تیسرا خودکش حملہ آور کون تھا؟

دسمبر 2017 میں پشاور کے ہاسٹل میں خودکش حملہ آور گھس گئے۔ ان کے ڈانڈے کہاں سے ملتے تھے اور اس مہنگے آپریشن کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟

حملے کے بعد انسدادِ دہشت گردی اداروں کی بروقت کارروائی نے بڑے نقصان سے بچا لیا (اے ایف پی)

انڈپینڈنٹ اردو کی اس خصوصی سیریز کی پہلی قسط پیش ہے۔ اس میں سید فخر کاکاخیل نے کسی ماہر جاسوسی ناول نگار کی طرح پشاور میں 2017 میں ہونے والے خودکش حملے کی پرتیں کھولی ہیں۔ اس قسط وار کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے، اور اس کے لیے رقم کیسے فراہم ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر اس میں پولیس کے مثالی کردار کا ذکر ہے جن کے سراغ رسانوں کی اس طرح اس پیچیدہ کیس کی کڑیاں ملائی ہیں کہ ان کی محنت اور ذہانت کی داد دیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ 

یکم دسمبر 2017 کی ایک کہر آلود صبح تھی۔ پشاور شہر انگڑائی لے کر جاگ چکا تھا۔ قصہ خوانی بازار، صدر، یونیورسٹی ٹاؤن، چارسدہ روڈ سمیت پورے شہر میں لوگ دن کا آغاز کر چکے تھے اور سڑکوں پر ٹرٹراتے رکشے رواں دواں تھے۔

دسمبر کا مہینہ تھا اور پتہ نہیں کیوں یہ مہینہ اہل پاکستان کے لیےاکثر کوئی نہ کوئی بری خبر لے کرہی آتا ہے۔ جیسے بےنظیرکی ہلاکت یا ابھی چندبرس قبل آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام کی قیامت، ابھی پاکستانی اسے بھول نہیں پائے تھے۔ آج جمعہ تھا۔ دن چھوٹے تھے اس لیے لوگ صبح صبح کام جلدی نمٹا کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے فراغت چاہتے تھے۔

آٹھ بجے پشاور پولیس انسداد دہشت گردی اینٹلی جنٹس کے اہلکار بھی صبح صبح آفس پہنچ چکے تھے۔ ان کو ایک اغوا برائے تاوان کے کیس پر کام کرنا تھا۔ مانیٹرنگ روم میں کئی ٹی وی چینلوں پر صبح کی نشریات چل رہی تھیں۔ نجانے کیا ہوا کہ سردی سے ٹھٹھرتا کافی دیر سے خاموش وائرلیس یکدم چنگھاڑنے لگا، موبائل فونز کسی مندر کی گھنٹیوں کی طرح ٹن ٹن کرنے لگے اور دفتر سے گاڑیاں جلدی جلدی نکلنے لگیں۔ چند لمحوں بعد تمام تمام چینلوں کی سکرینیں بریکنگ نیوز کی پٹیوں سے لال ہو گئیں۔

خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ نامعلوم برقعہ پوش دہشت گرد ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں گھس گئے ہیں۔ پل بھر میں پاکستانی فوج کے کمانڈوز، پشاورپولیس کے جوانوں، ایدھی اور چھیپا کے رضاکاروں اور میڈیا کی ٹیموں سے اسلامیہ کالج کے سامنے یونیورسٹی روڈ بھر گیا۔ فائرنگ اور دھماکوں سے یونیورسٹی ٹاؤن کا علاقہ گونجنے لگا۔ آرمی پبلک سکول کے زخم ابھی تازہ تھے اس لیے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

فوج اور پولیس کے جوانوں کو بھی اندازہ تھا کہ جو کرنا ہے جلدی کرنا ہے، لہٰذا انہوں نے ہر طرف سے عمارت پر چڑھائی کر دی۔ فضا میں نگرانی کے لیے ایک ہیلی کاپٹر بھی پہنچ گیا۔ خبر آئی کہ ٹی وی کے ساتھی رپورٹر رحم یوسفزئی کی دوران کوریج ٹانگ زخمی ہو گئی۔ ٹی وی پر سبز رنگ کا ایک مشکوک رکشہ بار بار دکھایا جا رہا تھا۔ جس وقت ٹی وی چینل یہ کارروائی دکھا رہے تھے، حملہ آور اندر سے براہ راست اس قتل عام کی وڈیو افغانستان بھیج رہے تھے۔

کمانڈوز کی کارروائی سے محصور طلبہ کو موقعہ ملا اور وہ ایک ایک کر کے نکلنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ سارا آپریشن دو گھنٹے میں ہی ختم ہوا۔ اس دوران 13 افراد ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ بلاشبہ فورسز کی بروقت کاروائی سے نقصان کم ہوا حالانکہ تین خودکش حملہ آور بہت کچھ سوچ کر آئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہنے کو تو کام ختم ہوا لیکن پشاور پولیس، سی ٹی ڈی اور ملک کے حساس اداروں کے لیے یہ ایک طویل کہانی کا آغاز تھا۔ یہ حملہ آور کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ اور سب سے بڑھ کر اس مشن کے سہولت کار کون تھے؟ ملک کے سکیورٹی اداروں کے لیے ان سوالوں کے جوابات اہم تھے کہ جب تک یہ جواب نہ ملتے، اگلا حملہ روکنا نا ممکن تھا۔ بات صرف ان خودکش حملہ آوروں کی نہیں تھی بلکہ اس نیٹ ورک اور نظام کی تھی جو یہ کرنے کے بعد بھی موجود تھا اور اب اس کا خاتمہ تھا سب سے بڑا چیلنج۔ پولیس کے تفتیشی ریکارڈ کے مطابق یہ ساری کہانی یہاں تفصیل سے سلسلہ وار پیش کی جا رہی ہے۔

سوالات کی اس گتھی کو سلجھانے کا آغاز ہوا حملہ آوروں کی پہچان سے کہ وہ تھے کون؟

فورینزک ٹیموں نے شواہد اکٹھے کیے تو سب سے پہلے مشکوک رکشہ کو تحویل میں لیا گیا جس میں یہ برقعہ پوش آئے تھے۔ پھر حملہ آوروں کے جسم کے ٹکڑے اکٹھے کیے گئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں جو کیمرے نصب ہیں ان کا سامنا کرنے سے پہلے حملہ آور سر جھکا دیتے ہیں تاکہ پہچانے نہ جائیں۔ یہی کتنی بار ہو چکا ہے کہ آپ کو بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور کا سر مل گیا اور اسے ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے بھجوا دیا گیا، لیکن اس کے بعد کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔

دراصل اس سر کے پرخچے اڑ چکے ہوتے ہیں اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا، جبکہ ڈی این اے کا میچ ڈھونڈنے میں بھی اکثر ناکامی ہی رہتی ہے۔ پشاور پولیس نے وقت ضائع کرنے کی بجائے نادرا کی مدد لی۔ جو فنگر پرنٹ لیے ان میں سے ایک کی پہچان ہو گئی۔ سوات کے رہائشی وقار اگر خودکش حملہ نہ کرتے تو ٹھیک ایک مہینے بعد اپنی 32 ویں سالگرہ مناتے۔

ٹیم سوات بھجوائی گئی تو معلوم ہوا کہ دوسرے خودکش حملہ آور سمیع اللہ کا تعلق بھی سوات سے تھا۔ اب تیسرے حملہ آور کی تلاش تھی۔ نہ تو اس کی انگلیاں بچی تھیں نہ سر قابل شناخت تھا، تو پھر یہ تھا کون؟

عین اسی وقت کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ اور کمانڈر فاتح نے خودکش حملہ آوروں کی تصویریں جاری کر دیں جس میں وقار اور سمیع اللہ کے ساتھ تیسرا حملہ آور قاری صابر بیٹھا تھا۔ یعنی جس کی تلاش تھی، اس کا پتہ خود فضل اللہ نے بتا دیا۔

گویا حساس ادارے صحیح سمت میں جا رہے تھے۔ لیکن یہ خودکش حملہ آور افغانستان سے یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس میں رکشے کا اہم کردار ہے۔

(اس تحریر کا اگلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین