پاکستان ٹی وی پر جتنا آج کل سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا ذکر ہو رہا ہے شاید ہی کسی سابق فوجی کے اتنے قصے کہانیاں سامنے آئے ہوں۔
سینیئر صحافیوں و تجزیہ کاروں کے ٹی وی چینلز پر تجزیوں پر یقین کریں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ فوج کم چلا رہے تھے اور سیاست زیادہ کر رہے تھے۔
پاکستان فوج کے تحویل میں لیے جانے کے اعلان میں سرفہرست وجہ تو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے معاملات بتائے گئے ہیں لیکن اس پر کوئی زیادہ بات نہیں ہو رہی۔ سیاست میں ان کا مبینہ کردار مکمل طور پر چھایا ہوا ہے۔ وہ اتنے لوگوں سے شاید رابطے میں تھے کہ ہر کوئی اپنے اپنے قصے بیان کر رہا ہے۔
پاکستان فوج کے لیے یہ کتنا اچھا یا برا رجحان ہے اس کا اندازہ تو سب کو ہے۔ آخر پاکستان فوج کی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کون ہیں اور ان کا سیاست سے کیا لینا دینا ہے؟
پہلے ان کے عسکری دور کے کچھ تنازعات پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
فیض آباد دھرنا
جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا اور اس کے بعد سے آج تک وہ کسی نہ کسی حوالے سے خبروں کی زینت بنتے رہے۔ تحریک لبیک کے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر 20 دنوں سے جاری دھرنے کے خاتمے میں ان کا کردار اہم تھا۔
پانچ سے 26 نومبر 2017 تک جاری رہنے والا دھرنا مظاہرین کے مطالبات ماننے اور وزیر قانون کے استعفے کے بعد ختم ہوا۔
بعد میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا انہوں نے کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات کیے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی تھے۔ اس معاہدے کی وجہ سے ان پر کڑی تنقید ہوئی اور سپریم کورٹ نے فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا تھا۔
دورۂ کابل
لیکن سیاست کے علاوہ جنرل فیض حمید کی اپنے بنیادی پیشہ ور سپائی ماسٹر کے طور پر بڑی غلطی افغان طالبان کی اگست 2021 میں دوسری حکومت کے قیام کے بعد سامنے آئی۔ طالبان کی آمد کے تین ہفتے بعد ہی جنرل فیض حمید نے دورہ کابل کے دوران کافی کپ کے ساتھ ان کی تصویر وائرل ہوئی اور شدید تنقید کا سبب بنی۔
خود فوج کے اندر اسے پسند نہیں کیا گیا اور اس نے اس تاثر کی قدرے توثیق کی کہ پاکستان ہی طالبان کے سرپرست تھے۔ وہ طالبان کے قبضے کے بعد کابل کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ عہدے دار تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالانکہ ان سے قبل امریکی سی آئی اے کے سربراہ بھی کابل آئے لیکن انہیں نہ کسی نے آتے اور نہ ہی جاتے دیکھا تھا۔
سیاسی مداخلت؟
سنہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت نے 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا۔ انہوں نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا تھا۔
بطور ڈی آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیرِاعظم عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دراصل آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل پاشا اور جنرل فیض ہی تحریک انصاف ’پراجیکٹ‘ کے مبینہ معمار تھے۔
مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، قانون سازی کے لیے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کروانے اور بجٹ منظور کروانے میں بھی ملوث رہے۔ پی ٹی آئی ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
2017 اور 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی اور پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے بھی ان پر مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم فیض حمید نے شوکت صدیقی کے الزامات کی تردید کی تھی۔
فیض حمید پاک فوج کے ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل تھے جنہوں نے بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور جی او سی سولہویں انفنٹری ڈویژن پنوں عاقل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپریل 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ان کی ترقی ہوئی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کو چھوڑ کر کور کی کمان کا تجربہ حاصل کرنے پشاور گئے لیکن آرمی چیف نہ بنانے پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی الزام ہے کہ وہ سیاسی طور پر متحرک تھے۔
کہتے ہیں فیض حمید کو مقتدر حلقوں نے بظاہر عمران خان کو بنانے، سنوارنے کی ذمہ داری سونپی تھی لیکن وہ خود اس منصوبے کے قیدی ہو گئے۔