ایک بارش وہ ہوتی تھی جس میں ہم کشتیاں چلاتے تھے کاغذ کی، ایک یہ نفسیاتی قسم کی بارشیں ہیں کہ جو بغیر کشتی کے پاؤں باہر نہیں رکھنے دیتیں۔
طوفان دیکھا ہے کبھی آپ نے؟ ایسا کہ جس میں زمین پر موجود انسانوں کو سمجھ نہ آ رہی ہو کہ جانا کہاں ہے؟ ایسا کہ جس میں سر پہ چھت ہو اور چھت کے اوپر گھر کا سب راشن وافر موجود ہو تو ہی مکین سکون کا سانس لینے کی پوزیشن میں ہوں؟
کراچی شہر میں ایک گھنٹے کی بارش ایسا برا حال کر دیتی ہے، ویڈیوز آپ دیکھتے ہیں لیکن شہریوں کی بے بسی، پریشانی اور کوفت کی گرد بھی آپ نہیں چھو سکتے۔
ایسی ہی ایک بارش تھی اور میں کراچی تھا۔
آنٹی کی طرف گیا نارتھ ناظم آباد، پہنچا تھا بس کہ بارش شروع ہوئی۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ باقی پاکستان میں عام طور پہ بارش رحمت سمجھی جاتی ہے۔
تھوڑی دیر بیٹھا، سب سے ملا، مزیدار کھانا کھایا، اب اٹھنے کو ان ڈرائیو لگائی تو دور دور تک کوئی گاڑی کا نام ہی نہیں۔
آنٹی کہنے لگیں کہ بیٹا بارش ہے، ابھی کوئی گاڑی نہیں ملے گی، رک جاؤ ادھر ہی، رکنے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن دفتر کے ایک دو کام نمٹانے تھے اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ’بارش‘ کراچی میں کس چیز کا نام ہوتا ہے۔
کوئی گاڑی نہیں ملی تو جس ڈرائیور نے ڈراپ کیا تھا اس کا نمبر ملایا، وہ بولا کہ سر ایک گھنٹہ لگے گا اور روپیہ تین ہزار۔ شاہراہ فیصل جانا تھا، سات سو دے کے آیا تھا۔ شکریہ کہا اور پھر سے گاڑی ڈھونڈنے لگ گیا۔ آدھے گھنٹے بعد ایک کلٹس نے اوکے کر دیا۔
محمد علی نے کلٹس میں بیٹھتے ہی پوچھا کہ انکل راستے واستے سب بند ہیں جلدی تو نہیں؟ میں اب تک صورت حال کی نزاکت نہیں سمجھ پایا تھا، پوری فراغت سے کہا کہ نہیں یار، سکون سے چلیں، دیکھتے ہیں، سوسائٹی ہی تو جانا ہے۔
دو سڑکیں کاٹی تھیں کہ سامنے موجود ہر سڑک پہ سیلاب۔ ایک راستے پہ آگے نکلے، گاڑیاں مڑ کے واپس آ رہی تھیں، علی نے رسک لیا، ڈال دی پانی میں، بڑھے، چوک آیا، وہاں مزید پانی۔
سب گاڑیاں رکی ہوئیں، آگے جانے کا راستہ نہ ہیچھے۔ آدھے گھنٹے بعد اس ہولناک پانی میں ٹریفک بڑھی تو آگے ایک پل تھا۔ اس پر بھی دوسری طرف ساری ٹریفک بند اور ہماری طرف پہ دونوں سائیڈوں کی گاڑیاں کہ جو طرف بند تھی ادھر چڑھتے اترتے ہوئے باقاعدہ ڈوب جانے والا سیلاب تھا۔ پل اس آمدورفت کی تاب نہ لاتے ہوئے مکمل جیم ہو چکا تھا۔
علی کی جگہ میں ہوتا تو لوگوں کو گالیاں دے رہا ہوتا، سواری کو اتار چکا ہوتا، گاڑی کہیں خشک جگہ ڈھونڈ کر لامحدود مدت کے لیے کھڑی کر دیتا یا کم از کم کسی قریبی علاقے میں سر چھپانے کو جگہ ڈھونڈ لیتا۔ خدا اسے صحت سے رکھے اور اسی مزاج کا رکھے کہ وہ انجان بندہ، پچیس چھبیس سال کی عمر کا، مکمل سکون سے بس گاڑی بڑھانے کی جگہ ڈھونڈ رہا تھا اور مجھ سے گپ شپ بھی لگا رہا تھا۔ وہ اتنا نارمل تھا کہ جیسے کوئی اپنی سگے بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہو اور بس نارمل سے رش میں پھنسا گاڑی چلا رہا ہو۔
اس پل سے اترنے میں ایک گھنٹہ لگا مگر تب تک کوئی راستہ ایسا نہیں تھا جو ہمیں منزل تک پہنچا سکتا ہو اور جہاں پانی نہ ہو۔
گرو مندر تھا یا کوئی ایسی جگہ کا چوک تھا کہ جہاں ہم اس طرح پھنسے کہ اب لگا رات یہیں کٹے گی۔ بائیں جانب زیادہ پانی کی وجہ سے رسی لگا کے سڑک بند کر دی گئی تھی، باقی جگہ شہری بے چارے جلدی کے چکر میں اس طرح سے گاڑیاں پھنسا چکے تھے کہ موٹر سائیکل تک نہیں گزرتی تھی اور جہاں جہاں راستہ تھا وہاں سائلنسر اور پلگ لیول سے اونچا پانی تھا۔
ایک جوان گاڑی کے آگے سے نکلنے کے چکر میں رگڑ گیا بمپر لیکن علی اب بھی سکون میں تھا، ملکی حالات پہ مجھ سے بات چیت کر رہا تھا، بس شیشہ اتارا اور دو تین سنا کے دوبارہ بیٹھ گیا۔
گھنٹہ کم از کم دو فٹ آگے بڑھنے میں لگا، دائیں بائیں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر موجود چہرے اپنی پریشانی سمیت آج بھی میرے دل پہ نقش ہیں۔
ادھر سے نکلے اور کراچی کی کسی جیل کے عقبی راستے سے ایک اور مین سڑک تک پہنچے۔
وہاں علی نے مجھ سے کہا کہ ادھر ایک پارکنگ پلازہ ہے، آپ کہیں تو گاڑی کھڑی کرتا ہوں، آگے موٹر سائیکل پہ آپ کو چھوڑ دوں گا، اللہ کرے گا جلدی پہنچ جائیں گے ورنہ گاڑی تو شاہراہ فیصل پر دوبارہ سو فیصد پھنسائے گی۔
میں تو اس شکرگزاری ہی سے نہیں نکلا تھا کہ یار یہ غریب اب تک مجھے گیسٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار نہیں کر رہا، کہا کہ بھئی سو فیصد گاڑی کھڑی کرو اور بسم اللہ، باقی راستہ موٹر سائیکل پہ کوشش کرتے ہیں۔
پارکنگ پلازہ تک جاتے جاتے علی کی گاڑی میں بھی پانی بھر چکا تھا۔ سارا کارپٹ گیلا، ہمارے جوتے گیلے، لیکن ہم لوگ گاڑی کامیابی سے پارک کر چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موٹر سائیکل پہ جو نکلے ہیں تو فٹ پاتھ کا روٹ لیا۔ دو تین کلومیٹر بعد شاہراہِ فیصل اور الحمدللہ میلوں تک ٹریفک بند۔ وہاں دوسری سائیڈ کچھ صاف تھی۔ علی نے پھر اجازت مانگی کہ انکل ون وے توڑ کے اس طرف جاتے ہیں، وہاں سے آگے شاید نکل سکیں، یہاں تو آپ دیکھ لیں ممکن ہی نہیں ہے۔
جوانی یاد آ گئی۔ دونوں بھائیوں نے موٹر سائیکل سڑک کے بیچ والی پٹی پہ چڑھائی، دوسری طرف اتاری، پھر ادھر کے فٹ پاتھ پہ دوبارہ رواں دواں۔
گیسٹ ہاؤس کے سامنے والی گلی اس طرح ڈوبی ہوئی تھی کہ بغیر کشتی ادھر جانا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
یہاں بھی علی نے ایک پچھلی گلی دریافت کی، منزل تک پہنچے، پانی ادھر نہیں پہنچا تھا۔
جیسے دل سے گلے لگا کے محمد علی کو میں نے رخصت کیا، وہ کیفیت شاید میں لکھ نہیں سکتا۔
شدید بے آسرا پن تھا اور ایک انسان تھا کہ جس نے قسم ہی کھا لی تھی کہ انکل کو پک کیا ہے تو انہیں چھوڑنا بھی ہے۔ خدا علی کو ہمیشہ خوش رکھے۔
باقی پانچ گھنٹے کے اس سفر میں صرف ایک چیز سمجھ آئی کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا یہ حال ہے، پشاور، ملتان اور لاہور، میں خود رہا ہوں، جانتا ہوں کہ ایک گھنٹے کی مسلسل بارش نہیں سہہ سکتے، تو اُس پاکستان میں جسے ہم جنوبی پنجاب یا اندرون سندھ، پورا بلوچستان اور سابق قبائلی علاقہ جات کے نام سے یاد کرتے ہیں، ادھر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے انفراسٹرکچر کس حال میں ہو گا اور کبھی کوئی فنڈنگ مل بھی گئی تو ہمارے بچے کبھی بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں تیرا بھی سکیں گے یا جان بچانے کے چکر میں خود ہی ڈولتے رہیں گے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔