انڈیا کے مصور ایم ایف حسین کی بغیر عنوان (گرام یاترا)، 14 فٹ کی شاہکار تخلیق جو انڈیا کی دیہی زندگی کے مناظر کو پیش کرتی ہے، ایک عوامی نیلامی میں فروخت ہونے والی جدید انڈین آرٹ کی سب سے مہنگی ترین تخلیق بن گئی۔
1954 میں بنائی یہ دیوارگیرپینٹنگ 19 مارچ کو نیویارک میں ہونے والی نیلامی میں ایک کروڑ 38 لاکھ ڈالر (ایک کروڑ چھ لاکھ ملین پاؤنڈ) میں فروخت ہوئی، جو اس کی تخمینہ قیمت 35 لاکھ ڈالر (27 لاکھ پاؤنڈ) سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ مذکورہ پینٹنگ نے جنوبی ایشیائی جدید آرٹ کے لیے نیا معیار قائم کر دیا۔
اس سے قبل یہ اعزاز امرتا شیر گل کی بنائی ہوئی تصویر ’دا سٹوری ٹیلر‘ (1937) کے پاس تھا، جو گذشتہ سال ممبئی میں 74 لاکھ ڈالر (57 لاکھ پاؤنڈ) میں فروخت ہوئی۔
یہ اب تک کسی جنوبی ایشیائی فن پارے کی دوسری سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اس سے زیادہ قیمت صرف 12 ویں صدی سے تعلق رکھنے والے سیاہ پتھر سے بنے بودھی ستوا مجسمے کی ہے جو 2017 میں کرسٹیز نیویارک میں دو کروڑ 46 ڈالر (ایک کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈ) میں فروخت ہوئی۔
اصل میں نارویجن سرجن اور آرٹ کلیکٹر لیون ایلیئس وولوڈارسکی نے اسے 1954 میں دہلی میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے حاصل کیا۔ بغیر عنوان (گرام یاترا) 70 سال سے زائد عرصے تک اوسلو یونیورسٹی ہسپتال کی نجی راہداری میں زیادہ تر پوشیدہ رہی، جہاں اسے 1964 میں وولوڈارسکی اسٹیٹ نے عطیہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ’دی وولوڈارسکی حسین‘ کے نام سے جانی جانے والی پینٹنگ اوسلو یونیورسٹی ہسپتال نے نیلامی کے لیے بھیجی۔ نیلامی سے ہونے آمدنی سے ایک طبی تربیتی مرکز کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
ریکارڈ توڑ فن پارے کے لیے پانچ پانچ تصاویر کے درمیان سخت مقابلہ ہوا جس کے بعد اسے کرسٹیز کے شعبہ جنوبی ایشیائی جدید اور ہم عصر فن، کے سربراہ نشاد آواری کے توسط سے نامعلوم ادارے نے خرید لیا۔
صحافی اور مصنف جان ایلیٹ نے اپنے بلاگ ’رائڈنگ دی ایلیفینٹ‘ میں لکھا ہے کہ انڈین آرٹ کلیکٹر اور مخیر شخصیت کرن نادر کے بارے میں ’ماناجاتا ہے کہ انہوں نے یہ تصویر نئی دہلی کے اپنے مشہور آرٹ میوزیم کے این ایم اے کے لیے خریدا۔‘
دی انڈپنڈنٹ نے تصدیق کے لیے کرن نادر میوزیم آف آرٹ سے رابطہ کیا۔
کرن آواری کا کہنا تھا کہ ’ہم مقبول فدا حسین کے کام اور پوری کیٹگری میں نیا معیار مقرر کرنے کے عمل کا حصہ بننے پر بہت خوش ہیں۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور جدید اور ہم عصر جنوبی ایشیائی فن مارکیٹ کے اوپر کی جانب غیر معمولی سفر جاری ہے۔‘
آواری نے بغیر عنوان تصویر (گرام یاترا) کے بارے میں کہا کہ ’یہ انڈیا میں دیہی زندگی کے 13 الگ الگ خاکوں پر مشتمل ہے، جو واقعی اہم بات ہے، کیوں کہ یہ انڈیا کی آزادی کے پانچ سال بعد کی بات ہے اور حسین اور ان کے تمام ساتھی اس وقت یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید انڈین فنکار ہونے کا کیا مطلب ہے۔‘
اس فن پارے کے ساتھ موجود تحریر کے مطابق، بغیر عنوان (گرام یاترا)، جس کا مطلب ’دیہات کی سیر‘ ہے، ’نہ صرف سب سے بڑی ہے، بلکہ شاید اسے بنانے والے مصور کی 1950 کی دہائی کی سب سے اہم پینٹنگ بھی ہے۔ یہ یادگار تصویر مقبول فدا حسین کا شاہکار ہے جس میں نئے آزاد ملک میں موجود تنوع اور سرگرمیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح گرام یاترا فن کے ذریعے قوم کی تعمیر کی ایک مثال ہے۔‘
آواری نے اسے کریئر کے دوران دیکھے گئے ’اب تک کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک‘ قرار دیتے ہوئے آرٹ نیوز کو بتایا کہ پینٹنگ کے حصول کا عمل 13 سال پر محیط ہے جس میں اوسلو یونیورسٹی ہسپتال کے بورڈ سے اس وقت اجازت لینا شامل ہے جب ادارے نے اسے بیچنے کا فیصلہ کیا۔
ایم ایف حسین، جنہیں ’انڈیا کا پکاسو‘ کہا جاتا ہے، جدید انڈین آرٹ کی سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں۔ بمبئی پروگریسو آرٹسٹس گروپ کے بانی رکن کے طور پر انہوں نے 1940 کی دہائی میں انڈین جدیدیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، جس میں انہوں نے کلاسیکی انڈین آرٹ کے اثرات کو مغربی تاثراتی ہنر کے ساتھ ملایا۔
ان کے منفرد انداز نے افسانے اور تاریخ سے لے کر دیہی اور شہری انڈیا تک کے موضوعات کو دریافت کیا۔
گاندھی، مدر ٹریسا اور رزمیہ داستانوں رامائن اور مہابھارت پر مبنی سیریز سمیت ان کے کاموں کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ ان کی کچھ بعد کی پینٹنگز میں ہندو دیویوں کی عریاں تصویر کشی کی وجہ سے تنازع پیدا ہو گیا۔ قانونی جنگوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنے کے بعد حسین 2011 میں 95 سال کی عمر میں اپنی وفات تک لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں رہے۔
رواں سال کے شروع میں انڈیا کی ایک عدالت نے مقبول فدا حسین کی دو پینٹنگز کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم ایک وکیل کی شکایت پر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ یہ تصاویر مبینہ طور پر’ناشائستہ‘ ہیں اور ’مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔‘
یہ پینٹنگز، جن میں ہندو دیوتا گنیش اور ہنومان کو عریاں خواتین کے ساتھ دکھایا گیا۔ ڈی اے جی، نئی دہلی میں نمائش کے لیے رکھی گئیں۔ قبل ازیں ڈی اے جی کو دہلی آرٹ گیلری کے نام سے جانا جاتا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے گیلری کے خلاف جان بوجھ کر اور بدنیتی سے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
گیلری نے دی انڈپنڈنٹ کو ایک بیان میں کہا کہ ’فنکارانہ آزادی پر اپنے واضح یقین کے پیش نظر، ڈی اے جی شکایت کنندہ کی طرف سے لگائے گئے کسی بھی غلط کام کے الزام کی تردید کرتی ہے، جنہوں نے سرعام دعویٰ کیا کہ وہ بنیادی طور پر مذہبی ایجنڈے کے زیر اثر ہیں۔‘
© The Independent