کراچی: گٹر میں گرنے سے دو بچوں کی موت، تین زخمی

ملیر کی پولیس نے بتایا کہ گٹر میں گرنے والے بچوں کی عمریں چار سے 11 سال کے درمیان ہیں۔

کراچی کے علاقے ملیر میں 17 جولائی، 2024 کو پانچ بچوں کے گٹر میں گرنے کی اطلاع پر ایمبولنسز علاقے میں موجود ہیں (سکرین گریب/ چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن)

کراچی میں ضلع ملیر کی پولیس نے بتایا کہ بدھ کو پانچ بچے ایک گٹر میں گر گئے، جن میں سے دو جان سے گئے جبکہ تین کو بچا لیا گیا۔

گٹر میں گرنے والے بچوں کی عمریں چار سے 11 سال کے درمیان ہے۔

پولیس کے مطابق جان سے جانے والے بچے 10 سالہ طلحٰہ لاشاری اور چار حسنین ہیں جب کہ زخمیوں میں سات سالہ ثاقب، 11 سالہ پرویز اور 10 سالہ عباس لاشاری شامل ہیں۔

ضلع ملیر میں میمن گوٹھ تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) سرفراز جتوئی نے بتایا کہ 10 محرم کے حوالے سے بچے اپنے محلے کی گلی میں سبیل چلا رہے تھے، جس دوران یہ واقعہ پیش آیا۔

سرفراز جتوئی کے مطابق: ’یہ علاقہ ایک کچی آبادی ہے، جہاں سرکاری طور پر سیوریج لائن نہیں۔ اس لیے یہاں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گلیوں میں 20 سے 25 فٹ گہرے گڑھے بنائے ہوئے ہیں، جس میں پائپ سے سیوریج کا پانی ڈالا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان گڑھوں کو مقامی لوگوں نے ڈھکا ہوا ہوتا ہے، تاہم آج سبیل کے باعث گلی میں بچوں کا رش تھا اور کچھ بچے ایسے ہی سیوریج کے ایک گڑھے کے اوپر کھڑے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’زیادہ وزن کی وجہ سے سیوریج کے گڑھے کی چھت ٹوٹ گئی اور تین بچے اندر گر گئے، انہیں بچاتے ہوئے دو اور بچے اندر گر گئے۔

’ریسکیو کے دوران دو بچے جان سے گئے جب کہ تین زخمی بچوں کو بچا لیا گیا۔ ان میں سے ایک بچہ تاحال ہسپتال میں زیر علاج ہے۔‘

مرنے ہونے والے بچوں کے قریبی رشتہ دار اور میمن گوٹھ کے سیاسی رہنما گل بہار کھوسو نے دعویٰ کیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، اس طرح کے واقعات علاقے میں عام ہے۔

’ہمارے علاقے میں سیوریج کی لائن نہ ہونے کے باعث سیوریج کی نکاسی کے لیے گہرے گڑھے انتہائی خطرناک ہیں۔

تاہم کراچی کے ڈپٹی میئر سلمان مراد نے علاقے میں سیوریج لائن نہ ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک کنواں تھا، جس میں گر کر بچے جان سے گئے۔

سلمان مراد نے کہا: ’جہاں یہ واقہ پیش آیا وہ ایک نجی سوسائٹی ہے۔ وہاں سیوریج لائن بچھی ہوئی ہے۔ یہ گڑھا جس میں آج بچے گرے یہ سیوریج کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا، بلکہ یہ پانی کے لیے کنواں کھودا گیا تھا۔

’میں نے خود اس جگہ کا دورہ کرکے دیکھا۔ بچے گٹر یا مین ہول میں گر کر نہیں مرے بلکہ وہ کنویں میں گرے ہیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے ذاتی طور پر کنواں کھود رکھا تھا جس پر کوئی ڈھکن نہیں تھا۔

’بچے کنویں کا ڈھکن نہ ہونے کی وجہ سے گر کر مرے۔ میں نے پولیس کو کنویں کے مالک کو غفلت برتنے اور کنویں پر ڈھکنا نہ لگانے کے خلاف خلاف کارروائی کے احکامات دے دیے ہیں۔‘

کراچی میں گٹر میں بچے گرنے کے واقعات عام ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق 2023 میں 17 افراد گٹر میں گر کر جان سے چلے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان