کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی شخص کو تب تک ارب پتی تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک اس کی کشتی فرانس کے شہر سینٹ ٹروپاز (جسے فرانسیسی زبان میں ساں تھوپا کہتے ہیں) پر لنگر انداز نہیں ہوتی۔
اس شہر میں کوئی بھی گھر ایک ارب روپے سے کم کا نہیں اس لیے یہاں کا ہر شخص ہی ارب پتی ہے۔ لیکن یہاں کا پہلا ارب پتی ایک فرانسیسی جنرل الارڈ تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ’فوجِ خاص‘ کا جنرل تھا۔ 20 کمروں اور 20 سویٹ پر مشتمل ان کا بنایا ہوا محل، جسے انہوں نے اپنی ہندوستانی بیوی کے نام پر ’پان دائےمحل‘ کا نام دیا تھا، اب اس شہر کا فائیو سٹار ہوٹل ہے، جہاں ہر ارب پتی ایک رات ضرور گزارنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ وہ فرانس اور پنجاب کے درمیان پروان چڑھنے والی محبت کی اس لازوال داستان کا لمس محسوس کر سکے۔ اس کی دیواروں پر اب بھی وہ پینٹنگز موجود ہیں جو جنرل الارڈ کے انارکلی والے گھر کی ہیں۔
جنرل الارڈ اور پان دائے کی کہانی کیا ہے؟ وہ پنجاب پہنچ کر رنجیت سنگھ کی فوج میں کیسے ملازم ہوئے؟ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے جس میں رومان بھی ہے، ہیجان بھی ہے اور ہجرت کا پورا جہان بھی ہے۔
جنرل الارڈ سینٹ ٹروپاز میں 1785 میں پیدا ہوئے، جو تب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ 1803 میں جب وہ 18 سال کے ہوئے تو انہوں نے نپولین کی فوج میں شمولیت اختیار کرلی جہاں ان کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نپولین نے انہیں خاص اعزاز سے نوازا۔ جب 1815 میں واٹر لو کی جنگ میں نپولین کو شکست ہوئی اور انہیں قید کر لیا گیا تو نپولین کے قریبی رفقا کو بھی نظر بند کر دیا گیا جن میں الارڈ بھی شامل تھے کیوں کہ وہ نپولین کے نظریاتی ساتھی تھے۔
تین سال بعد جب انہیں رہائی ملی تو فرانس میں نا مساعد حالات کی وجہ سے وہ اٹلی اپنے ماموں کے پاس چلے گئے، جنہوں نے انہیں نوکری کے لیے ایران کے ولی عہد عباس مرزا کے پاس حلب بھجوا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الارڈ کچھ عرصہ ولی عہد کے خصوصی دستے میں رہے مگر چونکہ وہ برطانیہ کی نظروں میں تھے اس لیے عباس مرزا نے برطانیہ کی مخالفت کے خطرے کے پیش نظر الارڈ سے معذرت کر لی، جس کے بعد انہوں نے کابل کا رخ کیا جہاں نپولین کا ایک اور جنرل وینچورا بھی موجود تھا۔ الارڈ اور وینچورا نے کابل میں رہنے کی بجائے لاہور جانا مناسب سمجھا کیونکہ اینگلو افغان جنگ کی وجہ سے کابل میں بھی خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔
ایران میں رہ کر الارڈ نے فارسی سیکھ لی تھی اور جب مارچ 1822 میں وہ جنرل وینچورا کے ہمراہ لاہور آئے تو دونوں نے رنجیت سنگھ کے وزیرخارجہ اور مشیر خاص فقیر عزیز الدین کی معرفت دربار تک رسائی حاصل کی۔ مہاراجہ اس وقت اپنی سرحدوں پر انگریز فوج کا خطرہ محسوس کر رہے تھے، اس لیے انہوں نے پنجابی فوج کو یورپی خطوط پر استوار کرنے کے لیے انہیں نعمت خداوندی سمجھا۔ دوسری جانب انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں یہ جاسوس نہ ہوں اس لیے انہوں نے کوئی فیصلہ نہ کیا لیکن حکم دیا کہ انہیں لاہور سے نکلنے نہ دیا جائے۔
تین مہینے ان کا مشاہدہ کرنے اور کافی سوچ بچار کے بعدرنجیت سنگھ نے ان کو ملازمت پر رکھ لیا دونوں کی تنخواہ 2500 روپیہ ماہانہ رکھی گئی۔ جنرل ونچورا کو پیدل فوج اور جنرل الارڈ کو رسالہ کا جرنیل بنایا گیا۔ فوج میں شمولیت پر رنجیت سنگھ تمام غیر ہندوستانی افراد سے حلف لیتے تھے کہ وہ یورپی طاقت کے حملے کی صورت میں پنجاب کے وفادار رہیں گے، دربار کی اجازت کے بغیر وہ کسی یورپی حکومت کے ساتھ خط و کتابت نہیں کریں گے اور انہیں داڑھی رکھنی ہوگی، وہ گائے کا گوشت نہیں کھائیں گے، تمباکو نوشی نہیں کریں گے اور اگر شادی کریں گے تو ہندوستانی عورت کے ساتھ کریں گے۔
جنرل الارڈ نے 40 ہزار پنجابی فوج کو تربیت دی اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا۔ ان کی تربیت اتنی سخت جان تھی کہ کئی فوجی بھاگ جاتے تھے، انہوں نے کمانڈوز پر مشتمل ایک پلٹن خاص اور دوسری گورکھا پلٹن قائم کی، جن کی تعریف برطانوی جنرل ایڈورڈ نے بھی کی کہ یہ ایشیا کی سب سے بہترین فوج ہے۔ 1825 میں پشاور اور ڈیرہ جات میں اور پھر 1827 سے 1830 کے درمیان سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کے خلاف انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
جمرود پر افغان بادشاہ دوست محمد کے حملے میں خالصا فوج کے سربراہ ہری سنگھ نلوہ مارے گئے تو اس کے بعد جنرل الارڈ نے ہی پشاور کی حفاظت یقینی بنائی۔ وہ ہمالیہ سے ملتان تک انگریز فوج کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔ وہ جب تک زندہ رہے انگریز فوج پنجاب میں داخل نہیں ہو سکی۔ انہوں نے پنجابی فوج کی وردی نپولین کی فوج کی طرز پر بنوائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جنرل الارڈ پر اس حد تک اعتبار کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے کمانڈو دستے کی سالاری جنرل الارڈ کو دی جس کی تعداد چھ ہزار تھی۔ جنرل الارڈ مہاراجہ کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں تھے۔
مہاراجہ اور جنرل الارڈ کی قربت اس وقت رشتہ داری میں بدل گئی جب مہاراجہ نے اپنی رشتہ دار اور چمبا کے راجہ مینگا رام کی 12 سالہ بیٹی بانو پانڈے سے جنرل الارڈ کی شادی کرا دی۔ مارچ 1826 میں ہونے والی یہ شادی دراصل اس دور میں شاہی خاندانوں میں دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے والی ایک شاہی روایت کا تسلسل تھی۔ بانو پانڈے جسے فرانسیسی میں پان دائے کہتے ہیں، 1814 میں پیدا ہوئیں اور محض 12 سال کی عمر میں بیاہی گئیں۔
اگلے آٹھ سالوں میں ان سے جنرل الارڈ کے سات بچے ہوئے۔ پان دائے شہزادی تھیں۔ وہ پوری مشرقی تہذیبی روایت کے ساتھ جنرل الارڈ کے گھر آئیں تو مغرب کے اس جرنیل کے دل کو ایسی بھائیں کہ انہوں نے فارسی میں پان دائے کی محبت میں نظمیں تک لکھ ڈالیں۔
الارڈ کی پہلی شادی سے ایک بیٹی میری شارلٹ تھی، جو انہیں بہت عزیز تھیں، جسے انہوں نے اپنے پاس ہندوستان بلوا لیا۔ میری شارلٹ فرانس میں ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی مگر دوسری طرف وہ باپ تھا جس کی اس نے آٹھ سال سے شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ شارلٹ ہندوستان آنے سے پہلے ایک راہبہ سے ملی جس نے اسے بتایا کہ تمہیں محبت نہیں ملے گی، ہندوستان میں موت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ یہی ہوا وہ ہندوستان آئی مگر پانچ اپریل 1827 کو اچانک انتقال کرگئی۔
جنرل الارڈ کو ان کی اچانک موت کا ازحد صدمہ ہوا اور انہوں نے 48 کنال کے احاطے میں مغل شہزادیوں کی طرح اپنی بیٹی کی قبر پر شاندار مقبرہ بنوایا اور شاندار باغ لگوایا جسے لاہور میں آج بھی کڑی باغ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ الارڈ اپنی بیٹی کی اچانک موت پر سخت صدمے کا شکار ہوئے اور انہیں محسوس ہونے لگا کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ان کی نوجوان بیوی کو بھی ان کے ساتھ ستی کر دیا جائے گا، اس لیے انہوں نے 1834 میں اپنی بیوی بچوں کو فرانس منتقل کرنے کا پروگرام بنایا۔ جنرل الارڈ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اجازت لی کہ وہ فرانس میں اپنے بچوں کی تربیت عیسائی کے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔
مہاراجہ راضی نہیں تھے، انہیں خدشہ تھا کہ الارڈ واپس نہیں آئیں گے، تاہم الارڈ نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف واپس آئیں گے بلکہ فرانس سے جدید ہتھیار اور انگریزوں کے خلاف فرانسیسی بادشاہ کی مدد کا پروانہ بھی لائیں گے، جس پر مہاراجہ نے جانے کی اجازت دے دی۔
جنرل الارڈ جب فرانس گئے تو ان کی آؤ بھگت شاہی مہمان کے طور پر کی گئی۔ فرانس میں الارڈ اور پان دائےکی شادی کی رسومات مذہبی طریقے سے چرچ میں ادا کی گئیں۔ الارڈ نے فرانس میں پان دائےکے لیے ایک عالی شان محل بنوایا جس میں نہ صرف ہندوستانی طرز تعمیر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا بلکہ اس میں ہندوستان سے لائے گئے فن مصوری کے شاہکار بھی آویزاں کیے گئے۔ اس دور میں یہ سینٹ ٹروپاز کا سب سے شاندار محل تھا۔ جنرل الارڈ نے دسمبر 1835 میں فرانس کو الوداع کہا اور پھر دوبارہ وہ اپنے خاندان کو دیکھ نہیں سکے۔
1838 میں انہیں پشاور میں جنرل اوتیبل کی مدد کے لیے بھیجا گیا، جہاں 23 جنوری 1839 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ مہاراجہ چونکہ خود بھی بیمار تھے اس لیے انہیں یہ افسوسناک خبر نہیں دی گئی۔ ان کی لاش لاہور میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لائی گئی۔ پشاور سے لاہور تک ہر فوجی چھاؤنی میں انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا۔ جب ان کی لاش لاہور پہنچی تو شاہدرہ سے انارکلی تک تمام راستے میں فوجی کھڑے تھے جنہوں نے فائرنگ کر کے اپنے بہادر جرنیل کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہیں کڑی باغ میں وہیں دفن کیا گیا جہاں ان کی دو بیٹیاں دفن تھیں۔
ادھر فرانس میں پان دائےکو ایک ہندوستانی شہزادی اور جنرل الارڈ کی بیوی ہونے کی حیثیت سے خصوصی رتبہ حاصل تھا اور وہاں کی اشرافیہ میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب انہیں جنرل الارڈ کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوئیں۔ وہ بہت کھوئی کھوئی رہنے لگیں۔ ذہنی سکون کے لیے وہ چرچ جانے لگی اور پھر عیسائیت قبول کرکے رومن کیتھولک فرقے میں داخل ہوگئیں۔
فرانس کے بادشاہ اور ملکہ نے انہیں ایک خصوصی تقریب میں اپنی بیٹی کا خطاب دیا، جس میں جنرل الارڈ کے دوست جنرل ونچورا بھی تشریف لائے۔ 25 جولائی 1845 کو پان دائے کی چھوٹی بیٹی فلس، جن کی عمر دس سال تھی، فوت ہو گئیں۔ اپنے خاوند اور بیٹی کی پے در پے موت کے صدموں کی وجہ سے پان دائےکا دل اب اس محل میں نہیں لگتا تھا، جس کے ایک ایک پتھر پر جنرل الارڈ کی یادیں نقش تھیں۔ وہ ساحل سمندر پر بنے ایک اور گھر میں منتقل ہو گئیں جہاں باقی عمر انہوں نے جنرل الارڈ کو یاد کرکے گزار دی۔
کہتے ہیں کہ وہ روزانہ شام کو ساحل سمندر پر بیٹھ جاتیں اور آتی جاتی لہروں سے سوال کرتیں کہ کسی نے جنرل الارڈ کا جہاز سمندر میں ہندوستان سے آتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب کوئی جواب نہ آتا تو سر شام آنسوؤں کی مالا لیے لوٹ جاتیں اور پھر ساری رات سمندر کی طرف کھلی ہوئی کھڑکیوں میں بیٹھے تارے گنتے گزار دیتیں۔ وہ چاہتیں تو ہندوستان لوٹ سکتی تھیں مگر الارڈ کی خواہش کے مطابق انہوں نے بچوں کی پرورش عیسائی طریقے سے کی۔ ان کے بچوں کی شادیاں فرانسیسی اشرافیہ کے خاندانوں میں ہوئیں۔ بالآخر 13جنوری 1884 کو سینٹ ٹروپاز میں ہندوستان کی یہ بے چین روح پرواز کرگئی مگر ان کے مقبرے پر جانے والے محبت کا وہ کرب محسوس کرتے ہیں جو لاہور سے فرانس تک پھیلا ہوا تھا۔
فرانسیسی حکومت نے شہر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ، جنرل الارڈ اور پان دائے کے مجسمے نصب کیے ہیں۔ پان دائے ہوٹل میں نصب وہ تاریخی پینٹنگ بھی سیاحوں کا دل کھینچتی ہے جس میں انار کلی میں واقع گھر میں جنرل الارڈ اپنے خاندان کے ساتھ موجود ہیں۔ سینٹ ٹروپاز میں الارڈ خاندان کی اب پانچویں نسل رہتی ہے۔ ان کا لکڑ پوتا ہنری پرووسٹ الارڈ شہر کا ڈپٹی میئر بھی رہ چکا ہے۔ وہ فرانسیسی میں لکھی گئی تین کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جس میں سے ایک کتاب جنرل الارڈ پر بھی ہے۔
محبت کی اس لازوال داستان نے لاہور میں جنم لیا مگر یہاں کسی کو نہیں معلوم کہ ’کڑی باغ‘ کی کیا کہانی ہے؟ مقبرہ انار کلی جہاں آج پنجاب کا سول سیکرٹیریٹ ہے، اسے فرانسیسی جنرل لارڈ اور ان کی بیوی پان دائے کے لیے بنایا گیا تھا۔
فرانس والے لاہور میں جنم لینے والی محبت کی اس داستان کو دنیا بھر کے ارب پتیوں کو بیچ رہے ہیں اور ہم یہ جانتے تک نہیں کہ اس داستان کا تعلق لاہور سے ہے۔