شمی کپور کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ محبت میں یہ مقام آئے گا، انہوں نے زندگی میں کبھی بھی سوچا نہیں تھا۔
کئی فلموں میں رومانی مناظر عکس بند کراتے کراتے وہ اس فن میں ماہر ہو چکے تھے۔ دل کی وادی میں پیار کا پھول کیسے کھلتا ہے، وہ بیشتر فلموں کی ہیروئنوں کے سامنے اس کا اظہار دل کی ہی گہرائیوں سے پیش کر چکے تھے لیکن حقیقی زندگی میں محبت کی راہ پر چلنا اس قدر دشوار اور مشکل ہو گا، یہ ان کے تصورات سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو رہا تھا۔ کئی بار گیتا بالی کو راتوں کی نیند اڑنے کا سبب بیان کر چکے تھے، مگر ہر مرتبہ ناکامی اور نامرادی کی ٹھوکر کھا نے کے باوجود ان کے اندر پیار کاجوار بھاٹا اور ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ ہوٹل کے کمرے کی گیلری میں گیتا بالی کے مقابل تھے، جنہوں نے شمی کپور کے اظہار محبت کے جواب میں ان سے ایک فرمائش کی تھی، ایسی خواہش جسے سن کر وہ شش و پنج کا شکار تھے۔ دل و دماغ ان گنت خدشات کی آندھیاں چل رہی تھیں۔
شمی کپور اور گیتا بالی نے 1955 میں پہلی بار فلم ’مس کوکا کولا‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ شمی کپور جو اپنے وقت کی شہرت یافتہ اداکاراؤں کے ہیرو رہے تھے، جن کی اداؤں پر ہر نازنین فدا ہوتی تھی۔ لیکن شمی کپور کو سادگی کا پیکر گیتا بالی پہلی ہی نگاہ میں ہی بھا گئیں۔ ان کے دل کا پنجھی بار بار پنجرے سے نکل کر گیتا بالی کی طرف اڑا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلمی تقریبات میں جب شمی کپور کی گیتا بالی سے ملاقات ہوتی تو نجانے کیسے من ہی من میں ان کے جل ترنگ بج اٹھتے، ان تقریبات میں اُن کی نگاہیں بس گیتا بالی کے تعاقب میں رہتیں۔ گیتا بالی کی شخصیت کے سحر سے وہ نکل نہیں پا رہے تھے اور پھر ایک روز انہیں اندازہ ہو گیا کہ اس بے قراری اور بے تابی کا دوسرا نام محبت ہے، جو انہیں گیتا بالی سے ہو گئی تھیں۔
شمی کپور کو جو خوف ستاتا تھا، وہ سب سے پہلے تو ان کے گھر والوں کے بارے میں تھا۔ کیا کپور خاندان گیتا بالی کو بہو کے طور پر قبول کر لے گا؟ اس گھرانے کے نزدیک اس وقت صنف نازک کا فلموں میں کام کرنا ناپسندیدہ عمل تھا۔
شمی کپور اس بات سے بھی واقف تھے کہ جسے وہ اپنے دل اور گھر کی ملکہ بنانے والے ہیں، وہ ان کے والد پرتھوی راج کپور کے ساتھ 1952 میں آنے والی فلم ’آنند ماتھ‘ میں کام کر چکی تھیں۔ یہی نہیں گیتا بالی تو 1950 میں نمائش پذیر ہوئی فلم ’باورے نین‘ میں شمی کپور کے بڑے بھائی راج کپور کی ہیروئن بھی بنی تھیں۔ اب ایسے میں بھلا کیسے کپور خاندان گیتا بالی کو بہو کے روپ میں قبول کر لیتا، یہی سوچ کر وہ پریشان رہتے۔ مگر شمی کپور نے بھی فیصلہ کر لیا تھا، چاہے کچھ ہو جائے، خاندان کتنی ہی مخالفت کرے شادی خود سے ایک سال بڑی گیتا بالی سے ہی کریں گے۔ وہ اس پیار کو پانے کے لیے ہر آزمائش سے گزرنے کی ٹھان چکے تھے۔
اسی دوران گیتا بالی اور شمی کپور پھر ایک ساتھ فلم ’رنگین راتیں‘ کا حصہ بنے، جس میں گیتا بالی مختصر سا کردار ادا کر رہی تھیں، لیکن عکس بندی کے دوران شمی کپور اور گیتا بالی ایک دوسرے سے قریب آتے گئے۔ جب ذرا سی بھی فرصت ملتی شمی کپور، گیتا بالی کے ساتھ محفل جما لیتے۔
کئی بار انہوں نے دبے لفظوں میں گیتا بالی کو بتایا بھی کہ وہ انہیں پسند کرنے لگے ہیں اور پھر بات اس سے آگے کچھ اس طرح بڑھی کہ شمی کپور، گیتا بالی سے شادی کرنے کا برملا اظہار بھی کردیا لیکن گیتا بالی کا جواب یہی ہوتا کہ فی الحال ایسا انہوں نے سوچا نہیں، اور ہنس کر وہ شمی کپور کی بات کو ٹال جاتیں۔
ایک اور دن عکس بندی جلدی ختم ہو گئی تو دونوں واپس ہوٹل آئے۔ 23 اگست 1955 کی خنکی بھری رات تھی۔ آسمان پر ستارے جھلما رہے تھے اور شمی کپور کے دل میں ارمانوں کے جگنو۔ گیلری میں بیٹھ کر ہی ایک مرتبہ پھر انہوں نے لرزتے کاپنتے ہونٹوں کے ساتھ اپنی پرانی خواہش کو بیان کیا۔ ’ہاں یا نہ‘ کے انتظار میں چند سکینڈ بھی ان پر صدیاں بیتنے کے برابر ہو گئے تھے۔
گیتا بالی نے بغور شمی کپورکو دیکھتے ہوئے انہیں اس بار ٹالنے کے بجائے کہا، ’ٹھیک ہے، لیکن ابھی اور اسی وقت شادی کرتے ہیں، ورنہ پھر کبھی نہیں۔‘
گیتا بالی نے اب گیند شمی کپور کے کورٹ میں ڈال دی تھی۔ گیتا بالی کا جواب سن کر شمی کپور کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئیں۔ جانتے تھے کہ والد اور بھائی کو اعتماد میں لیے بغیر اس شادی پرکیا ہنگامہ برپا ہو سکتا ہے، لیکن وہ کسی صورت ناکام اور لاچار بننے کو تیار نہیں تھے۔ یہ بالکل کوئی فلمی منظر ہی تھا۔ شمی کپور سماج کی دیوار کو ڈھانے کا اٹل فیصلہ کر چکے تھے۔
رات کا پہلا پہر تھا، اب مسئلہ یہ تھا کہ کیسے اس تعلق کو فوری طور پر رشتے میں بدلا جائے۔ ڈر یہ بھی تھا کہ گیتا بالی کا موڈ بدل گیا تو شادی کرنے کا ہاتھ آیا نادر موقع ضائع نہ ہو جائے۔ جبھی انہوں نے جانی واکر کو فون ملایا اور بتایا کہ وہ گیتا بالی سے شادی کرنے جا رہے ہیں، کیا کریں؟
جواب ملا کہ مندر کا رخ کریں، بھاگم بھاگ دونوں جنوبی بمبئی کے مندر پہنچے، جہاں لگا تالا ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ قریبی کمرے میں سوئے پجاری کو اٹھایا گیا۔ جس نے یہی کہا کہ شادی کرنی ہے تو کل صبح سویرے آنا۔ شمی کپور نے گیتابالی کی جانب دیکھا، جن کے چہرے پرمعنی مسکراہٹ تھی۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ آج نہیں تو کل صبح ہی سہی۔
یہ رات شمی کپور کے لیے بھاری بنتی جا رہی تھی، وہ گھڑیال کی طرف متواتر دیکھ رہے تھے۔ انتظار تھی کہ کسی طرح سورج کی پہلی کرن روشن ہو۔ کبھی اس کروٹ تو کبھی اس کروٹ، بس وہ پہلو بدلے جارہے تھے۔ نیند تو کوسوں دور تھی، صبح ہوتے ہی دونوں نے مندر کی جانب دوڑ لگا دی۔
گیتا بالی عام سی شلوار قمیض میں تھیں جبکہ شمی کپور نے کرتا پاجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ شاد ی کی رسم انجام دی گئی۔ دل چسپ صورت حال تو اس وقت پیش آئی جب گیتا بالی نے ہینڈ بیگ سے لپ اسٹک نکال کر شمی کپور کی جانب بڑھائی اور کہا کہ اس سے ان کی مانگ بھریں۔ شادی کے بعد دونوں کی منزل اب کپور خاندان کے گھر کی تھی۔
شمی کپور ذہنی طور پر ہر سوال اور ہر مخالفت کے لیے تیار تھے۔ گھر آنے کے بعد سب سے پہلے دادا کے پاس گئے۔ جن پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ شمی کپور نے ایک اداکارہ سے شادی کر لی ہے۔ اس کے باوجود صرف انہوں نے ہی نہیں پرتھوی راج کپور اور دیگر افراد نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گیتا بالی کا استقبال کیا۔
بعد میں اس شادی کی خوشی میں باقاعدہ فلمی دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ شمی کپور اور گیتا بالی دو پیارے سے بچوں کے والدین بھی بنے لیکن پھر 1965میں گیتا بالی چیچک کی بیماری کا ایسا شکار ہوئیں کہ صرف 34 سال میں زندگی ہار بیٹھیں۔
شمی کپور اور گیتا بالی کا ساتھ کم و بیش دس سال کا رہا اور ’یاہو ہیرو‘ ان برسوں کو اپنی زندگی کے یادگار قرار دیتے ہیں۔ گیتا بالی کی محبت اور پھر انہیں کھو جانے کے بعد شمی کپور خاصے اداس ہو گئے تھے۔ فلموں اور تقریبات میں جانا چھوڑ دیا تھا، جن کے لیے دو معصوم بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
گھر والوں کا اصرار بڑھا تو آخر کاروہ بہن کی سہیلی نیلا دیوی کے ساتھ 27 جنوری 1969 کو پھر سے سہرے کے پھول کھلانے پر مجبور ہو گئے۔