1970 میں بننے والی پاکستان کی مشہور زمانہ فلم 'ہیر رانجھا' میں مرکزی کردار ادا کرنے والی فردو بیگم بدھ کو 75 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔
فردوس بیگم کو دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب پیر کو لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور وہ کوما میں تھیں۔
فردوس بیگم کا اصل نام پروین تھا۔ انہوں نے ایک کلاسیکل ڈانسر کی حیثیت سے اپنے فلمی کریئر کاآغاز 1963 میں فلم 'فانوس' سے کیا، جس کے بعد انہوں نے 'خاندان'، 'ملنگی'، 'لائی لاگ اور عورت' میں کام کیا۔
فردوس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں شہرت فلم 'ہیر رانجھا' سے ملی، لیکن حقیقت یہ کہ وہ سلور سکرین پر اس سے کہیں پہلے سے ہی اپنا جادو جگا رہی تھی۔ 1965 میں جب وہ فلم 'ملنگی' میں بطور ہیروئین جلوہ گر ہوئیں تو سلور سکرین پر چھا گئیں اور وہیں سے ان کے کامیاب فلمی کریئر کا آغاز بھی ہوا۔فلم ملنگی کا گانا 'ماہی وے سانوں پل نہ جاویں'آج بھی سنا جاتا ہے، جسے ملکہ ترنم میڈم نور جہاں نے اپنی آواز دی۔
فردوس بیگم کے قریبی دوست ڈاکٹر عمر عادل جو بیشتر ٹی وی پروگراموں میں بطور میزبان فردوس بیگم کا انٹرویو بھی کر چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'دور سے کسی بھی فلمی ستارے کو دیکھنا یا اس کا پرستار ہونا کسی تصویر کا عاشق ہونا ہے، مگر جب آپ تصویر کی جگہ ایک مجسم انسان کو جاننا شروع کر دیں تو پھر اس کے دنیا سے چلے جانے کی تکلیف کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ فردوس بیگم کا جانا میرے لیے ایک ذاتی دکھ کی حیثیت رکھتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ فلموں میں کام کرتی تھیں تو خود کو ہر کردار میں ڈھال کر کامیاب ہو جاتی تھیں۔ اسی طرح زندگی کے ہر رشتے میں بھی وہ خود کو ڈھال کر کامیاب ترین خاتون تھیں۔ 'ماں تھیں تو بہترین، بہن تھیں تو اپنے بھائیوں کے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو بھی پال پوس کر بڑا کیا، ساس تھیں تو ان کی بہوئیں ان کی اچھائی کی قسم کھاتی ہیں۔'
بقول عمر عادل: 'میرے ساتھ ان کا تعلق ایک دوست جیسا تھا، ویسے تو وہ مجھ سے بڑی تھیں، میری والدہ کی عمر کی تھیں، مگر انہوں نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں ان سے کسی طرح بھی چھوٹا یا حقیر ہوں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میں نے ان کے عروج کا دور بہت اچھی طرح دیکھا ہوا تھا۔ ان سے بات کرنا بہت آسان تھا۔ کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ میں نے ان کے دور کو دیکھا ہے اور میں انہیں جانتا ہوں۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'میرے دل میں فردوس بیگم کے لیے بے انتہا محبت اور عزت اس لیے بھی تھیی کہ اس زمانے میں فردوس بیگم، میڈم نور جہاں اور اعجاز درانی کے درمیان ایک تکون تھی۔ میڈم نور جہاں کی آواز فلموں کے گانوں پر چلتی تھی اور فردوس بیگم کے ہیرو اعجاز درانی ہوتے تھے، جن کے لیے فلم میں وہ گانا گا رہی ہوتی تھیں۔ یہ تکون بہت مشکل تھی کیونکہ اعجاز درانی میڈم نور جہاں کے شوہر تھے لیکن وہ اور فردوس بیگم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ اس کے باوجود فردوس بیگم یا میڈم نور جہاں نے اپنے ذاتی مسائل کو کام کے آڑے نہیں آنے دیا۔'
بقول عمر عادل: 'فردوس بیگم کی فلموں کے بیشتر گانوں پر میڈم نور جہاں کی آواز ہے۔ ان کی یہ تکون ویسے تو تباہ کر دینے والی تھی مگر تینوں فنکاروں نے اپنی فن کے ذریعے اپنے فن پر حرف نہیں آنے دیا اور نہ ہی ذاتی رنجش کو کبھی اپنی کارکردگی پر اثر انداز ہونے دیا۔'
فردوس بیگم نے دو شادیاں تھیں، پہلی اداکار اکمل جبکہ دوسری اعجاز درانی سے۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمر عادل نے مزید بتایا: 'فردوس ایک عقل مند خاتون تھیں، اس عمر میں بھی وہ مہینے کے 50 سے 60 لاکھ روپے گھر بیٹھے کماتی تھیں کیونکہ انہوں نے فلموں سے حاصل ہونے والے پیسے کو کاروبار میں لگایا۔ اپنے گھر کے سامنے فردوس مارکیٹ بنائی اور گھر کے اگلے حصے میں فرنیچر کی دکانیں کرائے پر چڑھا دیں۔ وہ ایک مکمل خاتون تھیں جنہوں نے بھرپور زندگی گزاری۔'
دوسری جانب ہدایت کار سجاد گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'فردوس بیگم پاکستانی سلور سکرین کی خوبصورت اداکارہ تھیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ ہیر کے کردار میں انہیں کون بھول سکتا ہے؟ میں بہت کم عمری سے ان کا مداح تھا۔ مگر 30 برس قبل مجھے ان کے ساتھ ایک فلم کرنے کا موقع ملا اور میں نے انہیں قریب سے جانا۔ بطور انسان بھی وہ ایک بہت ہی عاجزی و انکساری والی خاتون تھیں، اگرچہ کم گو تھیں مگر ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔'
فردوس بیگم نے 150 سے زائد پنجابی، اردو اور پشتو فلموں میں کام کیا ہے اور ان فلموں کے ساتھ ساتھ ان کی موسیقی بھی آج تک مشہور ہے۔
فردوس بیگم کو شام چھ بجے لاہور کے گلبرگ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ان کے انتقال پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور ان کی معاون خصوصی فردوس عاشق ایوان نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔