جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل: کون سی سزائیں دی جا سکتی ہیں؟

کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی آفسر کو 35 اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔ ان میں ملک دشمنوں سے تعلق، جس ملک میں تعینات ہوں وہاں کے رہائشیوں یا جائیداد کے خلاف سرگرمیاں، کسی کے گھر پر لوٹ مار کی غرض سے چھاپہ، اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین نے کی (تصویر: پرائم منسڑ آفس پاکستان)

پاکستانی فوج نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو تحویل میں لینے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت تادیبی کارروائی کا اعلان کیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی شکایات اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے تحت کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے۔

کورٹ مارشل کی اقسام

 پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 80 کے مطابق کورٹ مارشل کی چار مختلف اقسام ہیں جن میں جنرل کورٹس مارشل، ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور سمری کورٹس مارشل شامل ہیں۔

وفاقی حکومت یا آرمی چیف کے حکم پر کسی آفسر کو فیلڈ کورٹ مارشل بلانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کم از کم تین افسروں کا ہونا لازمی ہے۔

کون کون سے جرائم پر سزائیں ہو سکتی ہیں؟

کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی آفسر کو 35 اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔

ان جرائم میں ملک دشمنوں سے تعلق رکھنا، جس ملک میں تعینات ہوں وہاں کے رہائشیوں یا جائیداد کے خلاف سرگرمیاں، کسی کے گھر یا جگہ پر لوٹ مار کی غرض سے چھاپہ مارنا اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔

کورٹ مارشل میں سزاؤں سے متعلق پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 میں تفصیلات درج ہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 کے مطابق جرائم کے مرتکب افراد کو کورٹ مارشل کے ذریعے مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

کورٹ مارشل کے ذریعے سنگساری، سزائے موت، ہاتھ پاؤں کاٹنے اور عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس ایکٹ کے مطابق قید کی سزا 25 سال اور زیادہ سے زیادہ ایک سو کوڑے اور کورٹ مارشل کے ذریعے نوکری سے نکالنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ تمام الاؤنسز ضبط کیے جا سکتے ہیں۔

سزا معافی کا طریقہ کار

کورٹ مارشل سے سزا ہونے کے بعد وفاقی حکومت یا آرمی چیف یا بریگیڈیئر رینک کا آفسر آرمی چیف کی اجازت سے مشروط یا غیر مشروط، پوری یا کچھ سزا معاف کر سکتا ہے مگر کوئی سزا جو حدود کے تحت دی گئی ہو، وہ نہ معاف ہو گی نہ ہی کم کی جا سکتی ہے۔

اب تک پاکستان میں کتنے لیفٹیننٹ جنرلز کا کورٹ مارشل ہوا ہے؟

فیض حمید پاکستانی فوج کے تیسرے لیفٹننٹ جنرل ہیں جن کا کورٹ مارشل ہوا ہے۔ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 30 مئی 2019 کو کورٹ مارشل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، البتہ بعد میں یہ سزا معاف کر دی گئی اور 29 دسمبر 2023 کو انہیں رہا کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا بھی کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ 22 فروری 2019 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پنشن اور دیگر کورٹ مارشل کے بعد ضبط کر دی گئی ہیں۔

فیض حمید کے خلاف کارروائی پر قانون دانوں کی آرا

قانون دان امجد حسین شاہ کے مطابق ’آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے مرتکب فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے۔ اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئرغضنفر علی کے مطابق ’آرمی کورٹس میں ملزم کا ٹرائل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آئینی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ جنرل فیض کیونکہ افسر رہے ہیں اس لیے تین رکنی آرمی کورٹ کی سربراہی بھی بڑے رینک کا افسر کرے گا۔ اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو آرمی ایکٹ کے تحت سخت سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔‘

 اسلام آباد ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان کے مطاق ’12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور ان کے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

فوج کی جانب سے ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی کے اعلان پر سیاسی حلقوں سمیت سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ غضنفر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جنرل فیض حمید پر اختیارات سے تجاوز کا جو الزام ہے یا آئی ایس پی آر نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق جو کہا، اس حوالے سے فوج میں مکمل نظام موجود ہے جس میں کورٹ مارشل کے ذریعے دونوں طرف کا موقف اور شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔‘

غضنفر علی کے بقول، ’جب کسی افسر کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے تو پہلے اس کی انکوائری کی جاتی ہے پھر کورٹ مارشل کی سفارش ہوتی ہے۔ افسروں کے لیے کسی بڑے رینک کے افسر کی سربراہی میں تین رکنی ملٹری کورٹ تشکیل دے کر مقدمے کی سماعت ہوتی ہے۔ اس دوران ملزم کو بھی اپنے دفاع کا پورا حق دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی وکیل دفاع بھی پیش کر سکتا ہے۔ تاہم الزامات اگر ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں ثابت ہو جائیں تو سزا کا تعین کیا جاتا ہے۔ آرمی کورٹس مین کیس جلد از جلد نمٹا دیے جاتے ہیں۔‘

سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملٹری کورٹس میں سماعت آرمی کے اپنے دفاتر میں ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ آرمی کورٹ سے جرم ثابت ہونے پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا بلکہ اس سے متعلق رپورٹ جیک برانچ کو بھیج دی جاتی ہے۔ یہ فوج کا عدالتی معاملات کے لیے بنایا گیا اپنا شعبہ ہے۔ آرمی کورٹ سے ملنے والی رپورٹ کی روشنی میں جیک برانچ ملزم کی آرمی ایکٹ کی لاگو ہونے والی شقوں کے مطابق سزا تجویز کرتی ہے۔ پھر مجاز اتھارٹی کی منظوری سے سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔‘

امجد شاہ کے بقول، ’آئی ایس پی آر کے بیان میں جو الزام فیض حمید پر لگائے گئے ہیں اگر وہ ثابت ہوجاتے ہیں تو انہیں سروس ختم کرنے، مراعات ختم ہونے اور قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ البتہ ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی یعنی ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے یا بغاوت کرنے کا جو الزام ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے تو عمر قید یا سزائے موت بھی ممکن ہے۔‘

امجد شاہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف پہلے آرمی چیف کو اپیل کی جا سکتی ہے، اگر وہاں سے مسترد ہو جائے تو ملزم کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کا حق بھی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے اور برقرار رکھنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔‘

ٹاپ سٹی کیس ہے کیا؟

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بالخصوص 2013 کے بعد جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا مختلف سیاسی معاملات میں سامنے آتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا دھرنا ہو، ٹی ایل پی کا فیض آباد دھرنا یا 2018کے عام انتخابات، تحریک انصاف کے دور حکومت میں سینیٹ انتخابات میں بھی سیاسی رہنماوں نے ان پر مداخلت کے الزامات عائد کیے۔

لیکن جب ٹاپ سٹی والا معاملہ منظر عام پر آیا تو میڈیا پر اس کی کافی گونج سنائی دی۔

نومبر 2023 میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی جس میں سابق ڈجی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

معیز احمد خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو ’سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی ایما پر خفیہ ادارے کے حکام نے ٹاپ سٹی کے اسلام آباد واقع دفتر اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی حکام نے ان کے گھر سے سونے، ہیرے، اور پیسوں سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی تھیں نیز آئی ایس آئی کے حکام نے ان سے چار کروڑ روپے بھی لیے۔‘

اس درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین نے کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے جنرل فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کے لیے میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اسی کمیٹی کی سفارش پر فیض حمید کو تحویل میں لینے اور کورٹ مارشل کا فیصلہ کیا گیا۔

اس درخواست پر سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

ٹاپ سٹی کے مالک کی جانب سے درخواست میں یہ موقف بھی اپنایا گیا تھا کہ فیض حمید کے حکم پر ان کے گھر چھاپے کے دوران ان کے اہل خانہ پر تشدد کیا گیا اور اغوا کیا گیا۔ 40 روزہ غیر قانونی حراست سے رہائی ملنے پر ان کے سسر فوت ہو گئے جبکہ فیض حمید نے 400 تولے زیورات اور بڑی نقدی رقم جو گھر سے اٹھائی گئی تھی، واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پر صلح کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان