سرمہ لگانے اور ریشمی رومال رکھنے والے مرد کہاں گئے؟

سوچا تھا کبھی ایسا دور آئے گا کہ جب ہر انسان نے ایک ہی جیسی گھڑی پہنی ہوگی؟ سیاہ یا گرے پلاسٹک کا سٹریپ اور اندر ایک ماچس کی ڈبیا جتنی سکرین جڑی ہوئی؟ اس سے زیادہ بے ہنگم دنیا میں کیا ہو سکتا ہے؟

آندا تیرے لئی ریشمی رومال ۔۔۔ ہیں؟ ریشمی رومال کسی مرد محبوب کے لیے؟ تے اُتّے تیرا ناں کڈھیا، وے میں بڑیاں ای چاواں نال ۔۔۔ نور جہاں یاد آ گئیں فوراً؟ گانا بھی دماغ میں بج رہا ہو گا؟

اس گانے میں خاتون کہہ رہی ہیں کہ میں تمہارے لیے ایک ریشمی رومال لائی ہوں اور اس پہ بہت ارمانوں سے، بڑے پیار سے میں نے تمہارا نام بھی کشیدہ کاری سے لکھا ہے۔

یہ گانا 1970 کے آس پاس کا ہے، اگر ہم سمجھ لیں کہ چلو اس وقت بھی کسی پرانے کلچر کو شاعر نے یاد کیا ہو گا تو پانچ دس سال مزید پیچھے چلے جائیں، ریشمی رومال آخر مرد استعمال کرتے ہوں گے نا؟

اب کوئی مرد تصور کر سکتا ہے اپنے ہاتھ میں ریشمی اور کشیدہ کاری والا رومال رکھنے کا؟

امی، مجھے یاد ہے، شروع شروع میں زبردستی ہماری آنکھوں میں سرمہ لگایا کرتی تھیں، میں بڑا بھاگتا تھا اس سے، وہ تکلیف دہ عمل تھا میرے لیے، لیکن اس وقت اکثر میں نے دیکھا تھا کہ مرد لوگوں کی تیاری میں سرمے کا عمل دخل ہوتا تھا۔

اعتراض تو کیا ہوتا کسی کو، سرمہ اس وقت فائدہ مند بھی سمجھا جاتا تھا۔

موتیے کے ہار اب صرف انڈین فلم کے وہ نواب پہنے دکھائی دیتے ہیں جو کسی بالاخانے سے اتر رہے ہوں لیکن پاکستان کے میلوں میں، عوامی جگہوں پہ، عارف لوہار جب گانے آتے تھے تب، کئی مردوں کو میں دیکھتا تھا گلے میں انہوں نے موتیے کے ہار ڈالے ہوتے تھے۔

 یہ بھی اس وقت ایک معمول تھا۔ شام کے وقت تفریح کو باہر نکلے تو ایک آدھا ہار خرید لیا، گلے میں نہ بھی ڈالا ہاتھ میں رکھ لیا۔

ہار بھی جانے دیں، کانوں پہ موتیے یا چنبیلی کے پھول تو ایویں راہ چلتا بندہ توڑ کے اٹکا لیتا تھا کہ خوشبو آتی رہے گی۔

انگوٹھیاں ہوتی تھیں قسم قسم کی، فیروزے، عقیق، یاقوت، اصلی یا نقلی، ہر دوسرے بندے کے ہاتھوں میں ہوتی تھیں، اب وہ بھی سمٹ کے صرف ایک مسلک کی نمائندگی کرنے کو باقی ہیں ورنہ ختم، کون سی انگوٹھی، کیا پتھر کی پہچان، اب تو بیچنے والے بھی ان کے ساتھ فٹ پاتھ پہ گھڑیاں سجا کے بیٹھے ہوتے ہیں۔

آستین میں کف لنک، کرتے کے بٹن نازک سی چین والے، جیبی گھڑی کی زنجیر جو ایسے شیروانی پہ لاڈلے قسم کے جھول سے لٹک رہی ہوتی تھی، سوٹ پہنا ہوا ہے تو ٹائی پن، کوئی ایک آدھا بروچ، گلے میں چھوٹی موٹی زنجیر۔۔۔

یہ سب تھا تو لگتا تھا کہ ہاں کوئی بندہ اہتمام سے تیار ہو کے آیا ہے، چیزوں کے انتخاب پہ وقت لگا ہے، ابھی مردانہ تیاری میں کوئی ایک چیز ایسی باقی ہے جسے ہم کہہ سکیں کہ وہ ایستھیٹک بھی لگتی ہے اور اسے نارمل بھی سمجھا جائے گا؟

کڑوں، مردانہ بازو بند اور کانوں میں بالیوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا میں نے جان بوجھ کے، وہ جب پہنے جاتے تھے تب بھی اتنے عام نہیں تھے لیکن اب، اس وقت، ہمارے پاس کوئی ایک ایسی چیز باقی ہے جو ہم کہہ سکیں کہ یہ صرف ہماری انفرادیت ہے؟

ہر بندہ جینز میں ہے یا شلوار قمیص ہے، دو تین قسم کے جوتے ہیں، ایک جیسی پشاوری چپل ہے، سب کا یہی نقشہ ہے، سب ایک جیسے ہیں، رنگ کہاں گئے، تیاری کہاں گئی؟

خوبصورتی کہاں گئی؟ غربت تو اس وقت اب سے بہت زیادہ تھی یار، لیکن شوق تھا شاید، بلکہ نہیں، اس وقت ہماری ٹیکنالوجی بہت محدود تھی۔

اور ٹیکنالوجی میں سے بھی کیا؟ گھڑی ۔۔۔ مردانہ جیولری میں اس وقت صرف گھڑی ہے جو باقی رہ گئی ہے، وہ بھی انتہائی تھکی ہوئی قسم کی ایپل یا اینڈرائیڈ واچ۔۔۔

سوچا تھا کبھی ایسا دور آئے گا کہ جب ہر انسان نے ایک ہی جیسی گھڑی پہنی ہو گی؟ کالے یا گرے پلاسٹک کا سٹریپ اور اندر ایک ماچس کی ڈبیا جتنی سکرین جڑی ہوئی؟ اس سے زیادہ بے ہنگم دنیا میں کیا ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مردوں کی اتنی ساری جیولری میں سے آئی فون اور ایپل واچ واحد زیور کب بنے آپ کو خبر ہوئی؟

ریشمی رومال، ہار، کڑے، سرمہ، چاندی کے بٹن، انگوٹھیاں، بالے۔۔۔ یہ سب اس وقت اچھے لگتے تھے جب شام کو دونوں ہاتھ خالی ہوا کرتے تھے اور تھوڑے سے پیسے جیب میں ڈال کے بندہ نکل جاتا تھا۔

تب جیبوں میں سے بٹوے، دو دو موبائل اور چابیوں کے گچھے پھوڑوں کی طرح ابھرے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔

اس وقت لامحدود کامیابی اور الیکٹرانک گیجٹس کی دوڑ ہمیں برے طریقے سے پھنسا چکے ہیں۔ تب ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اے سی ٹھیک کرایا تو فریج خراب، اسے بدلا تو موبائل فون گرم، اسے ٹھیک کروایا تو موٹر سائیکل یا گاڑی کا انجن کھل گیا۔

 ادھر سے فارغ ہوئے تو کمپیوٹر اڑ گیا، وہ بنوایا تو جوسر بلینڈر پھنس گئے، وائی فائی راؤٹر اڑ گیا، کوئی حد ہے یار!

یہ سب کرنے کے بعد تو مجھے خود کوئی بندہ نظر آ جائے جس نے سرمہ لگایا ہو اور دو تین زیورات پہنے ہوں تو میں سوچوں گا کہ یا تو رج کے فارغ ہے یا پھر ایک آدھا کروموسوم ادھر اُدھر ہے۔

حل کیا ہے؟ اس دوڑ کو کہیں روکا جائے، بچوں کو بتایا جائے کہ ہمارے دور میں چیزیں ڈسپوزایبل نہیں ہوتی تھیں، مستریوں سے درخواست کی جائے کہ بابا جو پرزہ مرمت ہوتا ہے اسے نیا مت ڈالو، تھوڑی بہت خود میں یا بچوں کے اندر اہلیت پیدا کی جائے کہ گھر میں کوئی چیز خراب ہوتی ہے تو اسے ٹھیک کیسے کرنا ہے۔

جب تک ہو سکتا ہے الیکٹرانک چیزوں کے نئے ماڈلوں سے پرہیز کیا جائے، ہر نئی چیز پہلے سے زیادہ ڈسپوزایبل طریقے پر بنی ہوتی ہے۔ جب نئے موبائل سے وہی کام لینا ہے، نئی گاڑی سے اسی جگہ پہ جانا ہے۔

 نئے لیپ ٹاپ پہ بھی ورڈ اور پینٹ برش چلانے ہیں تو کیا کرنا ہے نئی چیز کا؟ ایڈوانس ماڈل کا؟ کیوں دوڑنا ہے ایسے کہ رکنا ہی کہیں نہ ملے؟

رک گئے تو بھی کیا ہو گا؟ مردوں کی جیولری واپس آ جائے گی؟ نہ!

اتنی فرصت شاید ہو جائے کہ رات کو بیٹھیں تو ایسی ہی کوئی تحریر پڑھ سکیں اور اُن عجیب قسم کے پرسکون دنوں کو یاد کر سکیں جب ہاتھ پلے کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن دل ساتویں آسمان اور دماغ کلاؤڈ نائن پہ ہوتے تھے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ