عربی خطاطی: ماضی کی یادوں کو زندہ رکھنے کا فن

خطاطی دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک سہی، لیکن اسلامی دنیا میں یہ فن آج بھی اتنا ہی زندہ ہے۔ ماضی کی نسبت اب اسے زیادہ تر مرنے والوں کی یادگار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ احمد تویج اسلامی خطاطی کی تاریخ کا سراغ لگاتے ہیں۔

(جاش بیرر)

وادی السلام کے پراسرار خاموش اور پیچیدہ ریتلے راستے کے دونوں طرف عربی خطاطی کے نقش و نگار سے آراستہ مدفون لوگوں کی قبروں کے کتبے دکھائی دیتے ہیں۔ جنوبی عراق کے شہر نجف میں واقع وادی السلام یا وادیِ امن دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو پوری مسلم دنیا میں مرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے والی روایتی اسلامی عربی فن خطاطی کے گہرے اداس رنگوں کا گڑھ بن چکا ہے۔

معاصر عربی خطاطی کے فنکار غالب حویلا وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’فن، حسن اور زندگی بعد از مرگ میں ایک ربط ہے۔ رسمی طور پر اسے باعث اعزاز سمجھا جاتا ہے کہ کوئی خطاط آپ کی قبر پر آپ کا نام لکھے۔‘

 نہ صرف یہ مردہ شخص کو یاد کرنے کا طریقہ ہے بلکہ خطاطی اسلامی فن کی جان بن چکی ہے جو فن تعمیر سے لے کر سکوں، کپڑوں اور زیورات پر رواں دواں خط کی صورت نمایاں ہوتی ہے۔ لیکن قبل از اسلام عرب کے بت پرستانہ ماضی سے الگ مسلمانوں کی محنت کے سبب یہ فن وجود میں کیسے آیا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لبنانی عرب خطاط اور ماہر نقاش یزان ہلوانی کہتے ہیں ’اسلام سے متاثر ہونے والے عرب کلچر میں (اسلام کی طرف سے) شبیہ سازی پر پابندی اور تجریدیت کی طرف رجحان کے باعث کچھ صدیوں تک عرب خطاط اس فن کی مسلسل مشق کرتے رہے۔ انہوں نے اس کلاسیکی فن کی تشکیل کے لیے بہت کڑے بنیادی اصول وضع کیے جس کی وجہ سے اس کی بنیاد انتہائی شاندار پڑی۔ کئی سو سال کے سفر میں یہ فن بہتر سے بہتر ہوتا گیا اور کسی بھی فن کی طرح ڈاروینی ارتقا کے نقطہ نظر کے مطابق یہ مزید بہتری کی جانب گامزن رہا۔‘

مغرب میں تجریدت کے امام پابلو پکاسو نے اس فن کے اعلیٰ معیار کو دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اسلامی خطاطی جیسا فن پہلے سے موجود ہے تو میں نے پینٹنگ کبھی شروع نہ کی ہوتی۔ میں نے فنکارانہ پراسراریت کی بلند ترین سطح کو چھو لینے کی کوشش کی لیکن اسلامی خطاطی کئی زمانے پہلے مجھ سے وہاں پہنچ چکی تھی۔‘

عرب کلچر میں شبیہ سازی کی ممانعت کے برعکس مغرب میں ہمیشہ اسے اہمیت دی گئی۔ تاریخی طور پر مغربی معاشرے میں مردہ لوگوں کو تصویر، مجمسمہ سازی یا مورتی کی صورت میں یاد کیا جاتا ہے۔ آخری رسومات میں کفن کے ساتھ رخصت ہونے والے شخص کی تصویر رکھنا ایک معمول ہے۔

ہلوانی وضاحت کرتے ہیں، ’اسی طرح قدیم مصر میں کوئی جس قدر دولت مند ہوتا اتنا ہی مزین تابوت اور حنوط کاری کی سہولت سے فیض یاب ہوتا۔ اسلامی دور میں مجسمہ سازی اور مردوں کی شبیہ پر پابندی کے بعد اسلام نے تجریدی کلچر اور ماحول کو فروغ دیا جس میں لوگوں نے تحریر اور ہندسی اشکال کو اپنا کر نکھارنا شروع کیا۔‘

 عرب ثقافت میں ایک کہاوت ہے، ’تحریر کی پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے۔‘ عرب خطاطی نے بغداد کے تین ماہرین فن کی تخلیقی صلاحیت سے پہلی اڑان بھری: عباسی دربار سے وابستہ ابن مقلہ (886-940)، طلاکار ابن البواب (961-1022) اور آخری عباسی خلیفہ کے سیکریٹری یاقوت المعتصمی (وفات 1288)۔ اکثریت کے نزدیک ابن مقلہ اس فن کے بانی ہیں جنہوں نے چھ مختلف طرز تحریر متعارف کروائے جو چھ ’قلم‘ کہلاتے ہیں اور جن پر عہد جدید کے خطاط فنی باریکیاں سیکھنے کے دوران عبور حاصل کرتے ہیں۔  

طویل مدت کے بعد عرب خطاطی نے کڑے قوانین اپنا لیے جہاں ہر حرف علم ہندسہ کے مطابق کھینچا جاتا اور اپنے اختتام میں بہت سارے نقطوں کی صورت توڑ دیا جاتا جنہیں قط کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر عربی حروف تہجی میں پہلا حرف الف خط ثلث میں ایک قط چوڑا اور تین قط لمبا ہونا چاہیے۔

ہلوانی کہتے ہیں، ’یہ خمیدہ خطوط کا مجموعہ ہے،‘ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن خمیدہ خطوط کے مجموعے میں کونسی بات خاص ہے؟ ’محنت اور مختلف تجربات کی چھاننی سے گزرنے کے بعد آپ ایسے خم کھینچتے ہیں جو پہلی نظر میں ہی بہت پرکشش محسوس ہوتے ہیں۔‘

فن کے کڑے پیمانے ممکن ہے مردہ شخص کی انفرادیت سے دور لے جائیں اور بقول ہلوانی ’ممکنہ طور پر شخصی شناخت کی نمائندگی کے بجائے ان کی موجودگی تجریدی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘ 

اسلام سے پہلے جزیرہ نما عرب زبانی شاعری کی وجہ سے مشہور تھا اور تحریر کا رواج بہت کم تھا۔ تاہم حضرت محمد کے وصال کے بعد اسلام کی مقدس کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے خطاطی کا فن پھیلنا شروع ہوا۔ عرب زبانی بیان کی وجہ سے مشہور تھے اور ان میں سے کئی مکمل نظموں اور قرآنی آیات کو یاد کرنے پر فخر کرتے تھے۔ تاہم اسلام سے پہلے مصدقہ خطاطی کے کچھ ابتدائی نمونے سبعہ معلقات کی صورت میں موجود تھے۔ یہ سات مختلف شاعروں کی نظمیں تھیں جو بعد میں اسلام کے مقدس ترین مقام بننے والی جگہ خانہ کعبہ میں لٹکی تھیں۔

ہلوانی اس پر سوال اٹھاتے ہیں: ’میں سوچتا ہوں کہ معلقات نظم کی عزت افزائی کے لیے تھے یا جن شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لیے؟‘

ہلوانی بیروت یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینیئر ہیں جو خود کو بہت اہم فنکار نہیں سمجھتے لیکن ان کے کچھ فن پاروں کے بغیر بیروت کا تصور محال ہے۔ شہر کی کچھ اہم ترین دیواریں ان کی مصوری سے آراستہ ہیں۔ 2018 میں ان کے تازہ ترین مجسمے ’یاد کا شجر‘ کی رونمائی کی گئی جو شہر کے وسط میں ایک صدی قبل کوہِ لبنان کے تباہ کن قحط میں فاقہ کشی کی وجہ سے مرنے والے دو لاکھ لوگوں کی یادگار ہے۔

درخت کے پتوں پر اس وقت کے لوگوں کے اقوال درج ہیں۔ یہ خطاطی بقول ہلوانی ’اپنی چوٹی پر جمالیات کی بہت باریک تہہ رکھتی ہے جو فن پارے اور دیکھنے والے کے درمیان پہلی نظر میں محبت پیدا کرتی ہے تاکہ وہ لاکھوں لوگوں کی موت کے صدمے کو نسبتاً آسانی سے برداشت کر سکے۔‘

قحط کی کہانی سنانے کے لیے کوئی شخص زندہ نہیں رہا، اس لیے علامتی طور پر ہلوانی نے ایک درخت کا انتخاب کیا جو گویا استعاراتی طور پر اس وقت بھی زندہ تھا اس وقت کے مرنے والے لوگوں کی عظیم الشان رواں تحریری یادیں اپنے اندر سموئے کھڑا ہے۔

اسی طرح لبنان کی نمایاں ترین تاریخی اور ثقافتی شخصیات کی یادگار کے طور پر تیار کردہ ہلوانی کی عربی خطاطی سے مزین تصاویر پورے بیروت میں پھیلی ہوئی ہیں جو عرب کلچر میں تصویر سازی پر پابندی کو براہِ راست چیلنج کرتی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ خطاطی کا ثقافتی استعمال بھی کرتی ہیں۔

لبنان کے دیہی علاقوں میں پھیلے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی پوسٹروں کی بات کرتے ہوئے ہلوانی وضاحت کرتے ہیں: ’میں نے تفرقہ انگیز سیاسی اشتہاروں کی مخالفت کے پیش نظر تصاویر بنائیں۔‘

لبنان کے گزرے ہوئے مشہور فنکار اور شاعر جیسے صباح اور خلیل جبران کی تصاویر، جو ملک بھر کے محبوب فنکار ہیں۔ ان کی تصاویر ایک ایسا فن تخلیق کرتی ہیں ’جو وہاں زندگی گزارنے والے اور آس پاس کے سبھی لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے نہ کہ فرقہ وارانہ سیاسی جماعتوں کی جو ان اشتہاروں کے ذریعے اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہیں۔‘

عرب خطاطی دنیا بھر کے عربوں کی روز مرہ زندگی میں شامل ہو کر معاصر عرب فنون اور تجارت کی بنیاد بن گئی ہے۔ عربی خطاطی کی دنیا بھر میں پزیرائی اور روزمرہ زندگی میں اس کی اہمیت کے پیش نظر انسٹا گرام اکاؤنٹ arabictypography@  بنایا گیا جس پر دنیا بھر کے عربی طرز تحریر کی تصاویر، عمارتوں کی دیواروں پر نقش نگاری سے لے کر ٹرینوں اور کاروں کی پشت پر بنے دلکش تحریری نمونے پوسٹ کیے گئے۔ اس پیج پر مواد شئیر کرنے والے پورے دنیا سے لوگ ہیں جنہوں نے #foundkhtt کے ذریعے نمایاں ہونے کی کوشش کی۔ خط عربی میں تحریر کو کہا جاتا ہے۔ پچھلے سال اکاؤنٹ نے ایک سنجیدہ قدم اٹھایا۔

 مردہ لوگوں کو عربی خطاطی کے استعمال سے یادگار بنانے کی روایت کو بروئے کار لاتے ہوئے 115,000 فالورز رکھنے والے اکاؤنٹ نے نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے حملے میں مارے جانے والے 51 لوگوں میں سے ہر ایک کا نام لکھوانے کے لیے دنیا بھر سے فنکاروں کی خدمات حاصل کیں۔

کرائسٹ چرچ کی دو مقامی مسجدوں میں ہونے والی اس بربریت نے پوری دنیا کو رکھ ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی جدید تاریخ کے سب سے بڑے عوامی قتل عام نے 51 لوگوں کو زندگی سے محروم اور دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو سوگوار کر دیا۔ اس وقت نیوزی لینڈ کی مقامی ماوری برادری کی طرف سے ہاکا کی رسومات سے دنیا بھر میں موم بتی روشن کرنے تک مختلف صورتوں میں سوگ منایا گیا۔ یہ اسلامی فن کے ذریعے مرنے والوں کے دکھ کو اپنانے کی ایک کوشش تھی۔

موریطانیہ سے تعلق رکھنے والی انسٹا گرام اکاؤنٹ کی بنیاد گزار فاطمہ موسیٰ کا کہنا ہے، ’جبکہ میرے پاس یہ سہولت تھی تو میں نے فنکاروں کو متاثرین کے نام یاد رکھنے کی غرض سے ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ بہت بڑے پیمانے پر اسے پذیرائی ملی،‘ اور میں بعض تصاویر کو دو ہزار سے زیادہ بار لائیک کیا گیا۔

 فاطمہ موسیٰ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’میرا مقصد (اس مہم کے ذریعے) سفید فام بالادستی کے بجائے لوگوں کو زیر بحث لانا اور اس عمل میں مرجھائے ہوئے چہروں پر انسانیت بحال کرنا تھا۔‘

حملہ آور کے متعلق لکھے ہوئے کئی مضامین اور اس کے ماضی کی نشان دہی کرتے ہوئے ’معصوم لڑکے‘ کے نام سے گردش کرتی سرخیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فاطمہ کہتی ہیں: ’ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں سفید فاموں کا نام سب سے پہلے خود بخود ہمارے ذہن میں آتا ہے چاہے بات کسی جرم کی ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔‘

 فاطمہ دنیا بھر کے لوگوں میں اسلاموفوبیا کا جواب دینے کے لیے بھی اکاؤنٹ کو استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’خطاطی ہمارا فن، ہمارا ورثہ ہے۔ ہم اپنے بیانیے کی ترویج کے لیے مغرب پر بھروسہ نہیں کر سکتے بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ میڈیا اور اکاؤنٹ تیار کریں۔‘

نیوزی لینڈ کے حملے کے فوراً بعد آزاد نگران گروپ ٹیل مما کے جائزے کے مطابق امریکہ میں اسلاموفوبک واقعات میں چھ سو فیصد تیزی کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں، ’ہم اپنے پلیٹ فارم کو آن لائن اسلاموفوبیا کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو قتل عام کے نتیجے میں شروع ہوا۔‘

عرب ممالک میں آج تک کسی پیارے کی موت پر سوگوار خاندان ورقۃ الراوی کے نام سے معروف اسلامی خطاطی کے اشتہار سے مقامی آبادی تک یہ خبر پہنچاتے ہیں۔ ہلوانی کے بقول ’وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں جمالیات فوت شدہ شخص کی عظمت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ ان کے لیے باعث اعزاز ہے۔‘

 مرنے والا جس قدر معزز شخص ہے اس کی قبر مختلف فنون جیسے فن تعمیر، جیومیٹری اور حسنِ توازن سے اسی قدر شاندار بنائی جاتی ہے۔ انڈیا میں مغل سلطنت کے عظیم الشان مقبرے تاج محل اور نجف میں امام علی ابن طالب کا پرشکوہ مزار اس کی مثالیں ہیں جو پیچیدہ عربی خطاطی، تعمیراتی جیومیٹری اور حسنِ توازن سے سجے ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد کے داماد امام علی کی نجف میں تدفین کی جگہ اسلام کے ابتدائی سالوں میں خدمات کے اعتراف میں 977 عیسوی میں ان کا مزار تعمیر کیا گیا۔ ایک توازن کے ساتھ نیلی، سبز اور پیلی پچکاری والی عربی خطاطی سے مزین ٹائلیں لگائی گئیں جو مضبوطی سے سونے کا شاندار گنبد تھامے ہوئے ہیں۔

عراق میں بطور صحافی کام کرتے ہوئے میں نے بغداد کے شہر کرادا کی 2016 میں خوفناک بمباری اپنی آنکھوں سے دیکھی، جس کے نتیجے میں تین سو عام شہری مارے گئے۔ اس واقعے کے کچھ ہی دنوں میں حملے کی جگہ کے اردگرد عمارتیں عربی خطاطی کے اشتہارات سے بھر گئیں۔ ان پر مرنے والوں کے نام لکھے تھے جو رشتے داروں کو آنسو بہانے اور پورے شہر کی فضا سوگوار بنانے کے لیے چسپاں کیے گئے تھے۔ یہ اس تباہی کا دائمی نوحہ تھا۔ 

ہلوانی کہتے ہیں، ’جب آپ کے خاندان میں کوئی مرتا ہے تو دکھے جذبات کے ساتھ جس قدر ممکن ہو آپ ان کو شایان شان رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ عربی خطاطی استعمال کرتے ہیں کیونکہ فن کی یہی صورت ہے جو آپ کو میسر ہوتی ہے۔‘

 ہلوانی مزید کہتے ہیں، ’یہ بہت قدیم وقتوں سے لوگوں کو داخلی سطح پر متاثر کرتی آئی ہے جس کی میں وضاحت نہیں کرسکتا۔ یہ لوگوں کو اس قدر متاثر کرتی ہے کہ وہ مردہ شخص کی یاد اس سے منسوب کر دیتے ہیں۔ میں نے کبھی اس کو ایسے نہیں محسوس کیا لیکن ایسا لگتا ہے یہ لوگوں کو اندر سے متحرک کرتی ہے۔‘

قبروں کے کتبوں پر عربی خطاطی کی ہر جنبش قلم کی سالوں پرانی تاریخ دہن میں رکھتے ہوئے جب آپ وادی اسلام سے گزرتے ہیں تو آپ ہر خاندان کی اپنے پیاروں کے لیے محبت محسوس کرنے لگتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ