جنرل فیض حمید کی کابل میں چائے کی آنکھوں دیکھی تفصیلی کہانی

سابق پاکستانی سپائی چیف جنرل فیض حمید کی کابل میں چائے کی آنکھوں دیکھی کہانی جو سینیئر صحافی طاہر خان اور پاکستان کے لیے بھلانا اب ناممکن ہوگئی ہے۔

پاکستانی سپائی چیف جنرل فیض حمید کی کابل میں 7 ستمبر 2024 کے دن چائے پیتے ہوئے وہ تصویر جو وائرل ہوئی (ایکس اکاونٹ لینزی ہیلسم)

برطانوی صحافی لینزی ہیلسم جنہوں نے تین سال قبل کابل میں پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی ایک ہوٹل میں تصویر اور ویڈیو وائرل کی تھی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسی کہانی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔‘

لینزی ہیلسم کی بات اس لیے درست ہے کہ جنرل فیض حمید کو گذشتہ دنوں کورٹ مارشل کے لیے حراست میں لیے جانے کے بعد بھی سوشل میڈیا پر ان کی چائے کے کپ والی وائرل تصویر کی بازگشت جاری ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سات ستمبر 2024 کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’افغانستان میں چائے کا کپ پاکستان کو بہت مہنگا پڑا ہے۔‘

اسحاق ڈار نے لندن میں پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام تو نہیں لیا تھا لیکن سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں چائے کے کپ کے ذکر سے اشارہ کس طرف ہے۔ کابل کے سیرینا ہوٹل میں چائے کے کپ کا ذکر تو بہت ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن شاید اکثریت کو حقائق کا علم نہیں۔

یہ چار ستمبر 2021 کی صاف آسمان والی ایک صبح تھی اور افغانستان پر طالبان کنٹرول کا 21واں دن تھا۔ اس دن میں بھی دیگر غیر ملکی صحافیوں کی طرح رپورٹنگ کے لیے افغان دارالحکومت میں موجود تھا۔ کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد خاصی تعداد میں غیر ملکی صحافی کابل کے سیرینا ہوٹل میں موجود تھے۔

میں ناشتے کے لیے ریسٹورنٹ جا رہا تھا کہ ہوٹل کی لابی میں پاکستانی سفارت خانے کے کئی اہلکار نظر آئے جو بڑی تیزی سے کبھی استقبالیہ کی جانب تو کبھی لفٹ میں اوپر نیچے آتے جاتے دکھائی دیے۔ ان میں سے کئی نے شاید مجھے پہچان لیا اس لیے آپس میں سرگوشی بھی شروع کر دی تھی۔

میں نے ایک کو سلام کیا اور دریافت کیا کہ خیریت تو ہے صبح صبح سفارت خانے کے اہلکاروں کی کچھ غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں تو ایک نے جواب دیا کہ ’پاکستان سے مہمان آ رہے ہیں۔‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون آیا ہے؟ لیکن اندازہ ہوگیا کہ کوئی اہم شخصیت ہی آئی ہے جو ان غیر معمولی پھرتیوں کا سبب ہیں۔

چونکہ اس وقت غیر ملکی صحافیوں کے لیے طالبان کا ملک پر تازہ تازہ کنٹرول اور اس کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ زیادہ اہم تھا تو ہم نے بھی ہوٹل لابی میں پاکستانی سفارتی عملے کی موجودگی کو اہمیت نہیں دی۔

اس دوران اسلام آباد سے ایک صحافی دوست نے سینیئر ٹی وی ٹاک شو میزبان کامران خان کا ایک ٹویٹ وٹس ایپ پر بھیج دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سینیئر پاکستانی اہلکاروں ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے آج صبح کابل پہنچ گئے ہیں۔ جنرل فیض طالبان شوری کی دعوت پر کابل پہنچنے والے اعلیٰ غیر ملکی عہدیدار ہیں۔ پاکستان اور طالبان سکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات پر بات چیت کریں گے۔‘

اس دورے کے بارے میں نئے افغان حکمرانوں کا کوئی بیان تو جاری نہیں ہوا لیکن اس وقت کے طالبان رہنماوں کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کو انہوں نے دورے کی دعوت نہیں دی تھی۔ اسلام آباد سے ایک صحافی دوست نے یہ ٹویٹ شریک کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ کامران خان کے علاوہ ایک خاتون اینکر نے بھی اسی طرح کی ٹویٹ کی ہے۔

اس ٹویٹ کے بعد ہمارا وہ تجسس بھی ختم ہوا کہ پاکستان سے آنے والا مہمان کون ہے؟ لیکن اس سے ہوٹل میں موجود غیر ملکی صحافیوں میں اس دورے سے متعلق دلچسپی بڑھ گئی اور پھر سب انتظار کر رہے تھے کہ پاکستانی وفد کب ہوٹل پہنچے گا۔

جب بڑی گاڑیوں کا ایک قافلہ ہوٹل میں داخل ہوا تو اس وقت وہاں موجود صحافی بھی 'الرٹ' ہوگئے اور پھر گاڑیوں سے اترنے کے بعد جب جنرل فیض حمید ہوٹل داخل ہوئے تو میرے اور دوسرے پاکستانی صحافی انس ملک سمیت کئی غیر ملکی اور افغان صحافیوں نے کمیروں اور موبائل سے ویڈیو بنانا شروع کر دیں۔ اس موقع پر مجھے جنرل فیض نے کہا کہ 'آپ ویڈیو نہ بنائیں' جس پر میں نے پھر اپنا موبائل فون نیچے کر دیا۔

بعد میں پاکستانی سفارت خانے کے اس وقت دفاع کے اتاشی اور جنرل فیض کے وفد میں شامل ایک سکیورٹی اہلکار میرے پاس آئے کہ اپ ٹویٹ کرسکتے ہیں لیکن فوٹو اور ویڈیو پوسٹ نہ کریں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جنرل فیض غصے میں تھے اور انہوں نے پاکستانیوں کو ملاقاتوں کے دوران کہا تھا کہ ویڈیو طاہر خان نے وائرل کی ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔

جنرل فیض نے ایک پاکستانی اینکر کو فون پر میری شکایت بھی لگائی تھی۔ مجھے اس اینکر کا بعد میں فون بھی آیا تھا اور مجھے جنرل صاحب کے ناراضی سے آگاہ کیا۔

وائرل ویڈیو دراصل برطانوی چینل فور ٹیلیویژن کی کیمرہ مین نے بنائی تھی۔ اسی چینل کی 'لینزی ہیلسم' نامی سینیئر صحافی نے جنرل فیض کی ہاتھ میں کپ والی تصویر ٹویٹ کی تھی اور اپنی رپورٹ میں اس کی ویڈیو استعمال کی تھی جو بعد میں سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی۔ ہیلسم نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید ابھی کابل کے سیرینا ہوٹل پہنچے ہیں۔ انہوں نے مجھے (ہیلسم) کو بتایا کہ وہ پاکستانی سفیر (منصور خان) سے ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے طالبان قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کرنے سے متعلق کچھ نہیں کہا (لیکن یقینا وہ ضرور ملیں گے)۔

چائے کے کپ کا ذکر آج بھی ہوتا ہے لیکن یہ اس لیے غیر معمولی بات نہیں کیونکہ سیرینا داخل ہوتے ہوئے مہمانوں کو چھوٹے کپ میں سبز چائے عموما پیش کی جاتی ہیں۔ ایک سوال پر جنرل فیض نے مشہور جملہ کہا تھا کہ ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

جنرل فیض حمید پر تنقید اس لیے ہوتی رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے سے ان کا مطلب افغانستان یا طالبان کے اس وقت کے حکومت سازی یا دیگر مشکلات کی طرف تھا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔

دورے پر اس وقت سوشل میڈیا میں بحث کی تناظر میں رائے جاننے کے لیے میں نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے جاکر اس وقت کے سفیر منصور احمد خان سے بات کی تھی جو کہ جنرل فیض کے ہمراہ ہوٹل آئے تھے اور بعد میں طالبان رہنماوں کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی اور منتظم اعلی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقاتوں میں شریک تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفیر منصور خان کا کہنا تھا کہ اس اہم دورے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ 15 اگست 2021 کو افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس کے پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر دورس نتائج آنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا آپس میں رابطہ تھا تاکہ اتحادی افواج، غیر ملکیوں اور ملک چھوڑنے والے افغانوں کا انخلا بغیر کسی مشکل اور محفوظ طریقے سے ہوسکے۔

منصور خان کا مزید کہنا تھا کہ جنرل فیض کے دورے سے کچھ دن پہلے ایک اعلی امریکی انٹیلی جنس عہدیدار نے بھی کابل کا دورہ کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ طالبان کے ایک عہدیدار نے ایکس پر وضاحت کی تھی کہ وہ پہلے نہیں بلکہ دوسرے کسی غیر ملکی اینٹلی جنس ادارے کے سربراہ تھے۔ امریکی میڈیا کے رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مرکزی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ نے کابل کا خفیہ دورہ کیا تھا اور طالبان کے سینیئر رہنما ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات بھی کی تھی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی اگست 26 کے رپورٹ کے مطابق ویلیم برنز کا کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا۔

اس لیے جنرل فیض کے دورے کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ افغانستان میں تبدیلی کے بعد پاکستان  اپنے مفادات کا تحفظ کرے اور یہ کہ شدت پسند گروپس داعش اور تحریک طالبان پاکستان کے ممکنہ خطرات سے اپنے اپ کو کیسے محفوظ بنائے کیونکہ اس وقت افغانستان میں افغان حکومت قائم نہیں ہوئی تھی اور سکیورٹی فورسز بھی نہیں تھیں۔

میں نے 20 ستمبر کو برطانوی صحافی لینزی ہیلسم سے رابطہ کرکے جنرل فیض کے دورے متعلق ان کی رائے پوچھ لی تو انہوں نے کہا کہ طالبان کنٹرول کے فوری بعد جنرل فیض کا اس وقت کا دورہ کابل ’بہت متنازعہ‘ تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں حیران ہوئی جب وہ ایک عوامی مقام پر آ گئے۔ شاید ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہاں صحافی موجود ہوں گے اور یقینی طور پر شاید ان کو یہ بھی توقع نہیں معلوم تھا کہ ان سے ان کے دورے سے متعلق سوالات کیے جائیں گے۔ میں لابی موجود تھی اور میرے لیے ان کا وہاں آنا حیرانگی کا باعث تھا۔‘

معلوم نہیں کہ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل سے متعلق ایک یا دو اینکرز کے ساتھ معلومات شریک کرنے کا مقصد کیا تھا؟ اس کا جواب تو اس وقت کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔ میری یہ بھی معلومات ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں ٹھرنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ہوٹل میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کا یہ فیصلہ اور ایک کپ چائے تمام زندگی اب جنرل فیض حمید اور ایک لحاظ سے پاکستان کا پیچھا کرتی رہے گی۔

غلط وقت کا انتخاب

اس وقت نہ تو طالبان کی حکومت بنی تھی اور نہ کابینہ موجود تھی۔ شمالی پنج شیر صوبے پر کنٹرول بھی حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ طالبان نے 6 ستمبر کو پنج شیر پر کنٹرول کا اعلان کیا تھا یعنی جنرل فیض کے دورے کے دو دن بعد۔

طالبان نے 33 رکنی کابینہ کا اعلان 8 ستمبر یعنی جنرل فیض کے چار دن بعد کیا تھا۔ دورے سے باخبر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سازی اور کابینہ نہ ہونے کی وجہ  سے جنرل فیض کو طالبان رہنماوں کے ساتھ ملاقاتوں میں دشواری بھی پیش آئی تھی۔

کئی اہم شخصیات سکیورٹی مسائل کی وجہ سے کابل سے باہر رہنے کو ترجیح دے رہی تھیں تاہم جنرل فیض کی ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان رہنماؤں سے ایک تفصیلی نشست انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ہوئی تھی جس میں اس وقت اکثر طالبان رہنما رہائش پزیر تھے۔

ملاقات میں دیگر سینیئر رہنما شہاب الدین دلاور، ملا فاضل اور کئی اور بھی موجود تھے۔ پاکستانی حکام نے مجھے بتایا تھا کہ جنرل فیض نے ملاقاتوں میں سکیورٹی خدشات سے طالبان رہنماؤں کو آگاہ کیا تھا اور ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کی انخلا میں پاکستان کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل فیض نے طالبان رہنماوں کو ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملے روکنے، وسیع البنیاد حکومت، سابق افغان دفاعی فورسز کو نہ ختم کرنے، پنج شیر میں فوجی آپریشن نہ کرنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کی تجاویز بھی دی تھیں۔

اگرچہ دورے کے وقت پر تنقید ہوتی رہی لیکن اس وقت پاکستانی حکام کہا کہنا تھا کہ ممکنہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے جنرل فیض کو کابل بھیجا گیا تھا۔ حکام کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کی جانب سے جیلوں کو توڑنے کے بعد وہاں سے سینکڑوں پاکستانی طالبان اور داعش کے شدت پسند رہا ہوگئے تھے جو اسلام آباد کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ پاکستان کے آج کل کے سکیورٹی صورت حال کو اگر دیکھا جائے تو اس وقت کے خدشات درست ثابت ہوئے۔

خفیہ اداروں کو کہا ہی خفیہ اس لیے جاتا ہے کہ وہ عوامی مقامات اور میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ جنرل فیض کے لیے وہ صبح پیشہ ورانہ اعتبار سے کوئی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئی تھی۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ