اسرائیل کے شام میں پانچ گھنٹے سے کم عرصے میں 60 سے زائد حملے

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ’پانچ گھنٹے سے بھی کم وقت میں شام کی سرزمین پر 61 فضائی حملے کیے گئے اور یہ حملے تاحال جاری ہیں۔‘

شام میں جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شام اسرائیل نے شام کے مختلف علاقوں میں چند گھنٹے میں 60 سے زیادہ فضائی حملے کیے جن میں عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

سکائی نیوز عریبیہ کے مطابق اسرائیل کے لگاتار حملے شام کی موجودہ عبوری اتحادی حکومت کے ہاتھوں صدر بشارالاسد کی حکومت کی خاتمے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کیے گئے۔

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ’پانچ گھنٹے سے بھی کم وقت میں شام کی سرزمین پر 61 فضائی حملے کیے گئے اور یہ حملے تاحال جاری ہیں۔‘

ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیلی جنگی طیارے شام کی سرزمین پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کا مخصوص ہدف پہاڑوں کے اندر موجود بیلسٹک میزائلوں کے گودام ہیں۔‘

ادارے نے وضاحت کی کہ ان گوداموں میں ’بڑے میزائل، اسلحہ، مارٹر گولے اور دیگر فوجی سازوسامان موجود ہے جسے اسرائیل تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

نگراں ادارے کے مطابق: ’آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں کی تعداد 446 تک پہنچ چکی ہے جن میں شام کے 13 مختلف صوبوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘

جنگی مانیٹر نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی حملوں نے دمشق کے قریب قلمون کے علاقے اور جنوبی صوبوں درعا اور السویدا میں  ہتھیاروں کے دیگر گوداموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل نگراں ادارے نے اطلاع دی تھی کہ دمشق کے شمال مشرقی کنارے پر برزہ کے علاقے میں ’سائنسی مرکز‘ اور دیگر عسکری مقامات کو اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تباہ کیا گیا۔

اسرائیلی حملوں نے شہر کے مضافات میں واقع ’ایک فوجی ہوائی اڈے‘ کو بھی نشانہ بنایا۔

ادھر ہیئت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی نے اسرائیلی حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کے جواز اب بے وزن ہو چکے ہیں اور اس کے حالیہ اقدامات کا کوئی جواز نہیں۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے شام میں جنگ بندی کے حدود کو واضح طور پر پار کیا ہے جس سے خطے میں غیر ضروری کشیدگی بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

ٹی وی چینل سوریا سے بات کرتے ہوئے الشرع نے کہا کہ ’شام کی جنگ اور تنازعات کے نتیجے میں پیدا شدہ نازک صورت حال نئے تنازعات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے زور دیا کہ اس وقت سب سے بڑی ترجیح تعمیر نو اور استحکام یقینی بنانا ہے، نہ کہ ایسے تنازعات میں الجھنا جو مزید تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

الشرع نے عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی اور خطے میں کشیدگی کو کم کرنے اور شام کی خودمختاری کا احترام کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صرف سفارتی حل ہی خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ فوجی اقدامات سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔

اسرائیل کی شامی اہداف پر مستقل بمباری اور قبضہ، اس خبر کی کوریج کہاں؟

اسرائیل شام پر کئی دہائیوں سے غیرقانونی حملے کر رہا ہے، عام طور پہ ان حملوں کی خبر نہ مغربی میڈیا پر ہوتی ہے اور نہ اسرائیلی میڈیا اُن کا ذکر کرتا ہے۔

لیکن پچھلے ایک ہفتے میں ان زمینی اور فضائی حملوں کی شدت نے الگ ہی انتہا اختیار کر لی ہے۔

ایک آپریشن جسے اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں نے ملکی فضائیہ کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا ہے، اس میں اسرائیل نے شام پر تقریباً 500 مرتبہ بمباری کی ہے، جس سے اس کے 80 فیصد فوجی اثاثے اور پوری بحریہ تباہ ہو چکی ہے۔

اسرائیلی فوجیوں نے اب اُس نام نہاد بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جو نصف صدی سے شام کے ایک حصے گولان ہائیٹس، جہاں اسرائیل غیرقانونی طور پر قابض ہے، کو شام کے باقی حصوں سے الگ کرتا رہا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے ان اقدامات کا مقصد شام کے فوجی سازوسامان کو ’شدت پسندوں‘ کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا اور شامی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ مغربی میڈیا یا اسرائیلی پریس پر شام کے حالات دیکھ رہے ہیں تو آپ کو شاید علم نہ ہو کہ ایک خودمختار ریاست پر بمباری کرنا، اس پر حملہ کرنا اور اس کی سرزمین پر قبضہ کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت ’غیر قانونی‘ ہیں۔

اسرائیل میں صحافتی گرو ان خلاف ورزیوں کا جشن منا رہے ہیں اور صحافیوں نے کھلے عام کہا ہے کہ اسرائیل کا اپنا نیا علاقہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مغربی میڈیا پر خبروں کی بات اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس میں لفظ ’غیر قانونی‘ تقریباً غیر موجود ہے۔

یہی لفظ روس جیسے ممالک کی طرف سے یوکرین یا کہیں اور، اسی طرح کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ میں آزادانہ اور بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کی کوریج میں تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، یہ طے ہے کہ مجرم جب اسرائیل ہو تو صحافت کا ایک مختلف معیار لاگو ہو گا، اور یہ قابل مذمت ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا