اس پر بھی بات ہو ہی جائے کہ پاکستان میں امریکی الیکشن کی وجہ سے کچھ غیر معمولی کھلبلی آخر کیوں بپا ہے، اور شاید کچھ سیاست دانوں کو تشویش کیوں ہونی چاہیے؟
لیکن وہ سب بعد میں۔ پہلے کچھ امریکی الیکشن اور اس کے پروجیکشن کے بارے میں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی قسمت کے بدلتے ستاروں کے حوالے سے۔
امریکی الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد سی این این این نیٹ ورک پر، جو امریکہ کا سب سے اہم ٹی وی چینل ہے، دو تجزیہ نگار دلچسپ اور شاید چونکا دینے والی گفتگو کر رہی تھیں۔
ٹرمپ کے، جو 20 جنوری کو امریکہ کے 47 ویں صدر کا حلف اٹھانے والے ہیں، خلاف جو ابھی تک چار مقدمے دائر ہیں، ان میں سے خفیہ (ہش ہش منی) رقم کے مقدمے میں 26 نومبر کو سزا سنائی جانی ہے۔
لیکن جب یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ کیا اب یہ مقدمہ آگے بڑھے گا تو جواب ملا کہ ایسا ممکن نہیں، ’اب تو معاملات کسی اور رخ بڑھ رہے ہیں۔‘
مطلب صاف ظاہر تھا کہ پانچ نومبر کے انتخابات میں تاریخی جیت کے بعد ٹرمپ کے تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔
بلکہ ان کی جیت کے کچھ گھنٹوں بعد امریکہ کے محکمہ انصاف نے منتخب صدر کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔
آخر یہی ٹرمپ ہیں جو امریکہ کی حالیہ تاریخ کی سیاست کے شاید متنازع ترین شخص مانے گئے ہیں۔ انہیں 34 مقدمات میں مجرم ٹھہرایا گیا، انہیں بار بار عدالت حاضری لگانا پڑی۔ اس کے جواب میں انہوں نے سیاست کا ایک پر تشدد اور جنگجو طرز اپنایا۔
2020 میں صدارتی انتخاب ہارنے کے بعد انہوں نے بےانتہا مشکلات کا سامنا کیا۔ مقدمات تو ایک طرف رہے، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔
لیکن وہ ہار قبول کرنے والوں میں سے نہیں۔ وہ ہر محاذ پر لڑے، قانونی، سیاسی اور عوامی اور بالآخر عوامی طاقت کے زور پر صدر منتخب ہو گئے۔
ان کی اس تاریخ ساز، انتہائی حیران کن اور غیر متوقع جیت کے بعد سوال تو ایک ہی اٹھتا ہے، کہ آخر امریکی میڈیا تجزیہ نگار اور پولسٹروں نے امریکی ووٹروں کا موڈ درست طور پر کیوں نہیں بھانپا؟
سب یہی پیش گوئی کر رہے تھے کہ ٹرمپ اور ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ ہو گا، اور جو بھی جیتا بہت کم فرق سے جیتے گا، لیکن انتخابات کے نتائج کچھ اور ہی نکلے۔
قبل از انتخابات تجزیوں اور رائے عامہ کے جائزوں اور نتائج میں اس تضاد کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تجزیے کرنے والے کی نالائق اور نااہلی یا پھر ان کا تعصب۔
اب سبھی کا نالائق ہونا تو ممکن نہیں تو پھر تعصب ہی ٹھہرا۔ اور مزے کی بات تو یہ کہ نتائج کے بعد تمام امریکی میڈیا تجزیہ نگار روانی کے ساتھ ٹرمپ کی جیت کی وجوہات بیان کر رہے ہیں۔
سر فہرست مہنگائی کا طوفان، بےروزگاری اور قومی معیشت میں بحران، اور پھر بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ہیرس کا تعلق جو اس دوران نائب صدر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کا اسرائیل کے ساتھ مل کر اس کو اسلحہ فراہم کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی میں شامل ہونا بھی کملا ہیرس کی شکست کا باعث بنا۔
ان کے علاوہ بھی اور بھی بہت سی وجوہات اب تو فرفر بیان ہو رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر سوال تو اٹھتا ہے کہ یہ سب دانش وری جو انتخابات کے بعد ہو رہی ہے، وہ الیکشن سے پہلے کہاں تھی؟
ہمارے خیال سے تو اسے تعصب ہی کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے۔ تعصب کے ساتھ شاید امریکی اسٹیبلشمنٹ، جو ٹرمپ کو واضح طور پر ناپسند کرتی ہے، اس کا بھی کچھ ہاتھ ہو۔
پاکستان کے لیے امریکی تعلقات اہم تو ہیں ہی، اس وجہ سے پاکستانیوں کی امریکی انتخابات میں دلچسپی منطقی ہے۔
ٹرمپ کے جیتنے کے بعد اسلام آباد اور راول پنڈی پاک امریکہ تعلقات کو آگے کی سمت بڑھانا چاہتے ہیں۔
لیکن ٹرمپ کے انتخاب پر بہت گہری نظر رکھنا کچھ یوں بھی بنتا تھا کیونکہ ٹرمپ قیدی نمبر 804 کو پسند کرتے نظر آئے یا پھر کم از کم جولائی 2019 میں جب عمران خان بحیثیت پاکستان کے وزیرِ اعظم اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے وائٹ ہاؤس پہنچے تو ٹرمپ نے غیر معمولی گرم جوشی دکھائی جس کی ویڈیوز آن لائن دیکھی جا سکتی ہیں۔
ناصرف اس وقت، بلکہ بعد میں ٹرمپ تقریروں میں بھی عمران خان کا ذکر کرتے رہے اور انہیں اپنا دوست کہتے رہے۔
اب اس آٹھ سال پرانے تعلق کا امریکہ میں بسے عمران کے حامی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کس طریقے سے استعمال کرتے ہیں وہ تو وقت بتائے گا، لیکن قیدی 804 کی رکھوالے اس کے بارے میں سوچ تو رہے ہی ہوں گے۔
اور پھر کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے تقریروں اور ٹوئٹس میں عمران خان کو 2020 کے ہارے ہوئے ٹرمپ سے منفی طور پر موازنہ کرنا بھی سب کے سامنے ہے۔
پر وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اب تو ٹرمپ جیت گیا ہے اور اس وقت پاکستان میں اونچے عہدوں پہ فائز سیاست دان شاید کچھ پریشانی کا شکار ہوں، جو ٹرمپ کو مبارک بادی کے پیغامات بھیجنے میں تیزی دکھا رہے ہیں۔
کالم نگار نسیم زہرہ مصنف، تجزیہ کار اور ٹیلی ویژن اینکر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔