وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے ہفتے کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے الزام میں ایک سیاح پر تشدد اور قتل کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ایوان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
بدھ کی رات مشتعل ہجوم نے سوات کے علاقے مدین میں اہانت مذہب کے الزام میں سیالکوٹ سے آئے ایک سیاح کو پولیس کی حراست سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جلا دیا تھا۔
ریجنل پولیس افسر (ملاکنڈ ڈویژن کے پولیس سربراہ) علی محمد نے جمعے کو مدین میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ واقعے کے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک مقدمہ مقتول کے خلاف توہین مذہب کا درج کیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس سٹیشن میں تھوڑ پھوڑ اور سامان کو نقصان پہنچانے پر مشتعل افراد کے خلاف درج کیا گیا۔
انہوں نے بتایا، ’پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے اور ابھی ساری تفصیلات ابتدائی ہیں اور مزید تفتیش جاری ہے۔‘
ہفتے کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’اگر کوئی ایک واقعہ ہوتا تو درگزر کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ واقعات کا ایک تسلسل ہے۔
’سیالکوٹ میں اس قسم کا واقعہ ہوا، جڑانوالہ میں ایسا واقعہ پیش آیا، سرگودھا میں ہوا، اچھرہ میں ہم اس قسم کے واقعے سے بچ نکلے۔‘
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’میں خود ایک جنونی شخص کے ہاتھوں اس قسم کے واقعے کا شکار ہوچکا ہوں۔۔۔ مجھے ایک گولی لگی جو آج بھی میرے جسم میں موجود ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر نے کہا: ’میری استدعا ہے کہ ایوان کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک ایسی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں سڑکوں پر انصاف (سٹریٹ جسٹس) کیا جا رہا ہے، موب لنچنگ (ہجوم کے ہاتھوں تشدد) کے ذریعے دین کے نام کو استعمال کر کے آئین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو پیروں تلے روندتے ہیں۔‘
احسن اقبال کے مطابق: ’اسلام نے ہمیں غیر مسلموں کی لاشوں کی بھی حرمت کا حکم دیا ہے، لیکن ’ہم نہ صرف موب لنچنگ کرتے ہیں بلکہ ان کی لاشوں کو آگ لگا کر اس کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ہم لوگوں کو مار کر، جلا کر دنیا کو کیا دکھاتے ہیں؟‘
وفاقی وزیر نے ڈپٹی سپیکر اسمبلی غلام مصطفیٰ شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو یہ انتشار ہمیں جلا کر رکھ دے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان اس کا نوٹس لے اور ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے، جو ان تمام واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر ایک قومی لائحہ عمل بنائے۔
ڈپٹی سپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے وفاقی وزیر احسن اقبال سے کہا کہ وہ اس معاملے پر وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے ساتھ کوآرڈینیشن کریں۔
صونہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے گذشتہ روز جاری ایک بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ امین گنڈاپور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی پولیس سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔
بیان میں وزیر اعلیٰ نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پولیس کو صورت حال پر قابو پانے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی ہے۔