’گلوکاری میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، کامیاب وہی ہوتا ہے جو سُروں پر عبور رکھے، جس کا ریاض گہرا ہو، جو پکے راگوں کو ادا کرنے کی خوبی جانتا ہو۔‘
یہ کہنا تھا سروں کی شہزادی مہناز کا۔ ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ ’پاپ گلوکاری کوئی بہت بڑا فن نہیں، اصل گلوکار تو وہ ہے جو اونچے اور نیچے سروں میں نغمہ سرائی کرے۔‘
گلوکارہ مہناز نے اُس دور میں اپنے لیے الگ اور منفرد جگہ بنائی جب پاکستانی فلم نگری میں نور جہاں، ناہید اختر اور رونا لیلیٰ جیسی گلوکاراؤں کا طوطی بولتا تھا۔ گلوکاری کا شوق والدہ اور مغینہ کجن بیگم کی وجہ سے ورثے میں ملا، لیکن برسوں کے ریاض اور پھر ان تھک محنت لگن سے مہناز نے والدہ کے برعکس بلند مقام پایا۔
گیت ہو، غزل یا پھر ہلکا پھلکا نغمہ یا ترانہ، مہناز نے ہر صنف میں ڈوب کر گلوکاری کی۔ کیا یہ کم کمال نہیں کہ انھوں نے 332 فلموں کے لیے گیت گائے۔ کانوں میں رس گھولنے والے گیت مجھے، دل نہ بھولنا، وعدہ کرو ساجناں، میں جس دن بھلا دوں، میرا پیاربھی تو، بیتے برسوں میں کوئی بھی ذہن سے نکال نہیں پایا۔
مہناز کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ 1977 سے 1983 تک دلوں کے تار چھیڑتی ہوئی اپنی آواز پر مسلسل سات برس تک بہترین گلوکارہ کے نگار ایوارڈز کی حقدار ٹھہریں جبکہ مجموعی طور پر انھوں نے 10 بار یہ ایوارڈ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔
مہناز کا فنی سفر 1970 کی دہائی میں ریڈیو سے شروع ہوا اور ابتدا میں ہی انھیں مہدی حسن کے بھائی پنڈت غلام قادر کی ترتیب دی ہوئی موسیقی پر گلوکاری کا موقع ملا۔ اس گیت کو مہناز نے کسی منجھی ہوئی گلوکارہ کی طرح گایا تو نغمہ ہی نہیں وہ خود بھی مشہور ہو گئیں۔
جبھی ان کی شہرت ٹی وی پروڈیوسر امیر امام تک پہنچی جنھوں نے مہناز کے غیر معمولی فن کو اور نکھار کر پیش کرنے کی ٹھانی۔ سہیل رانا کا بطور موسیقار جبکہ سرور بارہ بنکوی کے کلام کا انتخاب ہوا۔ گیت ’نیناں جاگتے رہنا‘ کو جب ٹی وی پروگرام ’نغمہ زار‘ میں پیش کیا گیا تو مہناز کی شہرت فلمی دنیا تک جا پہنچی۔
اس گانے نے مہناز کو مقبولیت کی راہوں پر گامزن کر دیا، جس کے بعد شروع ہوا مہناز کا وہ کامیاب فنی سفر جو چار دہائیوں تک پھیلا رہا۔
گلوکارہ مہناز کا کہنا تھا کہ گلوکاری کا انھیں کبھی شوق نہیں تھا، کراچی کے سرسید کالج سے بی اے کرنے کے بعد نوکری کی غرض سے باقاعدہ ٹائپنگ سیکھی۔ والدہ کی خواہش اور گھریلو کفالت پوری کرنے کے خاطر انھیں مجبوراً گلوکاری کا رخ کرنا پڑا۔
مہناز کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ انھیں ابتدا سے نثار بزمی، روبن گھوش، ناشاد، سہیل رانا اور اے حمید جیسے موسیقاروں کا ساتھ میسر رہا۔ جنھوں نے مہناز کو ’مہناز‘ بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہناز کو خود روبن گھوش اور بزمی صاحب کی ترتیب دی ہوئی دھنیں پسند تھیں، بالخصوص موسیقار بزمی نے مہناز سے بڑے خوبصورت اور مسحور کن گیت گنوائے۔
مہناز کا پہلا سپر ہٹ گیت ’میرا پیار ترے جیون کے سنگ رہے گا‘ بھی بزمی صاحب کی ہی تخلیق تھی۔
مہناز کا گیت ہر بڑی اداکارہ پر فلمایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک گانے کے لیے مہناز نے کامیڈین منور ظریف تک کے لیے پس پردہ گلوکاری کی۔ یہ 1975 میں لگنے والی فلم ’شرارت‘ تھی، جس کے ایک گانے کے لیے منور ظریف نے رقاصہ کا بہروپ بدلا تھا۔
مہناز زندگی بھر تنہا رہیں۔ ان کی گفتگو سے یہ تاثر ضرور ملتا تھا کہ وہ خود شادی کی خواہش مند تھیں، لیکن والد اور والدہ کی وفات کے بعد چار بھائیوں کی ذمے داری اٹھانے کے لیے وہ فلم نگری میں حد درجہ مصروف ہو گئیں۔
ان کے مطابق شادی کی نہیں جاتی، ہو جاتی ہے اور یہ سب اللہ کے کام ہوتے ہیں۔ گھر کی گاڑی کھینچتے کھینچتے جب انھوں نے پیچھے پلٹ کر اپنی نجی زندگی کی طرف دیکھا تو وہاں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اپنی زندگی کو اپنے ہی گیت ’اپنے لیے تو جیتے ہیں سب جہاں میں ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘ سے تعبیر کرتیں۔
مہناز نے مختلف شعرا کرام کی غزلوں کو بھی کمال خوبی سے گایا۔ بالخصوص احمد فراز کے کلام ’اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں‘ تو جیسے ان کی پہچان بن گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شوز میں خاص طور پر اس غزل کی فرمائش کی جاتی۔
کیسی عجیب بات ہے کہ مہناز کو فلمی گلوکاری پسند نہیں تھیں بلکہ وہ سٹیج شوز پر پرفارمنس پسند کرتیں کیونکہ وہاں فوراً داد جو مل جاتی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جب 1988 کے انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور ان کے وزیراعظم بننے کے قومی امکان پیدا ہوئے تو خصوصی طور پر جمیل الدین عالی نے ایک گیت ’ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں‘ لکھا جسے انتہائی قلیل مدت میں مہناز کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے جیسے ہی وزیراعظم کا حلف اٹھانے کا عمل مکمل کیا تو پی ٹی وی نے فوراً اس گیت کو نشر کرکے بے نظیر بھٹو کی خراج تحسین پیش کیا۔
گلوکارہ ناہید اختر اور ملکہ ترنم نور جہاں ان کے فن اور کام کی معترف رہیں۔ مہناز کا کہنا تھا کہ ناہید اختر پراعتماد گلوکارہ رہیں جو اگر غلط بھی گا رہی ہوتیں تو اس پر ڈٹ جاتیں۔
ایک زمانے میں ان کی اور ناہید اختر کی بات چیت طویل عرصے تک بند بھی رہی۔ بعد میں جب غلط فہمیاں دور ہوئیں تو دونوں گہری سہیلیاں بن گئیں۔
مہناز کے مطابق ملکہ ترنم نور جہاں جب بستر مرگ پر تھیں تو وہ ان سے ہسپتال ملنے گئیں۔ میڈم بیماری کی وجہ سے انتہائی کمزور ہوچکی تھیں، لیکن اس حالت میں بھی وہ مہناز کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور نحیف آواز میں فرمائش کی کہ مہناز انھیں اپنا نغمہ ’دیار غیر میں کیسے بسر ہو گا‘ سنائیں۔
مہناز کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملکہ ترنم کی یہ خواہش رد نہیں کی۔ جیسے جیسے وہ گنگناتی رہیں نور جہاں کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں، آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو ملکہ ترنم کی آنکھوں سے بہتا ہی چلا گیا۔