صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں بدھ کی رات قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک سیاح کے قتل اور پولیس سٹیشن سمیت دیگر املاک کو آگ لگانے کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ہفتے کو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفس (ڈی پی او) سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ کمیٹی کی سربراہی ایس پی انویسٹیگیشن بادشاہ حضرت کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں پولیس کے تفتیشی افسران، سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی کے حکام اور آئی ٹی ماہرین شامل ہیں۔
یہ واقعہ سوات کے علاقے مدین میں بدھ کی رات پیش آیا تھا۔ مدین سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں ملک کے مختلف حصوں سے سیاح آتے ہیں۔
ریجنل پولیس افسر (ملاکنڈ ڈویژن کے پولیس سربراہ) علی محمد نے مدین میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مدین واقعے کے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مقدمہ مقتول کے خلاف توہین مذہب کا درج کیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس سٹیشن میں تھوڑ پھوڑ اور سامان کو نقصان پہنچانے پر مشتعل افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے اور اب سارے تفصیلات ابتدائی ہیں اور مزید تفتیش جاری ہے۔‘
جمعے ہی کو پولیس نے مارے گئے شخص کی تفصیلات بھی ظاہر کی ہیں۔ سوات کے ضلعی پولیس سربراہ ڈاکٹر زاہداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقتول محمد سلیمان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ مقتول نشے کا عادی تھا جبکہ خاندان والوں نے نومبر 2023 میں ان سے بذریعہ اخباری بیان اظہار لاتعلقی کا اعلان بھی کیا تھا۔
سوات پولیس ہی کی طرف سے جمعے کو مقتول کی والدہ کا ایک ویڈیو پیغام بھی انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کیا گیا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ان کا بیٹا سلیمان کچھ عرصہ ملائیشیا میں بھی رہا اور واپسی پر شادی بھی کی لیکن پھر ان کی طلاق ہو گئی۔
ویڈیو میں ان کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ ’سلیمان کے والد تین سال قبل وفات پا چکے ہیں اور ڈیڑھ سال سے ان کا گھر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔‘
صوبائی حکومت کا ردعمل
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی پولیس سربراہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں وزیر اعلیٰ نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی ہے۔
معاملے کی تفتیش جاری
ڈاکٹر زاہد اللہ کے مطابق واقعے کی تفتیش جاری ہے اور انہوں نے علاقے کے علما اور مشران کو بھی اعتماد میں لیا ہے اور ان کے مطابق اب علاقے میں حالات پرامن ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب سیاح سوات آ سکتے ہیں، تو اس کی جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب حالات بالکل نارمل ہیں۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سیاح کے قتل کی تفصیلات
جمعرات کو مشتعل ہجوم نے اہانت مذہب کے الزام میں پولیس کے زیرحراست ملزم کو تھانے سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جلا دیا تھا۔
سوات کی ضلعی پولیس سربراہ کے مطابق ’سیاحتی مقام مدین میں سیالکوٹ سے آئے ہوئے ایک سیاح پر کچھ مقامی افراد کی جانب سے قران کے اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا تھا اور ان کو کچھ افراد نے ہوٹل کے باہر بازار میں گھیرا ہوا تھا۔‘
ڈاکٹر زاہد اللہ کے مطابق: ’پولیس کو اطلاع ملی کہ اس طرح کا ایک واقعہ ہوا ہے پولیس وہاں جا کر ملزم کو حراست میں لینے کی کوشش کر رہی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جس شخص پر الزام لگایا تھا، وہ خود ہوٹل چھوڑ کر قریبی ایک پل پر اپنے سامان سمیت رکشے میں آگیا تھا لیکن وہاں پر ہجوم مزید بڑھتا گیا اور تقریباً 500 افراد تک پہنچ گیا لیکن ہماری پولیس موبائل وین میں ملزم کو بٹھایا لیا گیا۔‘
ڈاکٹر زاہداللہ نے مزید بتایا کہ ’اس وقت ہجوم مشتعل تھا اور مطالبہ کر رہا تھا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے اور مشتعل افراد نے پولیس موبائل وین کو بھی آگے پچھے سے روک رکھا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اسی دوران پولیس وین نے راستے میں ایک مقامی رکن صوبائی اسمبلی کے حجرے میں جانے کی بھی کوشش کی تاکہ ان کی مدد سے لوگوں کو سنبھالا کیا جا سکے لیکن حجرے کا دروازہ بند تھا تو موبائل وین تھانے چلی گئی۔‘
ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق: ’موبائل وین کے ساتھ چلتے چلتے مشتعل افراد 500 سے ہزاروں تک پہنچ گئے تھے لیکن موبائل وین تھانے کے اندر لے جا کر ملزم کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اطلاع ملتے ہی میں سوات مینگورہ سے روانہ ہوا لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ وہ پولیس سٹیشن کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا اور شدید پتھراؤ کرتے ہوئے تھانے سے ملزم کو نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ان کو ایک قریبی پل لے جا کر جلا دیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی پی او ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق: ’مشتعل افراد نے پولیس سٹیشن میں موجود سامان اور گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی جبکہ اس دوران اس واقعے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جو بظاہر مشتعل افراد کے پتھراؤ سے زخمی ہوئے۔‘
پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گذشتہ شب سے ہی اس واقعے کی مختلف ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل افراد پہلے پولیس سٹیشن کے سامنے کھڑے دروازے کو زبردستی کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کے بعد مشتعل افراد پولیس سٹیشن کے اندر جا کر سامان کو آگ لگاتے ہیں جبکہ ویڈیوز میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہے تاہم پولیس کے مطابق ابھی تک گولیوں کے زخم کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ڈی پی او ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق: ’مشتعل افراد نے پولیس سٹیشن میں موجود سامان اور گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی جبکہ اس دوران اس واقعے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جو بظاہر مشتعل افراد کے پتھراؤ سے زخمی ہوئے۔‘
پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گذشتہ شب سے ہی اس واقعے کی مختلف ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل افراد پہلے پولیس سٹیشن کے سامنے کھڑے دروازے کو زبردستی کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کے بعد مشتعل افراد پولیس سٹیشن کے اندر جا کر سامان کو آگ لگاتے ہیں جبکہ ویڈیوز میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہے تاہم پولیس کے مطابق ابھی تک گولیوں کے زخم کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔