گاڑیوں میں جیسے سن روف ہوتی ہے نا، ویسے کمروں میں روشن دان ہوا کرتے تھے۔
کلائمیٹ چینج کی اِس صدی میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ یاد آتی ہے وہ بس روشن دان ہیں۔
روشن دانوں کا راستہ ہمارے اے سیوں نے بند کر دیا اور کھڑکی جتنی مرضی بڑی ہو جائے اُس کا وہ والا فائدہ ہی نہیں ہوتا۔
تب اے سی بس بڑے سرکاری دفتروں میں ہوتے تھے یا ہسپتالوں میں، اور ان عمارتوں میں روشن دان ٹیپ اور گتے لگا کے مکمل بند ہونا شروع ہو چکے تھے تاکہ ٹھنڈک باہر نہ جائے، وہ بس روشن دانوں کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا۔
اِس میں سائنس بڑی سیدھی تھی، کمرے کی گرم ہوا اوپر اٹھتی تو اُسے باہر نکلنے کے لیے راستہ مل جایا کرتا تھا اور کھڑکیاں دروازے وغیرہ چقوں سے یا ٹاٹ قسم کے پردوں سے ڈھانپ دیے جاتے تاکہ دھوپ سے گرمی اندر نہ آئے۔
پنکھے بالکل چھت سے چپکے نہیں ہوتے تھے، جیسے اب ہمارے ہوتے ہیں، ایک موٹے پائپ کے آخر میں پنکھا ٹانگا جاتا تھا اور چھت سے اس کا فاصلہ کم از کم ڈیڑھ دو فٹ بڑے آرام سے ہوتا تھا۔
آپ لوگ اب حق پہ روتے ہیں کہ پنکھا آگ برسا رہا ہے، بھائی چھت کے منہ پہ پنکھا گاڑ دیں گے تو تپے ہوئے پچھواڑے سے آگ خرید کے اس نے آگے پھول تو نہیں نچھاور کرنے، گرمی ہی ملے گی۔
تان روشن دانوں ہی پہ ٹوٹے گی۔ وہ تھے تو چھتیں اونچی تھیں، پنکھے چھت سے دور اور انسانوں کے قریب ہوتے تھے، گرم ہوا اوپر نکلتی رہتی تھی اور کمرے کی ہوا کو وہی اوپر والا پنکھا سرکولیٹ کرتا تھا۔ ایک روم کولر کمرے میں کہیں لگ جاتا اور پورا گھر چادریں اوڑھ کے سوتا تھا۔
روشن دان ڈپریشن کم کرنے کا بھی اچھا طریقہ تھا۔ کوئی بیمار ہے، دس بارہ دن سے کمرے میں ہے، تب بھی روشن دان کو دیکھ کے دن رات، صبح شام، بادل، ہوا، بارش، سب کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ چاند تاروں پہ بھی نظر پڑ جاتی تھی، کوئی پرندہ آ گیا، بیٹھا، اڑ گیا، ایک دنیا تھی، طبیعت بہلی رہتی تھی۔
اب دیواروں کو دیکھیں آپ، چھت کے پنکھے کو گھور لیں یا موبائل کھول کے دیکھیں کہ باہر موسم کیسا ہے، یہ کیا زندگی ہے یار؟
ابھی کل ایک دوست نے کیا عمدہ بات کہی کہ پہلے خبرنامے کے آخر میں ہوا کرتا تھا موسم کا حال، اب شروعات ہی موسم کی خبروں سے ہوتی ہے۔
تو روشن دان ہمارے ہیرو ہیں اور اے سی اس پوری صورت حال میں ولن، کدھر جائے گی وہ ساری گرمی جو اس وقت آپ کے اے سیوں سے نکل کے ماحول میں جمع ہوتی جا رہی ہے؟ اقوام متحدہ کہتی ہے کہ آج سے ستر پچھتر سال بعد، دنیا کی تین چوتھائی آبادی جان توڑ قسم کی گرمی میں، صرف ان اے سیوں کی وجہ سے مبتلا ہو گی جو ہم آج کل بے دردی سے چلا رہے ہیں۔
’ہو جائے، ہمیں کیا، ہم پہلے ہی خوار ہیں، اس سے زیادہ کیا گرمی ہو گی؟‘
یہ قومی رویہ ہے ہمارا، اور ٹھیک بھی ہے، جس کی جگاڑ لگی ہوئی ہے وہ کیوں سوچے گا کہ اے سی بند کرے؟ لائٹ جاتی ہے تو جان نکل جاتی ہے، لوگوں کی ستر فیصد تنخواہ بجلی کے بلوں اور گرمی سے بچنے کے دوسرے چکروں میں نکل رہی ہے، حق ہے، سب ٹھیک ہے، لیکن یار ۔۔۔ اے سی پہ انحصار کم کرنے اور روشن دانوں کو یاد کرنے کا مطلب صرف ماضی کو واپسی نہیں ہے، وہ زندگی کا ایک پورا طریقہ تھا جو ہمارے بزرگوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد بنایا تھا اور اس میں آدمی بے بس نہیں تھا موسموں کے آگے۔
وہ فطرت کے قریب تھے، قدرت بھی انہیں نوازتی تھی، ہوتا ہو گا تب بھی کوئی نہ کوئی موسمیاتی تغیر، لیکن انہیں اس کا حل بھی مل جاتا تھا، دو تین گھڑے ان کا پانی صاف کر دیتے تھے، مٹی کا برتن ہی اس پانی کو ٹھنڈا ٹھار بھی کرتا تھا، ململ کے سفید جوڑوں میں ان کی صبحیں شام ہو جاتی تھیں، سرسوں کا تیل ان کی ساری تکلیفوں کا حل تھا۔
موتیے کے ہار گلے میں ڈال کے ان کی پرفیوم والی حس مطمئن ہو جاتی تھی، تخم بالنگا یا گڑ وغیرہ ان کے کولڈ ڈرنک ہوتے تھے، باقی چھوٹا سا شہر ہوتا تھا، جہاں گئے پیدل گھومے، ویسے ہی واپس آ گئے، شام ڈھلے بان کی چارپائی پہ سکون سے آنکھیں بند کیں، بہت عیاشی ہوئی تو اسے گھسیٹ کے باہر نکالا اور ایک پیڈسٹل فین لگا لیا، گرمی ختم پیسہ ہضم، صبح تڑکے اٹھ کے واپس اندر چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب کیا ہو سکتا ہے؟ ولائتی چیخیں ہم نے مار لیں، انجام بھی دیکھ لیا، سر پہ بے رحم سورج ہے اور بجلی نہ ہو تو موت ۔۔۔ حل وہی ہے۔
روشن دان کو ایک بہانہ سمجھ لیں، ہر پرانا طریقہ گرمی بھگتانے میں اب بھی پہلے جیسا مددگار ہے۔
وہی پتلی لسی، الائچی، گڑ، ستو وغیرہ ٹائپ کے شربت، کھلے کپڑے، دھوپ میں سر اور گردن ڈھانپنے کا صافہ، مٹی کے برتن، گیلی چقیں، کُھسے، بان کی چارپائیاں، اے سی کی بجائے روم کولر، پھول، پودے، درخت، گھر میں جگہ کم ہے تو کیاریاں، نئے گھر بناتے ہوئے کمروں کے اطراف ہوا کے لیے غلام گردشیں، فوم کا کم استعمال، موسمی پھل سبزیاں، کم گوشت خوری، اور پانی میسر ہے تو دن میں تین چار بار نہانا۔
یہ سب کچھ آج بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک بٹن دبانے سے اے سی کی جو ٹھنڈی یخ ہوا روح کے اندر تک اتر جاتی ہے اس کے نشے سے کون بچے اور کیسے؟
روشن دان دیکھ لینے کی امید کا سورج اب یادوں کے کمرے میں ہی کرنیں چھلکائے گا، اے سی سولروں پہ چلتے رہیں گے، بچے ہم سے زیادہ گرمیوں میں جھلسیں گے، ہم، پہلے آج زندہ رہنے کا سامان کریں گے، کل؟ کل کس نے دیکھا ہے؟
کل بھی ہم یہی کہتے تھے، آنے والے کل بھی یہی کہیں گے، رہے نام سائیں کا، جو کرنا ہے اسی نے کرنا ہے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔