکے ہیں اور اب ان کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔
حج ایک بہانہ
تاہم حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق اس ’پیشکش‘ میں خانخاناں کے لیے انکار کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔
مؤرخین کے مطابق بادشاہوں کی جانب سے یوں فریضہ حج کی ادائیگی پر بھیجے جانے کا مطلب اکثر موت یا عمر بھر کی جلاوطنی کی صورت میں نکلتا تھا اور بادشاہ اس طریقے سے ان امرا سے نجات حاصل کیا کرتے تھے جنہیں ان کی سابقہ خدمات کے باعث قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔
چنانچہ خانخاناں کے لیے بھی شاہی دربار کی جانب سے یہ بندوبست کیا گیا تھا کہ انہیں ہر صورت حج پر روانہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک فوج کا تقرر بھی کیا گیا۔ ابو الفضل ہی کے بقول جب بیرم خان کی جانب سے بغاوت کا ارادہ ظاہر ہونے لگا تو ’بادشاہ چونکہ خود اس کے مقابلے پر جانا نہیں چاہتے تھے، اس لیے ادھم خان کی سرکردگی میں ایک لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس لشکر کے ذمے یہ کام تھا کہ اگر بیرم خاں حجاز کی طرف جانے کے بجائے پنجاب کا رخ کریں اور وہاں گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ان کا سدباب کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔ بصورت دیگر جلد ازجلد انہیں حجاز کی طرف چلے جانے پر مجبور کیا جائے۔‘
اسی طرح جب بیرم خان نے شکست قبول کرتے ہوئے خود بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کی درخواست کی تو ان کے ساتھ دو امرا کو روانہ کیا گیا جو سلطنت کی حدود میں ان کی حفاظت کریں اور بخیر و خوبی حجاز کے لیے رخصت کر کے آئیں۔
ابوالفضل کے مطابق یہ امرا ناگور تک ان کے ساتھ گئے اور پھر واپس آ گئے۔ تاہم بیرم خان کو ارض مقدس تک پہنچنا نصیب نہ ہوا اور راستے میں ہی افغانیوں کے ایک گروہ نے گذشتہ واقعات کا بدلہ لینے کے لیے انہیں قتل کر دیا۔
’آج وہ کل ہماری باری ہے‘
اس سے قبل بیرم خان اپنے عروج کے زمانے میں اپنے ایک مخالف امیر مصاحب بیگ کو اسی قسم کے حج پر بھجوا چکے تھے اور ان کے سفر حج کا نتیجہ بھی وہی ہوا تھا جو بعد میں خود بیرم خان کو پیش آیا۔
ہوا کچھ یوں کہ مصاحب بیگ جو کہ ہمایوں کے زمانے سے سلطنت کے امیر چلے آ رہے تھے، بیرم خان سے خار رکھتے تھے۔ بادشاہ اکبر کی تخت نشینی کے بعد بیرم خان کو عروج ملا تو انہوں نے مصاحب بیگ کو گرفتار کرنے کے بعد حسب روایت حج پر بھیج دیا، تاہم روانگی کے بعد امرا نے ان کے قتل کا مشورہ دیا جس پر قرعہ اندازی کی گئی۔
چونکہ قرعہ ان کے قتل کے حق میں نکلا تو بیرم خان نے فوراً ایک آدمی پیچھے روانہ کر کے ان کو راستے میں ہی قتل کروا دیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل شہنشاہ ہمایوں اپنے بھائی کامران مرزا کو اندھا کروانے کے بعد حج پر بھیج چکے تھے۔
کامران مرزا کئی دفعہ بادشاہ کے خلاف سازشوں کے مرتکب ہوئے تھے لیکن پے درپے بغاوتوں کے بعد جب انہیں حتمی طور پر شکست ہو گئی تو بادشاہ نے تمام امرا کے کہنے پر بادل نخواستہ آنکھوں میں سلائی پھروا کر انہیں اندھا کر دیا۔
اس حالت میں انہوں نے درخواست کی کہ انہیں سفر حجاز پر روانہ ہونے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ تمام سہولتوں کے ساتھ انہیں ارض مقدس کی جانب روانہ کر دیا گیا اور 1557 میں ان کا مکہ میں انتقال ہوا۔
ہماری مرضی کے بغیر کیسا حج؟
سلطنت کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے امرا کو اس قسم کے سفر حج پربھیجنا جہاں ایک شاہی سزا سمجھا جاتا تھا وہیں کچھ سمجھ دار امیر ممکنہ خطرے کے پیش نظر خود بھی یہ راستہ اختیار کر لیتے تھے۔
اس ضمن میں ایک واقعہ اکبر کے رضاعی بھائی مرزا عزیز کوکہ کا ہے۔ انہیں بادشاہ نے خان اعظم کا خطاب دے کر گجرات کی حکومت عطا کی تھی۔ تاہم انہیں بادشاہ کی مذہبی پالیسیوں سے اختلاف تھا۔ چنانچہ جب دربار میں ان کی مخالفت بڑھی تو یہ فرار ہو کر حجاز چلے گئے۔ بادشاہ نے انہیں ایک ’نصیحت آمیز‘ فرمان لکھا، جس میں کہا کہ ’اپنے کعبہ دل (مراد بادشاہ) کی اجازت کے بغیر سنگ و گل کے کعبہ کی زیارت کے لیے جانا عقل کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔‘
تاہم مرزا عزیز نے، جو اب مغلیہ فوجوں کی دسترس سے دور آ چکے تھے، ترکی بہ ترکی جواب دیا جسے عہد جہانگیری کے مؤرخ خوافی خاں نے کچھ یوں نقل کیا ہے:
’تم کو بدخواہوں نے راہ راست سے بھٹکا دیا ہے اور دنیا بھر میں بدنام کر دیا ہے۔ یہ تو سوچا ہوتا کہ کبھی کسی بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ کیا کوئی چیز کلام اللہ کی طرح تم پر بھی نازل ہوئی ہے؟ آیا کوئی معجزہ شق القمر کی طرح تم سے واقع ہوا ہے؟ یا تمہارے ساتھ چار یار با صفا ہیں کہ تم نے اپنے آپ کو اس دین بدنامی سے متہمم کر رکھا ہے۔
عزیز کوکہ تمہارے دوسرے نام نہاد خیر خواہوں سے کہیں زیادہ (جو درحقیقت تمہارے بدخواہ ہیں) وفادار ہے۔ اس لیے وہ بیت اللہ آ گیا ہے تاکہ یہاں مقیم رہ کر وہ تمہارے راہ راست پر لوٹ آنے کی دعا کرتا رہے۔ امید ہے کہ اس گنہگار کی دعا قاضی الحاجات کی بارگاہ میں قبول ہوگی اور وہ تم کو راہ راست پر لے آئے گا۔‘
یہ جواب سراسر ’توہین بادشاہ‘ کے مصداق تھا لیکن مرزا عزیز حجاز میں ہونے کے باعث جان بچا لے گئے۔
البتہ ان کی دعاؤں کا اثر الٹا ہوا اور بادشاہ کو ہدایت کیا ملتی، مکہ میں رہ کر خود ان کی کایا پلٹ گئی اور ایک سال بعد وہ بادشاہ کی مانند خاصے ’لبرل‘ ہو کر واپس آ ئے۔ مؤرخ بدایونی کے بقول انہوں نے ’واپس آکر دین الٰہی میں شمولیت اختیار کر لی اور سجدہ کرنے اور مریدی کے دوسرے طریقے اختیار کرنے میں پوری متابعت کرنے لگے۔ داڑھی منڈوا دی اور محفلوں اور مذاکروں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔‘
پاکستان میں ہر سال ہزاروں لوگ سرکاری سرپرستی میں ہونے والے حج کے لیے درخواستیں جمع کرواتے ہیں جبکہ اس کے لیے حکومت اچھی خاصی رقم بھی وصول کرتی ہے۔
تاہم بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کچھ صدیاں قبل ہندوستان کے لوگوں کو مکمل طور پر مفت سرکاری حج کی سہولت حاصل تھی۔
البتہ یہ سفر یک طرفہ ہو گا یا دو طرفہ؟ یہ آپ کی قسمت یا بادشاہ کے مزاج پر منحصر تھا۔