تین تالے لگا کے بھی ہم لوگ محفوظ کیوں نہیں؟

لوہے کے بڑے بڑے گیٹ، ہر گلی محلے کے چوکیدار، بلکہ اب تو سکیورٹی گارڈ، دیواروں پہ لگی کانٹے دار تاریں، ایک ایک دروازے پہ تین تین چٹخنیاں، یہ سب کر کے بھی جس اگلی رات کی صبح ہو جاتی ہے تو بندہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔

انسان نے قدرت کو تسخیر کر لیا، زمین فتح کر لی، چاند پہ جا بیٹھا، یہ سب باتیں بچپن سے سن رہے ہیں ہم، آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہیں لیکن اب، اس وقت، ہم لوگ اپنے گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں ہیں۔

لوہے کے بڑے بڑے گیٹ، ہر گلی محلے کے چوکیدار، بلکہ اب تو سکیورٹی گارڈ، دیواروں پہ لگی کانٹے دار تاریں، ایک ایک دروازے پہ تین تین چٹخنیاں، یہ سب کر کے بھی جس اگلی رات کی صبح ہو جاتی ہے تو بندہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے رہنے سہنے کا طریقہ ہی اس غیر محفوظ پنے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

بزرگ جب کہتے تھے کہ ’ہمارے زمانے میں چوریاں نہیں ہوتی تھیں یا فلانی گلی میں بندہ سونا اچھالتا گزر جاتا، کوئی چور نہیں پڑتا تھا، تو وہ ٹھیک کہتے تھے۔ اس وقت ہماری زمین اور ہمارا آسمان ہم پہ بے رحم نہیں ہوا تھا۔

زمین آسمان والی بات جذباتی چکروں میں نہیں کہہ رہا، واللہ کہ بدلتے ہوئے موسمی مُوڈ اور بڑھتی آلودگی یہ دونوں چیزیں سیدھی سیدھی کرائم ریٹ پہ اثر ڈال رہی ہیں۔

سب سے پہلے مجھے امر گرڑو نے یہ بات کہی ایسے ہی کسی دن گپ شپ کے دوران، وہ ماحولیاتی رپورٹنگ کے بادشاہ آدمی ہیں، بولے کہ جیکب آباد اور شمالی سندھ کے آس پاس کی پٹی میں جو قبائلی دشمنیاں عرصہ دراز سے بڑھتی جا رہی ہیں، بعض ماہرین  کے نزدیک اس کی وجہ وہاں کا تیزی سے گرم ہوتا موسم ہے۔

تب میں نے حیرت سے انہیں دیکھا اور پھر موضوع بدل گیا۔ ابھی گرمیاں سر پہ آئیں تو مجھے لگا کہ یار ایک دم جیسے آس پاس سے موبائل چھننے اور چوری ڈکیتیوں کی خبریں زیادہ آنا شروع ہو گئی ہیں۔ پہلے زمانے میں ایسی باتوں کو وہم سمجھ کے ہم لوگ اُڑا دیتے تھے، اب سارا ڈیٹا ایک منٹ میں حاضر ہوتا ہے، تھوڑی انگلیاں چلائیں اور پچھلے تیس سال کی بہت سی ریسرچ سامنے آ گئی کہ واقعی بدلتے موسم اور بڑھتی گرمی کا سیدھا سیدھا اثر چوری، ڈکیتی بلکہ گھریلو تشدد اور سڑک پر ہوئے حادثوں تک پہ ہوتا ہے۔

پوری دنیا کو اس وقت بڑھتی آلودگی کی وجہ سے الٹے سیدھے موسم تو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ پانی کی کمی، فصلوں کا وقت پہ تیار نہ ہونا، نت نئی وباؤں کا آنا، کئی جانوروں اور پودوں کی نسلیں تک سرے سے ختم ہو جانا ۔۔۔ یہ سب بھی چل رہا ہے، جو اسی کی وجہ سے ہے۔

روٹی، کپڑا اور مکان، یہ نعرہ ہم سب کو یاد ہے، یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں، وہی قدرت جسے بندے تسخیر کرنے کے چکروں میں تھے اب یہ سب کچھ ہم سے چھینتی نظر آ رہی ہے۔ فصلیں خراب ہوں گی تو روٹی گئی، پانی ویسے ہی کم ترین ہے، مکانوں میں گرمی ہو یا سردی، سب موسم شدت والے ہوں گے تو کون کب تک رہے گا اور کیسے؟ تو جب حالات اس طرح کے ہوتے جائیں تو ویسے ویسے جرم ہونے کا لیول بھی بڑھتا جائے گا۔

آپ کو کھانے کے لیے کچھ نہ ملے، کپڑا خریدنے کو پیسہ نہ ہو، علاقے میں حد سے زیادہ سردی، گرمی یا بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے آبائی جگہ چھوڑنی پڑے، باہر کہیں پوری نہ پڑتی ہو، تو فوت ہو جانے کے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے؟ کسی سے چھین کر کھانا یا چرا کے ۔۔۔ آپ کیا کریں گے؟

دنیا بھر کی تحقیق کے علاوہ ابھی پچھلے سال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی ایک ریسرچ ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ نہ صرف 24 ڈگری سے زیادہ گرمی پہ جرم کی شرح بڑھ جاتی ہے بلکہ حبس، نمی یا بارش بھی تشدد اور جرائم کو ہوا دیتے ہیں۔ اس سٹڈی میں آس پاس کے علاقوں کا سارا ڈیٹا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسئلہ صرف یہ ہے کہ گیم اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہم لوگ سمجھتے تھے، ہم لوگ اس بہلاوے پر بھی خوش تھے کہ پاکستان کا تو کوئی حصہ ہی نہیں ہے گلوبل وارمنگ میں، کلائمیٹ چینج میں، یہ تو ہمیں بڑے ملکوں کا کیا دھرا بھگتنا پڑ رہا ہے، ہم تو ایک فیصد سے بھی کم شریک تھے، پھر پیسے وغیرہ آنے لگے کہ غریب ملک ہے، تباہی مچ رہی ہے، لیکن نہیں! سب کچھ وہ نہیں کر رہے۔

دھان کی فصلیں وہ یہاں آ کے نہیں جلاتے، سوسائٹیاں بنانے کے چکر میں جنگلوں کے جنگل وہ نہیں اجاڑتے پاکستان آ کر، رہائشی علاقوں کے قریب سیمنٹ فیکٹریاں وہ نہیں لگاتے، پورے پاکستان کی ریلوے لائنوں  کے ساتھ ساتھ شاپروں اور کچرے کے ڈھیر انہوں نے نہیں لگائے، اربن فلڈنگ ان کی پالیسیوں سے نہیں ہوتی ۔۔۔ اس سب کے ذمے دار ہم خود ہیں اور یہ ایک ٹیڑھا چکر ہے جس میں بڑھتا ٹمپریچر شامل ہو کے اسے تباہ کن بنا دیتا ہے۔

جب یہ سب ہوتا ہے تو رہنے سہنے کھانے پینے کے لیے تنگی ہوتی ہے، پھر لوگ اپنے علاقوں سے شہروں میں آتے ہیں، پھر آبادی کا دباؤ بڑھتا ہے، پھر مکان، دکان اور فلیٹ ایک دوسرے پہ چڑھنا شروع ہوتے ہیں، پھر اتنے قریب رہ کے لوگوں کو ایک دوسرے کی برداشت ختم ہوتی ہے، پھر جھگڑے بڑھتے ہیں، پھر تشدد بڑھتا ہے، پھر اس کے پیٹ سے نیا چکر شروع ہوتا ہے لوٹ مار، چوری چکاری بلکہ موب لنچنگ کا بھی ۔۔۔ لوگ بھر جاتے ہیں، مرنا چاہتے ہیں یا کسی کو مارنا چاہتے ہیں، اس سے کم پہ گزارہ نہیں ہوتا، اور یہ ہوتا کیوں ہے؟

غور کریں، ڈھونڈیں، پڑھیں، جرم ہونے کے پیچھے غربت سمیت ہر بڑی وجہ کے ساتھ یہ ماحولیاتی تبدیلی جڑی ہو گی جس کا رونا ابھی میں رو چکا لیکن اس کا حل کیا ہے؟

اسراف سے بچنا اور ضرورتوں کو محدود ترین کر لینا۔ جتنا سادہ ہوں گے، جتنا واپس پرانے طور طریقوں پہ جائیں گے، جتنا کم انحصار ہو گا ٹیکنالوجی پر، جتنا کم آپ کے پاس نئے گیجٹس کا ڈھیر ہو گا، اتنا زیادہ آپ کم از کم اپنا وہ کردار ادا کر رہے ہوں گے جو آنے والی تباہی کے آگے بندھنے والے بند کی ایک اینٹ جتنا شمار ہو گا۔

باقی پھر بند کی اونچائی جانے، اینٹیں جانیں اور جانے مولا، جس نے جو کرنا ہے وہ اسی کو خبر ہے!


اس کالم  کے لیے جن ریسرچ پیپرز سے استفادہ کیا گیا ان کے لنک درج ذیل ہیں؛

IUB, SDPI, JSTOR, Lancet, PMD, CEJ-IBA


نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ