’مرزا جٹ‘ کی شاندار کامیابی دیکھتے ہوئے اس کے ہیرو اعجاز درانی کے ذہن میں ایک اور خیال آیا جس نے بعد میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
خیال یہ تھا کہ کیوں نہ پنجاب کی ایک اور لوک داستان ہیر رانجھا کی کہانی پر فلم بنائی جائے، جس کے ہیرو وہ خود ہوں، اور ہیروئن فردوس، اور موسیقی خورشید انور کی ہو۔
لیکن ایک ہمالیہ جتنا مسئلہ سر اٹھا کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس فلم میں ہیر کے لیے صرف اور صرف میڈیم نور جہاں ہی اپنی آواز دے سکتی تھیں، مگر میڈم نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اعجاز فلم کے ہیرو اور پروڈیوسر ہونے کے ساتھ ساتھ میڈم کے شوہر اور ان کی تین بچیوں کے باپ بھی تھے، مگر پچھلے کچھ عرصے سے انہوں نے اس دور کی الہڑ مٹیار کہلائی جانے والی اداکارہ فردوس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں تھیں، اور اب یہ خبر اخباروں تک بھی پہنچ گئی تھی جو مرچ مسالے لگا کر اسے شائع کر رہے تھے۔
میڈیم کی مشکل یہ تھی کہ وہ کس دل سے اس خاتون کی پسِ پردہ آواز بنتیں جس کے بارے میں وہ سمجھتی تھیں کہ وہ ان کے شوہر کو چھین کر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے؟
’مزرا جٹ‘ کی کہانی پنجاب کی مشہور لوک داستان مرزا صاحباں پر مبنی تھی۔ اسی داستان پر اس سے پہلے بھی کئی بار فلمیں بن چکی تھیں لیکن اس بار احمد راہی کے مکالمے، سکرپٹ، گیت اور مسعود پرویز کی ہدایت کاری نے جس انداز میں لوک کلچر کی عکاسی کی، اس نے اعجاز کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے مسعود پرویز کو ایسی ہی فلم ’ہیر رانجھا‘ کی لوک داستان پر بنانے کی تجویز پیش کی۔ اس کے بعد احمد راہی کو تیار کیا گیا کہ ان کے بغیر یہ مرحلہ کسی صورت ممکن ہی نہ تھا۔
پنجابی سینیما کی تاریخ سے احمد راہی نکال دیے جائیں تو پیچھے چند گیت اور ڈھیر ساری شرمندگی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ نور جہاں کی آواز کے علاوہ اعجاز کا ایک اور دردِ سر بھی تھا۔ ’مرزا صاحباں‘ کے لازوال موسیقار رشید عطرے فوت ہو چکے تھے، اب ان کی جگہ کون سنبھالے؟
اس سوال کا ایک ہی جواب تھا، خواجہ خورشید انور۔ لیکن خواجہ صاحب اس وقت تک کسی ایک بھی پنجابی فلم کے موسیقار نہ بنے تھے۔ احمد راہی کی حیثیت یوں بھی کلیدی تھی کہ خواجہ خورشید انور کو رضا مند کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ خواجہ صاحب پر ایک یہ فقرہ بھی اچھالا جاتا رہا کہ پنجابی ہو کر بھی اس لیے پنجابی فلم کی موسیقی نہیں دیتے کہ یہ آہنگ نبھانا ان کے بس کی بات نہیں۔ خواجہ صاحب نے ایک ہی ہلے میں احمد راہی کو خوش اور مخالفین کو خاموش کرنے کی ٹھان لی اور اس طرح ’ہیر رانجھا‘ کا آغاز ہوا۔
اعجاز اس فلم کے پروڈیوسر تو تھے ہی لیکن فردوس کے ساتھ رانجھے کا کردار بھی انہیں ہی ادا کرنا تھا۔ ایک کردار، جو پس پردہ بھی وہ نہایت کامیابی سے نبھاتے چلے آ رہے تھے۔ دراصل ’مرزا جٹ‘ سے ہی فردوس اور اعجاز میں قربت بڑھنے لگی تھی۔ فردوس کی شادی ہو چکی تھی لیکن 1967 میں اکمل کی اچانک موت سے اعجاز کو ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔ اعجاز کا اپنا معاملہ بھی سیدھا ہونے کے بعد اب ٹیڑھا ہو چکا تھا۔
اعجاز کی شادی ملکہ ترنم نور جان سے 1959 میں ہوئی۔ ان کی تین بچیاں بھی تھیں لیکن اب ایک دوسرے کے لیے اٹھتے گرم جذبات آہ سرد میں ڈھل چکے تھے۔ ابتدا میں میڈیم نے کوشش بھی کی کہ یہ معاملہ سیدھا ہو جائے لیکن اعجاز کا دل بھی فردوس کی منزل میں اٹکا ہوا تھا۔
60 کی دہائی کے اخیر میں جب ’ہیر رانجھا‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی اس وقت اخبارات میں ایک صفحے پر نور جہاں اور یحییٰ خان کے درمیان تعلقات کی خبریں ہوتیں تو دوسرا صفحہ فردوس اور اعجاز کے احوال سے رنگین ہوتا۔ بلکہ بعض اوقات تو اخبار ایک ہی صفحے پر اوپر نیچے ان دو متوازن کہانیوں کی نئی لچھے دار تفصیلات رقم کر دیتے۔
میڈم نے جذبات میں آ کر ’ہیر رانجھا‘ کے گیت گانے سے انکار کر تو دیا، لیکن وہ صرف ایک عورت ہی نہیں، بلکہ بھرپور پروفیشنل بھی تھیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ خواجہ خورشید انور موسیقار ہیں تو انہیں لگا کہ ضرور نئے تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، اس لیے وہ ذاتی جذبات کو پسِ پشت ڈال کر فلم کے گیت گانے کے لیے تیار ہو گئیں۔ یوں پورے فلم یونٹ کی سانسیں بحال ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرا ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ میڈیم کی آواز کے بغیر کیا ہیر اتنی عمدگی سے اپنے جذبات کا اظہار کر پاتی؟ میڈیم کی آواز میں پنجاب کی وہ پوری تہذیب کسی آبشار کی صورت بہتی محسوس ہوتی ہے جو اس فلم کی جان ہے۔
جلال پور جٹاں میں پیدا ہونے والے اعجاز کو پہلا بریک 1956 میں فلم حمیدہ کے ایک چھوٹے سے کردار کی صورت میں ملا۔ 1969 میں ریلیز ہونے والی ریاض شاہد کی فلم ’زرقا‘ پاکستانی سینما کی تاریخ میں پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جس کے مرکزی کرداروں میں اعجاز شامل تھے۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں ’دوستی،‘ ’دیا اور طوفان،‘ ’بہن بھائی‘ اور ’شعلے‘ شامل ہیں۔ ان کے اردو تلفظ پر تنقید بھی کی گئی لیکن برابر فلمیں کامیاب ہوتی رہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ پنجابی فلموں کے کردار ان پر خوب جچتے تھے۔ وہ لوک کہانیاں کے بے مثل اداکار تھے اور ایسے کردار انہوں نے ہی سب سے زیادہ کیے۔ ان میں جیسی شہرت ہیر رانجھے میں بطور رانجھا انہیں ملی اس کی مثال نہیں۔
فردوس کے سامنے آتے ہی ان کی آنکھوں میں ان گنت جذبات تیرنے لگتے اور فلم بینوں کی نبضیں رکنے لگتیں۔ مزید غضب احمد راہی کے بول اور خورشید انور کی موسیقی ڈھاتی ہے۔ کسی پنجابی مٹیار نے ہیر کا کردار ادا کیا تو فردوس نے کیا اور کسی ہیرو نے رانجھا بننے کا حق ادا کیا تو وہ اعجاز تھے۔ فردوس کی انتقال کو ابھی دو مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ اعجاز بھی اسی راستے پر چل پڑے جہاں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن یہ اندھیرا اعجاز کو نگل نہیں سکتا کہ وہ ہماری یادداشتوں میں ویسے ہی زندہ رہیں گے جیسے محبت کی داستان میں رانجھا۔