پاکستان کے نامور ایوارڈ یافتہ مصور اسماعیل گل جی کے دنیا سے رخصت ہونے کے 17 برس بعد ان کے صاحبزادے امین گل جی نے ان کے تخلیق کردہ فن پاروں کو جمع کرکے ان ہی کے گھر میں ایک میوزیم قائم کیا ہے۔
امین گل جی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد کی یہ خواہش تھی کہ ایک نہ ایک دن ان کا گھر میوزیم میں بدل دیا جائے۔
ان کے بقول اس میوزیم پر انہوں نے کام کا آغاز دو سال قبل کیا اور اب یہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔
گل جی میوزیم میں 13 چھوٹے بڑے کمروں میں لگ بھگ 17 شعبے ہیں جہاں مرحوم اسماعیل گل جی کے بنائے فن پارے رکھے گئے میں جن میں خطاطی، پورٹریٹ اور خاکے قابل ذکر ہیں، جبکہ موزیک کے بھی چند فن پارے ہیں۔
امین گل جی نے کہا کہ وہ شکر گزار ہیں کہ دوستوں کی مدد سے یہ کام انجام دیا ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ والد ہر وقت جیسے میرے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔‘
میوزیم میں رکھے گئے آرٹ ورک یا فن پاروں کے بارے میں امین گل جی کا کہنا تھا کہ وہ سارا کام ان کے پاس ہی محفوظ تھا، کیونکہ انہوں نے اپنے والد کے تخلیقی کام کو بیچا نہیں تھا، اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، یہ ان کے پاس ہی تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگرچہ مجھ پر کافی دباؤ تھا بہت سے افراد کی جانب سے اس کو بیچنے کے لیے، لیکن میں چاہتا تھا کہ اسے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔‘
امین گل جی ان انکشاف کیا کہ اب تک جو دکھایا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی اسماعیل گل جی کا کام موجود ہے، لیکن وہ دیکھیں گے کہ وہ کب عوام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے، البتہ ابھی اس میں وقت لگے گا۔
امین گل جی کا کہنا تھا کہ تجربات کرتے رہنا کسی بھی فنکار کی زندگی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے، اس لیے وہ تجربات کرتے تھے اور جو بھی کرتے تھے وہ خوب کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے والد کا ہرکام دیکھ لیں ان جیسے سکیچز کوئی نہیں بناتا، ان کے جیسی پینٹنگز کوئی نہیں بناتا، ان کا تمام ہی کام بہت اچھوتا ہے۔
اسماعیل گل جی کی اس کلیکشن میں نامور سیاسی اور فوجی شخصیات کے خاکے بھی ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، نصرت بھٹو، فوجی آمر ایوب خان اور ضیا الحق بھی شامل ہیں۔
اس بارے میں امین گل جی نے بتایا کہ یہ تمام خاکے ان شخصیات کو سامنے بٹھا کر بنائے گئے ہیں، وہ براہِ راست بناتے تھے، تصویر دیکھ کر نہیں بناتے تھے، اس لیے سوائے قائداعظم محمد علی جناح، اور علامہ اقبال کے خاکوں کے علاوہ تمام شخصیات کو براہ راست ہی عکس بند کیا گیا ہے۔
امین گل نے آخر میں واضع کیا کہ انہیں یہ میوزیم کھول کر دکھانا تھا جو کرلیا گیا، ابھی اس میں کام باقی ہے جسے مکمل کرکے عوام کے لیے کھولا جائے گا، جس کے بعد اسے ڈیجیٹل کرنے پر بھی غور کیا جائے گا کہ اسے ورچوئل طریقے سے بھی دیکھا جاسکے۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہیرو کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔
’اسماعیل گل جی ایک ہیرو تھے اور اگر یہ قوم اپنے ہیرو کو سیلیبریٹ نہیں کرتی تو وہ کیا کرسکتے ہیں، جب تک پاکستان اپنے ہیرو کی قدر نہیں کرے گا تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔‘