افریقی گروپ آف نیگوشی ایٹرز کے چیئرمین علی محمد نے آذربائیجان میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس کوپ29 کے دوران کہا ہے کہ ’2035 تک سالانہ 250 ارب ڈالر کی فراہمی کا مجوزہ ہدف پیرس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول اور ناکافی ہے۔‘
اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس کوپ 29 میں جمعے کو پیش کیے گئے نئے مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ امیر ممالک ہر سال ڈھائی کھرب ڈالر فراہم کریں تاکہ غریب ممالک کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ یہ تجویز مذاکرات میں جاری تعطل کو ختم کرنے کی آخری کوشش کے طور پر سامنے آئی۔
افریقی ممالک اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں نے اس رقم کو ’ناقابل قبول‘ اور تیزی سے گرم ہوتے کرہ ارض کے حقائق کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ سمیت امیر ممالک کا اصرار ہے کہ بڑے مالی پیکجز سیاسی طور پر حقیقت پسندانہ نہیں۔
تقریباً دو سو ممالک کے مندوبین، جو باکو میں دو ہفتے سے جاری مشکل مذاکرات کے بعد بےچینی سے میزبان ملک آذربائیجان کی نئی تجویز کا انتظار کر رہے تھے، اس مسودے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
مسودے میں 2035 تک ہر سال کم از کم 1.3 کھرب ڈالر جمع کرنے کا بڑا مجموعی ہدف مقرر کیا گیا ہے جس میں سرکاری فنڈز کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی سرمایہ کاری بھی شامل ہو گی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحول کے تحفظ کے لیے ہونے والی کانفرنس میں، جہاں ترقی پذیر ممالک کی امداد بڑھانے کے طریقوں پر اختلافات چھائے رہے، ٹھوس مالیاتی اعداد و شمار باضابطہ طور پر پیش کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترقی پذیر ممالک موجودہ وعدے، جس کے تحت امیر ممالک سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے پابند ہیں، میں نمایاں اضافہ چاہتے ہیں۔
افریقی ممالک کے مذاکراتی گروپ کے چیئرمین علی محمد نے کہا کہ ’2035 تک ہر سال 250 ارب ڈالر فراہم کرنے کا تجویز کردہ ہدف پیرس معاہدے کی تکمیل کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول اور ناکافی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہدف ’افریقہ اور دنیا بھر میں ناقابل قبول جانی نقصان کا سبب بنے گا اور ہماری دنیا کے مستقبل کو خطرے میں ڈالے گا۔‘
گلوبل سٹیزن نامی تنظیم کی کارکن فریڈریک روڈر نے کہا کہ ’250 ارب ڈالر کا ہدف ناکافی ہے۔ نہ یہ کافی بڑا ہے، نہ تیز، اور نہ ہی معیاری۔‘
گرین پیس کے جاسپر انوینٹر کے بقول: ’یہ ہدف موسمیاتی اثرات کی حقیقتوں سے دور، ترقی پذیر ممالک کی ضروریات سے کہیں کم اور انتہائی مایوس کن ہے۔‘
تاہم، امریکہ، جس کے صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں موسمیاتی سفارت کاری سے نکلنے کا امکان ہے، نے اشارہ دیا کہ وہ اس رقم کو بڑھانے کے لیے مذاکرات کے موڈ میں نہیں۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار کے مطابق: ’گذشتپ دہائی میں چھوٹے ہدف کو حاصل کرنا بھی ایک بڑی جدوجہد تھی۔ 250 ارب ڈالر کے ہدف کے لیے مزید بلند حوصلے اور غیرمعمولی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ امریکی عہدے دار کی ٹیم سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہی ہے۔
میزبان ملک آذربائیجان کا کہنا ہے کہ 250 ارب ڈالر کا ہدف مذاکرات کے دوران امیر ممالک کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کی عکاسی کرتا ہے۔
آذربائیجان نے مزید کہا کہ وہ زیر التوا معاملات سے متعلق ’آخری ترامیم‘ پر کام جاری رکھے گا۔
آذربائیجان پر دباؤ
چین سمیت 134 ترقی پذیر ممالک کے ایک مؤثر مذاکراتی گروپ نے ترقی یافتہ ممالک سے کم از کم 500 ارب ڈالر کا مطالبہ کیا ۔
لیکن بڑے فریقوں جیسے کہ یورپی یونین، کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر ہے۔
یورپی یونین یہ بھی چاہتی ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں، مثال کے طور پر چین، جو کاربن خارج کرنے والا دنیا کا سب بڑا ملک ہے، کو مجموعی ہدف میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
آمرانہ نظام رکھنے والا ملک آذربائیجان، جو تیل اور گیس کی برآمدات پر انحصار کرتا ہے، پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اتنی بڑی اور پیچیدہ مذاکراتی کانفرنس کو کامیابی سے چلانے کا تجربہ اور صلاحیت نہیں رکھتا۔
کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک کے ترجمان محمد عدو نے مسودہ جاری ہونے سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ حالیہ یادوں میں بدترین کوپ ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے برا معاہدہ ہونے سے ہہتر ہے کہ کوئی معاہدہ نہ ہو۔‘
سندرا شرما، جو پیسیفک آئی لینڈز کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک سے تعلق رکھتی ہیں، نے مذاکرات پر ’مکمل مایوسی‘ کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا: ’میں نے کبھی ایسی صدارت نہیں دیکھی۔ میں نے کبھی ایسا عمل نہیں دیکھا۔‘
یورپی یونین نے بھی آذربائیجان سے مضبوط قیادت کا مطالبہ کیا، جس کے رہنما الہام علیوف نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے مغربی ممالک پر شدید تنقید کی اور روائتی ایندھن کو’خدا کا تحفہ‘ قرار دیا۔
روائتی ایندھن پر تنازع
امدادی رقوم کے حوالے سے اختلافات کے علاوہ، کئی ممالک کو یہ تشویش ہے کہ مذاکرات کے دوران تیار ہونے والا موسمیاتی معاہدہ کوئلے، تیل اور گیس جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اہم اسباب کو ختم کرنے کی ضرورت کی عکاسی نہیں کرتا۔
گذشتہ سال دبئی میں ہونے والی کوپ 28 کانفرنس نے طویل مذاکرات کے بعد دنیا سے فوسل فیولز کے استعمال کو ترک کرنے کا تاریخی مطالبہ کیا۔
تاہم، عرب گروپ کی جانب سے بات کرتے ہوئے ایک سعودی عہدےدار نے کہا کہ یہ بلاک ’ایسا کوئی مسودہ قبول نہیں کرے گا جو کسی مخصوص شعبے، بشمول فوسل فیول، کو نشانہ بنائے۔‘
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال کے فوسل فیولز کے مطالبے کو برقرار رکھنا ’انتہائی ضروری‘ ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’ظاہر ہے کہ کچھ لوگوں کا یہاں مختلف مقصد تھا اور وہ ماضی کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں۔‘
لیکن یورپی ممالک، جیسے کہ امریکہ، میں بھی سیاسی رجحان میں تبدیلی آئی ہے جس میں غیر ملکی امداد اور سبز ایجنڈے کے خلاف مزاحمت دیکھنے میں آئی۔
اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب یہ سال پہلے ہی تاریخ کا سب سے گرم سال بننے کے قریب ہے، اور دنیا بھر میں قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
11 نومبر کو کوپ 29 کے آغاز سے ہی فلپائن اور ہونڈوراس میں جان لیوا طوفان تباہی مچا چکے ہیں۔ ایکواڈور نے خشک سالی اور جنگلاتی آگ کے باعث قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ سپین تاریخی سیلاب کے اثرات سے دوچار ہے۔