بلوچستان کے سرحدی علاقے ماشکیل میں اب تک کرونا (کورونا) وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا مگر صحت کے بنیادی مرکز میں کام کرنے والا عملہ دیگر افراد کی طرح اس بیماری سے خوف زدہ ضرور ہے۔
ضلع واشک کے علاقے ماشکیل کے ستگان بنیادی مرکز صحت میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس مرکز میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر وہ تمام مسائل بتائے، جن سے ڈاکٹروں سمیت پورا عملہ پریشان ہے۔
مذکورہ اہلکار کے مطابق: 'یہاں جو بھی شخص علاج کے لیے آتا ہے وہ ہمارے لیے کسی خود کش حملہ آور سے کم نہیں کیونکہ ہمارے پاس کرونا وائرس کے دوران طبی امداد دینے والا حفاظتی سامان دستیاب نہیں ہے۔‘
ماشکیل ضلع واشک کی ایک تحصیل ہے، جس کی آبادی 50 ہزار کے قریب ہے۔ یہاں صحت کے تین بنیادی مراکز ہیں اور یہاں ڈاکٹر سمیت عملے کے آٹھ ارکان خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تاہم حکومت کی جانے سے ان مراکز میں تاحال کرونا وائرس سے بچاؤ کے ماسک، دستانے، حفاظتی لباس اور سکریننگ آلات نہیں پہنچائے گئے ہیں۔
تحصیل ماشکیل میں ایران سے آنے والے زائرین کی تعداد تو نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ایرانی پیٹرول کا کاروبار کرنے والے سینکٹروں کی تعداد میں روزانہ خفیہ راستوں سے آتے جاتے ہیں، اس لیے یہاں وبا پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے۔
مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ 'یہاں عام دنوں میں مریضوں کی تعداد اتنی نہیں ہوتی لیکن جب سے کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہے، 50 سے 60 افراد علاج کے لیے آتے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان میں اپوزیشن جماعتیں شروع دن سے حکومت پر ایسے الزامات لگاتی رہی ہیں کہ چونکہ ایران سے غیر قانونی راستوں کا سلسلہ نہیں روکا گیا، اسی وجہ سے کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے خدشات زیادہ ہو رہے ہیں۔
مذکورہ اہلکار نے محکمہ صحت کے حکام پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ کرونا وائرس کی اس صورت حال میں ابھی تک محکمے کا کوئی افسر یا دیگر سہولت کار ان کے پاس نہیں پہنچے اور نہ ہی انہیں اس مرض کے حوالے سے کوئی آگاہی دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ماشکیل کے علاوہ سرحدی ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں بھی کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں ہے اور دیگر علاقوں میں بھی صورت حال اسی طرح ہے۔
ایک جانب تو صوبائی حکومت دعوے کر رہی ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے خصوصی فنڈ قائم کیا گیا ہے اور تمام اضلاع کو صحت کی تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم صوبے کے دور دراز علاقوں میں صحت کے بنیادی مراکز میں کام کرنے والا عملہ حکومت کے ان دعوؤں کو رد کرتا نظر آ رہا ہے۔